۔”حشراتُ الارض”۔

1969

قاضی مظہر الدین طارق
آئیے !آج ایک بالکل نئی دنیا کی طرف چلتے ہیں۔
یہ حشرات کی دنیا ہے،اب تک صرف حشرات’انسیکٹس‘ کی نو لاکھ مختلف اَقسام ’اسپیشیز‘ اس زمین پر شناخت کی جا چکی ہیںجو سب قبیلوں میں سب سے زیادہ تعداد میں ہیں۔خیال ہے کہ بیس فیصد اور بھی ہیں جن کو اب تک شناخت نہیں کیا جا سکا ہے،(یاد رہے یہ صرف چھے پیر والے کیڑوں مکوڑوں کی بات ہو رہی ہے،چھے سے زیادہ پیروں والے جیسے: مکڑی، کیکڑے، صد پا ،وغیرہ۔اور دیگر سارے ’آرتھوپوڈز‘ ان میں شامل نہیں) ۔
یہ تو دور کی بات ہے کہ زمین پر ہم کواِن سے کیا فائدہ ہے ،اِن کی سب سے بڑی اہمیّت یہ ہے کہ اگرکسی بھی وجہ سے ان کی ساری یاچند نسلیںبھی ختم ہو جائیں تو سبزیاں اور پھل جو ہم مزے لے کر کھاتے ہیں زمین سے ناپید ہو جائیں گے ،نہ شہد ہوگا نہ ریشم ،کیا یہ کچھ کم نقصان ہوگا؟
صرف ایک شہد کی مکھی اتنے پھلوں اور سبزیوں کی ’پولی نیشن‘ میں مدد دیتی ہیں کہ اگر یہ نہ ہوتی توہم شہد کے علاوہ تین چوتھائی پھلوں اور سبزیوں سے محروم ہو جاتے۔
اس کے بر خلاف اگر سب انسان بھی اس زمین سے رُخست ہوجائیں تو اس زمین کی زندگی پر کچھ نمایاں فرق نہ پڑے سوائے اس کے کہ چند جونؤں اور پیٹ کے کیڑوں کو غذا کی تلاش میںذراسی مشکل ہوگی۔
پھردوسرے جانوروں کے مقابلے میںحشرات کی زندگی بھی عجیب زندگی ہے۔پیدا ہونے کے بعد، چارچار،چھے چھے، آٹھ آٹھ بالکل مختلف شکلیں تبدیل کرکے جوان ہوتی ہیں۔
حشرات اُس خاندان ’فائیلم ‘سے تعلق رکھتے ہیں جس کا نام ’آرتھو پوڈا‘ ہے۔’آرتھو‘ معنی جُڑے ہوئے، ’پوڈ‘معنیٰ پیر۔ان کے جسم کی ساخت کو قائم رکھنے کے لئے جسم کے اندر زِندَہ ہڈیوں کے بجائے باہر مُردہ خَول ہوتا ہے،جب یہ پیدا ہوکر نشونما پاتا ہے تو ان کے جسم کے لئے پرانا خَول چھوٹا پڑجاتا ہے ۔ہربار ان کو اپنا خول توڑ کر باہر آنا پڑتا پھر ان کو نیا خَول ملتا ہے۔
پھراِن میںکسی کی آدھی سے زیادہ زندگی پانی کے اندر گزرتی ہے،کوئی پھولوں کا رس چوستا ہے تو کوئی خون،کوئی دوسرے کیڑوں کو کھاتا ہے توکوئی اپنے سے بڑے جانوروں کا گوشت، تو کوئی نباتات۔
سب سے حیرت انگیززندگی ریشم کے کیڑے کی ہے ،جوجوان ہونے کے بعد کچھ کھاتا ہی نہیں صرف انڈے دیتا ہے اور مرجاتا ہے۔
اس صفحے پر ہم صرف چند ایک نمونے ہی پیش کر یں گے۔
تِتْلیاں:
یہ درخت کے پَتَّوں پر انڈے دیتی ہیں،اس سے رینگنے والا کیڑے’کیٹرپلّرز‘پیدا ہوتے ہیں ،جواِن ہی پَتَّوں کو کھاتے ہیں، بڑے ہوتے جاتے ہیں،خَول بدلتا جاتا ہے ،پھرآخر میں خود اپنے اطراف ایک خَول بنا کر خود ہی اس میں قید ہو جاتے ہیں،ہے کوئی جو اپنی مرضی سے اپنی قید خود پسند کرے؟ اس کی زندگی کے اس حصے کو ’پیوپا‘ کہتے ہیں،دیکھنے میں تو یہ مُردہ لگتا ہے کھاتاہے نہ پیتا ہے، لیکن اس کے اندر اتنا زبردست کام ہورہا ہے جو باہر سے نظربھی آتا ہے،پورے کاپورا ڈزائین ہی تبدیل ہوتا ہے، ایک رینگنے والے کیڑے سے ایک اُڑنے والی تِتْلِی بن کر باہر آ رہا ہے،اس میں حیرت بھی ہے اور غور و فکر کا اعلیٰ مقام بھی۔
شہد کی مکھیاں:
اس کی تین قسمیں ہیں:
پہلی قسم،ملکہ مکھی :اس کے پیدا ہو کر بڑا ہونے تک ۱۶ دن لگتے ہیں ،اس کی زندگی۲سے ۳ سال کی ہوتی ہے ۔
دوسری قسم، مَکّھے(ڈرونز):ان کوپیدا ہوکربڑے ہو نے تک۲۴ دن لگتے ہیں،ان کی زندگی دو ہفتے کی ہوتی ہے۔
تیسری قسم، مزدور مکھی(ورکر)،۲۱دن میں بڑی ہوتی ہے،اور ۶ہفتے تک زندہ رہتی ہے۔
ایک چھتّے میں تقریباًپچاس ہزار مکھیاں ہوتی ہیں۔
ملکہ مَکّھی کا کام صرف انڈے دینا ہے۔ایک چھتّے میں ایک سے زیادہ ملکہ مکھیاں پیدا ہوجائیں ، تو ایک مکھی کا فرض ہرتا ہے کہ وہ اپنی سب بہنوں کو ختم کر دے۔ملکہ مکھی اپنے چھتّے سے دور جا کردوسرے مَکھے تلاش کرتی ہے۔
مَکّھے ، ملکہ مکھی کو ڈھونڈ کر ان سے ملتے ہیں اوراس کے بعد فوراً ہی مرجاتے ہیں۔
پھرملکہ اپنے چھتّے میں واپس آکر اس کے ہر خانے میں ایک انڈہ دیتی ہے،تین سے چار دن میں اس میں سے لاروا نکلتا ہے، جس کو مزدور مکھی کھلاتی ہے۔
جب کئی مرتبہ جون تبدیل کرنے کے بعد لاروا بڑا ہوجاتا ہے تو آخر میںپیوپا میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
پیوپا کے اندردو ہفتے تک زبردست تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں، جس کے بعد وہ مکھی بن کر اپنے سخت اور مُردہ خَول کو توڑ تی ہے اور خانے سے باہرآ جاتی ہے۔
چیونٹیاں:
اس کی بھی تین قسمیں ہوتی ہیں:
پہلی قسم ،ملکہ چیونٹی۔
دوسری قسم،نر چیونٹا’ڈرون‘۔
تیسری قسم،کام والی’ورکر چیونٹی‘۔
ملکہ چیونٹی ہزاروں کی تعداد میں انڈے دیتی ہیں۔اِن سے تین قسم کے لاروے نکلتے ہیں، جن کو کام والی چیونٹیاں غذا تیار کرکے فراہم کرتی ہیں۔لاروے کھا کھا کر جب موٹے ہوتے جاتے ہیں تو ہر بار اپنا نر م خَول بدلتے جاتے ہیں۔
پھرآخر میں وہ لاروے سخت خَول والے پیوپوں میں خود اپنے آپ کو بند کر لیتے ہیں۔اور پیوپوں میں خالق جیسے چاہتا اُن کو نرم کیڑوں سے بالکل مختلف ڈیزائیں میں بنا کر باہر نکال ے آتا ہے، اِن میں سے چند ملکہ بناتے ہیں چند سونر چیونٹے’ڈرونز‘ بناتے ہیں، اور لاکھوں کی تعداد میں کام والی چیونٹیاں ’ورکر‘مادہ پیدا کرتے ہیں مگریہ انڈے نہیں دے سکتیں۔
کام والیاں کئی قسم کی ہوتی ہیں،پورے کنبے کی حفاظت کرنے والیاں’فوجی‘،باہر سے پتّے دانے لانے والیاں’شکاری‘، اِن کو جراثیم سے پاک کرنے والی ’صفائی والیاں‘،پھروہ چیوٹیاں جو سخت دانوں اور پتّوں کو خانوں میں جما کر اِس سے نرم پھپوند اُگاتی ہیں ’کاشتکارچیونٹیاں‘، تب جاکرلاروں اور پورے کنبے کو کھلاتی ہیں۔
اِن سب کے اعضاء اِن کے کام کے مطابق ہوتے ہیں،جیسے فوجی کے کاٹنے والے،شکاری چبانے والے ،صفائی والوں کے منہ سفنج جیسے تاکہ اِس سے وہ اپنے انزائیمز کا پوچا لگا سکیں۔
کھٹمل:
اِس کی زندگی ان تینوں سے مختلف ہے۔سب سے پہلے انڈے سے ایک بچہ نکلتا ہے جس کو ’نِمْف‘ کہا جاتا ہے،یہ بچہ تقریباً اپنے ماں باپ جیسا ہی ہوتا ہے،صرف رنگ کا فرق ہوتا ہے، شروع میں یہ بہت چھوٹا اوراِس کا رنگ بالکل ہلکہ ہوتا ہے،جیسے جیسے بڑا ہوتا جاتا ہے ،اس کارنگ بھورا پھر سُرخ ہوتا جاتا ہے۔
خاص کر’نمف‘بچے انسانی خون زیادہ پسند کرتا ہے،جب یہ خون پی کر اپنے سخت اور بے جان خَول کو توڑ کر باہر آجاتا ہے،توپھر رب تعالیٰ اس کو دوسرا خَول عطا کرتا ہے،اس کو بچپن سے جوانی تک پانچ بار اپنا خَول بدلنا ہوتا ہے،پانچویں بار جب یہ اپنی جون بدلتا ہے تو مکمل جوان ہو چکا ہوتا ہے،اب وہ جو خون پیتا ہے تواس کارنگ زیادہ سُرخ اور پیٹ لمبا ہو جاتا ہے۔
توجہ کیجیے! اب تک ’اِنسیکٹس ‘کی نولاکھ(۰۰۰,۹۰۰) مختلف اَقسام’اسپیشیز‘دریافت ہو چکی ہیں ۔ان کو دریافت کرنے والوں،نام رکھنے والوں،پڑھنے اور پڑھانے والوں میں کوئی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جو کہے کہ’’اللہ کے پاس ’چوآئیس‘نہیں تھی،اُس نے جو بنادیا سو بنادیا،‘‘۔اس زمین پر زندگی کاربن کی بنیاد پر ہے،کیا وہ چاہتا تو سیلیکون کی بنیاد پر حیات کو تشکیل نہیںدے سکتا تھا؟

حصہ