قبولیت کا چاند

614

عظمیٰ ابونصر صدیقی
سفید سنگ مرمر سے بنی وہ حسین کوٹھی باہر سے ہی گویا سحر زدہ کیے دیتی تھی‘ بیرونی دیوار مکمل طور پر سرسبز بیلوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ ہارن سن کر چوکیدار نے دروازہ کھولا اور گاڑی پورچ میں جا رکی‘ اس کی آنکھیں سفید چمکدار کوٹھی کی دیواروںکی چمک سے چندھیا سی گئیں‘ دائیں جانب مخملیں گھاس اور طرح طرح کے پھولوں سے مزین باغیچہ اپنی جانب متوجہ کیے جاتا تھا مگر وہ سحر زدہ سی ہمایوں کے ساتھ چند سیڑھیاں چڑھ کر کوٹھی کے اندرونی حصے کی جانب چلی جارہی تھی‘ ہمایوں نے دروازہ کیا کھولا اس کے خوابوںکی دنیا سامنے آموجود ہوئی۔
سامنے سفید رنگ کے صوفے‘ پیروں کو دھنسا دینے والا مخملیں قالین‘ دیواروں پر سنہرے اور سبز حسین امتزاج کے پردے اور ہر جانب ہیروں سا چمکتا دمکتا نازک کانچ کی آرائشی سامان… وہ بنا پلکیں جھپکائے دیکھے جارہی تھی۔ وہ خود نہایت نفیس کام کا کاسنی لباس زیب کیے ہوئے تھی‘ ہمایوں نے اس کاسفید مرمریں ہاتھ تھاما ہوا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا ’’ستائش! آج سے یہ گھر تمہارا ہے بلکہ میں خود…‘‘ اور لائٹ چلی گئی۔
’’کیا ہے؟ یہ بھی کوئی وقت ہے بجلی کے جانے کا؟ ثنا نے ٹی وی کا ریموٹ پٹخا‘ اس کی آنکھوںمیں وہ حسین منظر ابھی تک قید تھا‘ وہاں ستائش نام کی کوئی ٹی وی ایکٹریس نہ تھی بلکہ وہ خود تھی… بذات خود۔ وہ مکمل طور پر ڈراما میں محو تھی کہ بجلی کے جانے سے سارا مزا کرکرا ہوگیا۔
’’اوہ چار بج گئے… چھ بجے عرفان آجائیں گے اور صفائی بھی نہیں ہوئی…‘‘ اس کے ہاتھ تیزی سے چلنے لگے ‘ کشن سمیٹتے‘ جھاڑو لگاتے‘ چیزوں کو جھاڑتے اس کا دماغ مسلسل منفی سوچوں کی آماج گاہ بنا ہوا تھا‘ بھلا یہ بھی کوئی زندگی ہے‘ دو کمروں کا قید خانہ‘ نہ حسین صوفے‘ نہ دبیز قالین‘ نہ قیمتی شو پیس اور نہ کوئی باغیچہ… اسے اپنے قسمت بنانے والے سے خوب شکایت تھی‘ ساتھ ہی اپنی ماں سے بھی کہ جس نے شہزادیوں جیسے خواب دیکھنے والی بیٹی کو ایک ایسے شخص سے بیاہ دیا جس کا دماغ صرف حلال حرام میں ہی الجھا رہتا ہے‘ بڑی بات ہے کہ کوئی خوب صورت پرتعیش سا فلیٹ ہی لے دیں اچھی خاصی ملازمت ہے ذرا سا اصولوں میں نرمی کرلیں تو ہمیں کیا کچھ میسر نہیں ہو سکتا۔ نہ کسی کو بلا سکتے ہیں اور نہ کسی کو دکھا سکتے ہیں۔ وہ غصے میں زور زور سے جھاڑن صوفوں پر مارنے لگی‘ اس کا خواب جو ٹوٹا تھا۔
…٭…
ثنا اپنے والدین کی دوسری بیٹی تھی‘ اس سے بڑی ایک بہن اور تھی اور اس کے بعد ایک بھائی‘ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی ثنا کی اوّل اور آخر تفریح صرف ایک تھی یعنی ٹی وی دیکھنا‘ کالج سے آکر بھی اس کی تھکن ڈراما دیکھنے سے اترتی‘ ذمے داری کوئی خاص تھی ہی نہیںکہ امی اور آپ نے گھر اچھی طرح سنبھالا ہوا تھا‘ گلیمر سے بھرپور ڈرامے دیکھتے دیکھتے نہ جانے کب اس کی آنکھوں نے مہنگے ترین خواب دیکھنے شروع کردیے‘ وہ تصور میں خود کو ایک ملکہ کے روپ میں دیکھتی اور روز نئے محلات میں سے کسی محل میں اپنی سلطنت بنا لیتی۔
بی اے کرتے ہی اس کے والدین نے نیک و شریف لڑکا دیکھ کر ثنا کوعرفان سے بیاہ دیا اور یوں وہ کچھ نئے خواب بنتی دو کمروں کی سلطنت میں آ بیٹھی اور اب جو نئے سرے سے پرانے خواب ادھڑنے لگے تو وہ روز بروز چڑچڑی ہوئی چلی جارہی تھی‘ کچھ طبیعت گری گری رہنے لگی تھی کچھ دماغ میں خالی گھر میں کباڑ خانے کی مانند خیالات کی بوچھاڑ سی تھی جو زبان سے نا مناسب الفاظ کی صورت نکلتی اور عرفان کو اداس کر دیتی۔
عرفان اپنی اس حسین و نک چڑی بیوی سے بے تحاشا محبت کرتا تھا‘ اس کا خیال رکھنا اس کے نخرے اٹھانے‘ گھمانا پھرانا غرض اس نے اپنی طرف سے کوئی کسر نہ چھوڑی تھی‘ وہ محبت میں بہت کچھ سہہ جانے کا قائل تھا مگر جو اصول اس نے خود منتخب کیے تھے ان میں ہرگز لچک نہ دکھاتا‘ بہترین ملازمت میں کمانے اور کھانے کے بہترین موقع وہ اپنے ایمان پر پرکھتا اور حرام چاہے کتنا دلفریب ہو‘ چھوڑ دیتا… اس کی یہ حسین عادت اسے مستجاب الدعوات بنائے دیتی تھی کہ وہ رب سے جو مانگتا اسے مل جاتا اور اب اس کی دعائوں میں اس کی بیوی کے ناشکرے پن کے خاتمے کی دعا بھی شامل تھی اور اسے یقین تھا کہ اس کی یہ دعا ضرور قبول ہوگی۔
…٭…
زبیدہ کو ان کے گھر میں کام کرتے آج چوتھا دن تھا‘ ثنا کی طبیعت کی پیش نظر عرفان نے گھر کی صفائی‘ برتن اور کپڑوں کے لیے ماسی کا انتظام کر لیا تھا‘ وہ تھا ہی ایسا بے حد خیال رکھنے والا۔
’’باجی آپ تو بے حد خوش نصیب ہو جو ایسا چاہنے والا شوہر ملا…‘‘ اس کی ڈریسنگ ٹیبل سے گرد صاف کرتی وہ ثنا سے کہہ بیٹھی۔
’’اچھا…؟ ابھی تمہیں کام کرتے صرف چار دن ہوئے ہیں اور تم یہ کہنے لگیں؟ تمہیں کیا پتا کہ عرفان کیسے ہیں؟‘‘ وہ مالٹے کے جوس کی چسکی لیتے ہوئے بولی۔’’ارے باجی! محبت تو ایک ہی نظر میں پہچان لی جاتی ہے‘ پتا ہے مجھ سے ملازمت کی بات کرتے ہوئے بھائی نے کہا تھا کہ میری بیوی کا بے حد خیال رکھنا اسے تم سے کوئی شکایت یا تکلیف نہ ہو… بھلا ہر آدمی کیا ایسا سوچتا ہے؟‘‘ وہ وہیں بیٹھ گئی۔
’’ہوں… شاید تم ٹھیک کہتی ہو۔‘‘ ثنا نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
’’شاید نہیں باجی بالکل ٹھیک کہہ رہی ہوں‘ نہ جانے کتنے بنگلوں میںکام کیا ہے‘ کتنے گھروں کو دیکھا ہے مگر اتنا زیادہ خیال رکھنے والا اور محبت کرنے والا شوہر نظر سے نہیں گزرا۔‘‘
’’اچھا تم نے بنگلوں میں بھی کام کیا ہے؟ کیسے ہوتے ہیں وہاں کے رہنے والے…؟‘‘ اندر کچھ حسین خواب پھر کلبلانے لگے۔
’’جی باجی! میرا شوہر چوکیدار تھا تو اکثر مجھے ساتھ ہی رکھتا تھا‘وہاں ملازموں کے الگ کمرے ہوتے ہیں ناں… مگر زیادہ تر بنگلوں میں ایک چیز زیادہ محسوس ہوئی بناوٹی لہجے‘ تکلفات پتا نہیں محبت ہوتی نہیں تھی یا نظر نہیں آتی تھی‘ پھر بڑا دل کڑھتا تھا جب اتنے بڑے بڑے بنگلوں میں بس بڈھا بڑھیا باقی بچتے تھے باقی سب دوسرے ملکوں کی طرف اُڑ جاتے… دولت اور مزید دولت کے چکر میں ساری رشتے داریاں اور محبتیں گم ہو جاتیں اور رہ جاتی صرف خود غرضی۔‘‘ وہ بولی تو پھر بولتی ہی چلیگئی۔
’’اب ہر جگہ تو ایسا نہیں ہوگا ناں زبیدہ۔‘‘ اس نے خود کو تسلی دی۔
’’ہاں ہو سکتا ہے نہ ہو مگر میرا تجربہ کہتا ہے محبت اور عزت سے بڑھ کر عورت کے لیے کوئی دولت نہیں‘ آپ نے سنا نہیں باجی جسے پیا چاہے وہی سہاگن کہلائے‘ میرا شوہر بھی مجھے بہت چاہتا تھا‘ وہ ساتھ تھا تو ایک کمرے کا گھر بھی میرے لیے محل جیسا تھا پر اب وہ نہیں تو جیسے کڑی دھوپ میں آگئی ہوں۔‘‘ وہ اپنے شوہر کو یاد کرکے رو پڑی تھی۔
ثنا کے دل کو کچھ ہوا ور وہ اسے تسلی دینے لگی۔
…٭…
رمضان شروع ہو چکے تھے‘ اس نے ٹی وی دیکھنا بہت کم کر دیا تھا‘ اکثر ہلکی آواز میں تلاوت سنتی رہتی کہ تلاوت سے بچے کی ذہانت میں اضافہ ہوتا ہے‘ سحر و افطار کی دعائوں میں اکثر چپکے سے وہ سفیدموتیوں جیسا محل چلا آتا اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے اس گھر سے موازانہ کرنے لگتی۔
’’باجی اس آیت کا کیا مطلب ہے؟‘‘ دیوار پر لگی قرآنی آیت کی خوب خطاطی والی تصویر کو کپڑے سے صاف کرتے زبیدہ اس سے پوچھ بیٹھی۔
اس نے بے اختیار نظریں اٹھائیں… ’’پتا نہیں… یہ تو عرفان نے لا کرلگائی تھی نہ جانے کیا معنی ہوں گے۔‘‘ وہ پڑھی لکھی ہو کر آیت کا ترجمہ نہ جاننے پر چور سی بن گئی۔ وہ ہینڈ فری لگائے تلاوت سن رہی تھی کہ اسے وہی آیت سنائی دی‘ اس نے جلدی سے موبائل پر سرچ کیا… ایک نظر پھر دیوار پر آویزاں آیت کو دیکھا۔ یہ سورۃ حدید کی پہلی آیت تھی ترجمہ: دنیا کی زندگی ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں… آگے آخرت کی بات تھی‘ جنت کی بات تھی وہ پڑھتی چلی گئی اور اس کی آنکھیں کھلتی چلی گئیں۔ اس نے لفظ جنت لکھا اور پھر سرچ کا کا بٹن دبا دیا‘ وہ سفید موتیوں سا محل‘ حسین باغات‘ ملازموں کے قطاریں‘ ہرمن بھاتی چیز… اسے لگا وہ دھوکے میں تھی… میڈیا کی ڈرامائی چکا چوند نے اسے دھوکے میں ڈال رکھا تھا‘ اس کی آنکھوں میں بے اختیار پانی جمع ہونے لگا‘ اسے اپنی ایک ایک بات یاد آنے لگی جو اس نے عرفان کو کہی اسے بار بار حرام کی جانب راغب کیا‘ اپنی نا تمام خواہشات کے آگے کئی بار اس کی پُرخلوص محبت کو ٹھکرایا… اس کے باوجود وہ میرے ساتھ بہترین سلوک کرتا رہا میرے نامناسب رویے کو نظر انداز کرکے میرا خیال کرتا رہا‘ اسے تو وہاں جنتوں کے حسین محل اور ہر پسندیدہ شے مل جانی تھی میرا کیا ہوگا؟ میں دنیا کی جانب دوڑ رہی تھی اور وہ جنت کی طرف سبقت لے جارہا تھا…‘‘ آنسو تواتر سے اس کے چہرے کو بھگو رہے تھے۔
…٭…
’’کیا بات ہے؟ سب خیریت ہے ناں؟‘‘ افطار پر ثنا کے سُتے ہوئے چہرے کو دیکھ کر عرفان سے رہا نہ گیا اور وہ جو کب سے اس کا سامنا کرنی سے کترا رہی تھی‘ ایک دم ہی رو پڑی۔
’’ارے… ارے… سب ٹھیک تو ہے ناں؟‘‘عرفان اس کے آنسوئوں سے گھبرا سا گیا۔
’’جی… سب ٹھیک ہے‘ افطار ہونے کو ہے چلیں دعا مانگیں۔‘‘ اس نے بمشکل تمام خود پر قابو پایا۔
’’اچھا کیا دعا مانگوں؟ یا اللہ ہمیں چاند سا…‘‘ عرفان نے شرارتی انداز میں کہا تو وہ مسکرائے بغیر نہ رہ سکی۔
’’یہ دعا مانگیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں بھی آپ کا ساتھ عطا فرمائے‘ ہمیں ہمیشہ رزق حلال عطا فرمائے اور اس میں بہت برکت دے‘ آمین۔‘‘ اس نے بڑے جذب سے دعا مانگی۔
’’آمین…‘‘ عرفان نے حیرت سے اپنی دعا پوری ہوتے دیکھی۔ ثنا کا ہاتھ تھاما اور چپکے سے پوچھا ’’آج عید کا چاند نظر آگیا ہے کیا؟‘‘ اوروہ نم مسکراہٹ لیے جھینپ سی گئی۔

حصہ