عید میٹھی، خوشیاں پھیکی

883

زاہد عباس
’’دیکھ بانو! بات کو سمجھ، ضد نہ کر۔ میرے پاس واقعی پیسے نہیں ہیں۔‘‘
’’تو میں کیا کروں؟ یہ تمہارا کام ہے، جہاں سے مرضی بندوبست کرو، کہیں سے بھی لاؤ، بچوں کے کپڑے بنانے ہیں اور دوسری خریداریاں بھی کرنی ہیں۔ ابھی عید آئی نہیں اور تم پہلے سے ہی جیب خالی کربیٹھے ہو۔‘‘
’’ایسی باتیں نہ کر، ہر تہوار پر دل کھول کے خریداری کیا کرتی ہے، پہلی مرتبہ ہاتھ تنگ کیا ہوا سب کچھ بھلا کر جو منہ میں آئے بولے جارہی ہے!‘‘
’’میں نے کون سی برائی کردی، کون سا پہاڑ گرا دیا جو خریداریاں گنوانے لگے ہو۔ ارے میں بیوی ہوں تمہاری، میری ضرورتوں کا خیال رکھنا اور انہیں پورا کرنا تمہاری ہی ذمہ داری ہے۔ تم سے نہ کہوں تو کیا محلے والوں کے آگے فریاد کروں! یہ بچے میرے ساتھ نہیں آئے تھے، تمہاری ہی اولاد ہیں، انہی کے کپڑے بنوانے کا کہہ رہی ہوں، ورنہ مجھے کون سے کمخواب کے سوٹ بنوانے ہیں! جو ملتا ہے صبر شکر کرکے گزارہ کرلیتی ہوں، لیکن بچے تو بچے ہیں، عید انہی کی ہوتی ہے۔‘‘
’’اُف میرے خدایا، کس قدر بولتی ہے یہ بے عقل!‘‘
’’اوہو عقل مند کو تو دیکھو، جیسے کسی لارڈ صاحب کے مشیر خاص ہوں۔ پیسے کیا مانگ بیٹھی، بے عقل ہوگئی! جو بھی کہو بس پیسے دو، عید سر پر ہے، ساری تیاری کرنی ہے۔‘‘
’’بانو تیری سمجھ میں کیوں نہیں آرہا کہ پیسے نہیں ہیں، تُو کیوں بات کو خوامخواہ بڑھا رہی ہے! یہ تو سوچ تیری باتوں سے بچوں پر کیا اثر پڑے گا۔ ایسی باتیں بچوں کے سامنے نہیں کیا کرتے، ان کے ذہن ابھی چھوٹے ہیں، اس عمر میں ایسی باتیں سنیں گے تو احساسِ کمتری کا شکار ہوجائیں گے، تجھ کو اگر اس قسم کی کوئی بھی بات کرنی ہوا کرے تو اکیلے میں کرلیا کر، ان معصوموں کے سامنے مجھے شرمندہ نہ کیا کر۔‘‘
’’زینب کے ابو تم نے یہ سوچ بھی کیسے لیا کہ میں تمہیں شرمندہ کررہی ہوں؟ تم کیا سمجھتے ہو میں تمہاری دشمن ہوں؟ ارے تم میرے شوہر ہو، اور میں جانتی ہوں کہ تمہاری عزت کرنا میرا فرض ہے، ایسی کوئی بات نہیں۔ تم خود سوچو، عید پر اگر بچوں کے کپڑے نہیں بنیں گے تو ان پر کیا گزرے گی! کل رشید بھائی کا بیٹا آیا تھا، وہ تین سوٹ بنوانے کا بتا رہا تھا۔ ہمارا بیٹا ارسلان بھی اُسی کا ہم عمر ہے، ایسے میں ارسلان کے پاس ایک بھی نیا جوڑا نہ ہو تو اس کی کیفیت کیا ہوگی؟ بس یہی سوچ سوچ کر دماغ خراب ہوا جارہا ہے۔‘‘
’’میں ساری باتیں جانتا ہوں، بچوں کا مجھے بھی احساس ہے، پر مجبور ہوں۔ فکر نہ کر، کسی سے ادھار مانگا ہے، تُو دعاکر کہ مل جائے، کم سے کم بچوں کی تیاری تو ہوجائے گی۔‘‘
’’دعائیں ہی تو کررہی ہوں۔ ویسے اِس مرتبہ ایسا کیا ہوا جو اس قدر تنگی آگئی؟‘‘
’’مہنگائی نے جینا حرام کررکھا ہے، ہر تنخواہ دار طبقے کا یہی حال ہے۔ آمدن وہی، اور اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ گھر میں آنے والے راشن اور روزمرہ کی ضروریاتِ زندگی پر بڑھائی جانے والی قیمتوں کو ہی دیکھ لو، پہلے جو سبزیاں 20 سے30 روپے کے درمیان ہوا کرتی تھیں وہ 80 سے100روپے میں مل رہی ہیں۔ گھی 140سے بڑھ کر 180 اور 200 روپے تک فروخت ہورہا ہے۔ چینی 30 روپے اضافے کے ساتھ مل رہی ہے۔ ہر قسم کی دالیں انتہائی مہنگی ہوچکی ہیں۔ دودھ، آٹا، چاول اور مسالہ جات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں۔ پہلے دفترآنے جانے میں 100روپے کا پیٹرول استعمال ہوتا تھا، اب وہی پیٹرول 150 سے 170روپے میں ملتا ہے۔ ہر چیز کو آگ لگی ہوئی ہے جبکہ تنخواہیں وہی ہیں۔ ایسی صورت میں جب اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ ہوجائے اور آمدن ایک جگہ رک جائے تو ہم جیسے غریبوں کا یہی حال ہوتا ہے۔ ساری مصیبت ہم پر ہی گرا کرتی ہے۔ اللّٰہ ان نااہل اور کرائے کے حکمرانوں کو نیک ہدایت دے، جن کے کرتوتوں کی سزا غریبوں کو بھگتنی پڑرہی ہے۔‘‘
………٭٭٭………
اس میں دو رائے نہیں کہ اس وقت ملک میں مہنگائی کا ایسا طوفان آیا ہوا ہے جس نے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ چھوٹا کاروباری طبقہ ہو یا گھریلو صنعتوں سے وابستہ افراد، دہاڑی دار ہو یا سرکاری ملازم… سبھی مہنگائی کا ماتم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ملک کی معاشی صورت حال ہر آنے والے دن کے ساتھ ابتری کا شکار ہوتی جا رہی ہے جو مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے کا سبب ہے۔ ملک کی معاشی صورت حال کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ حالت مزید لاکھوں افراد کو خطِ غربت سے نیچے دھکیل دے گی۔ اگر اس بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال کو فوری طور پر سنبھالا نہ دیا گیا تو خدانخواستہ ہم ایسے معاشی بھنور میں جا پھنسیں گے جس سے نکلنا ناممکن ہوگا، اور اس سے نہ صرف بے روزگاری میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگا بلکہ امن و امان کی صورت حال میں بھی بگاڑ کا خطرہ ہے۔ ظاہر ہے جس غریب کے گھر کا چولہا ٹھنڈا ہو اُسے اپنے بچوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے حالات سے جنگ کرنا ہی پڑتی ہے، ایسے میں انسان تو انسان کوئی جانور بھی اپنے بچوں کو بھوکا نہیں دیکھ سکتا۔ جس کے گھر دو وقت کی روٹی نہ ہو اُس کے لیے کیا خوشیاں! کیسی عید! وہ تو سرمایہ دارانہ نظام کی چکی میں پستا ہی رہتا ہے۔ اسی طبقے سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کی جانب سے دی جانے والی گردشیں اسے اس قابل ہی نہیں چھوڑتیں کہ وہ چند لمحے ہی سہی، خوشی کے ساتھ گزار سکے۔
ایک زمانہ تھا جب عید شادمانی اور خوشیاں منانے کا دن ہوا کرتا تھا۔ اس دن بچے، جوان اور ضعیف العمر مرد وخواتین نئے ملبوسات زیب تن کرتے اور مرد عیدگاہ کی طرف روانہ ہوتے۔ نمازِ عید سے فارغ ہوکر تمام لوگ ایک دوسرے سے گلے مل کر اپنی کوتاہیوں، زیادتیوں اور غلطیوں کی معافی طلب کرتے تھے۔ گھروں میں انواع و اقسام کے کھانے بنائے جاتے۔ اگر کوئی شخص مالی اعتبار سے کمزور ہوتا تب بھی وہ اپنی طاقت کے بقدر عمدہ سے عمدہ اور بہترین کھانے بناکر مہمانوں اور دیگر احباب و اقارب کی ضیافت کرتا۔ یعنی عید روایتی اور مذہبی جوش و خروش سے منائی جاتی تھی۔ ہر طبقہ عید کی خوشیوں میں اپنے تئیں شریک ہونے کی بھرپور کوشش کرتا۔ بچے بڑوں سے عیدی وصول کرتے اور ڈھیروں دعائیں سمیٹتے۔ دادی اماں صبح سویرے سے ہی شیر خورمہ تیار کرنے لگتیں۔ گھر کے چھوٹے بچے کھوپرا اور بادام کھانے کے لیے دادی اماں کے گرد جمع رہتے۔
وقت بدلا تو سب کچھ بدل گیا۔ ابتر ملکی معاشی حالات کی وجہ سے غربت، مہنگائی، بے روزگاری میں اس قدر اضافہ ہوا جس نے میٹھی عید کی خوشیاں پھیکی کرڈالیں۔ یوں آج عید کی خوشیوں میں وہ روایتی جوش، ولولہ، امنگ، خلوص، محبت اور پیار ناپید ہوگیا۔ پہلے جیسا عید کا وہ انتظار اور اسے منانے کا وہ جوش و خروش اب کہیں دکھائی نہیں دیتا، بلکہ یوں لگتا ہے جیسے عید کے چاند کو غربت، مہنگائی اور بے روزگاری جیسے بڑھتے مسائل کا گہن لگ چکا ہو، اور ماہِ صیام کے بعد سب سے زیادہ خوشی دینے والا تہوار اب واجبی سا رہ گیا ہو، جس کی خوشیوں کی تلاش میں لوگ اپنے حقیقی عزیز و اقارب سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ ہمارے بچپن میں عید کے رنگ ہی نرالے ہوا کرتے تھے۔ صبح صبح نمازِ عید کے بعد رشتے داروں کا ایک دوسرے کے گھروں کا چکر لگانا، اور تحائف کا تبادلہ کرنا، اپنے ہم عمر دوستوں اور رشتے داروں کو عید کی خوشیوں سے منسوب اشعار تحریر کرکے دعاؤں کے ساتھ خوب صورت عید کارڈ دینا میری زندگی کی بہترین یادیں ہیں۔ وقت کے ساتھ وہ سب کچھ مہنگائی کی نذر ہوکر رہ گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج غریب عید کے روز بھی گھر کا چولہا روشن رکھنے کی تگ و دو میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ ملک پر مسلط سرمایہ دارانہ ذہن والے نااہل حکمرانوں کی جانب سے بنائی جانے والی عوام دشمن پالیسیوں نے عوام کا کچومر نکال کر رکھ دیا۔ زیادہ دور کی بات نہیں، 1990ء کی دہائی میں ہمارے ملک کا روپیہ پورے خطے کی کرنسی پر راج کرتا تھا۔ روپے کی اڑان بھارتی روپے اور بنگلہ دیشی ٹکے سے خاصی اونچی تھی۔ ملک خوشحالی کی طرف گامزن تھا۔ شرح غربت میں کمی ہورہی تھی۔ جی ڈی پی گروتھ کے اشاریے خاصے بہتر تھے۔ سب کچھ بہتری کی سمت بڑھ رہا تھا لیکن بد قسمتی سے ملک پر مسلط ہونے والے اناڑیوں یعنی آنے والے حکمرانوں نے اپنے مفادات کی خاطر قوم کو آئی ایم ایف کا مقروض کرڈالا۔ خوشحالی بدحالی میں بدلنے لگی۔ اگر کچھ باقی بچا بھی تو وہ موجودہ حکومت نے برابر کردیا، یعنی اتنی کم مدت فقط نو ماہ میں ملکی تاریخ کا سب سے زیادہ قرض لے کر ایسا کمال کیا جس سے نہ صرف ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر آن پہنچی اور ڈالر کی اڑان بڑھی، بلکہ پورے خطے میں روپے کی قدر خاک سی ہوکر رہ گئی۔ ان کی جانب سے بنائی جانے والی عوام دشمن، ناکام پالیسیوں نے نہ صرف مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ کیا بلکہ برسرِ روزگار افراد کو بھی بے روزگاروں کی صف میں لاکھڑا کیا۔ ان حکمرانوں کی جانب سے بڑھائی جانے والی مشکلات پر قابو پانا تو ہمارے بس کی بات نہیں، لیکن ہاں اگر معاشرے کے صاحبِ استطاعت لوگ اپنے طرزِ عمل میں معمولی سی تبدیلی لے آئیں تو عید کی اصل خوشیوں کو دوبالا کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً عید سے قبل ہمیں خصوصاً صاحب حیثیت لوگوں کو اپنے قریبی رشتہ داروں اور ہمسایوں کے حقوق کا بھی خیال رکھنا ہوگا، ان کی مدد کرکے انہیں اپنی خوشیوں میں شامل کرنا ہوگا۔ ایسے سفید پوش ضرورت مندوں کی مدد کرکے ہی ہماری اپنی عید کی مسرتیں دوبالا ہوسکتی ہیں۔

حصہ