عید اور اپنے

515

روبینہ اعجاز
’’واہ! کتنی زبردست خوشبوئیں ہیں۔ پورا گھر مہک رہا ہے۔‘‘ فراز نے گھر کے اندر آتے ہی ایک لمبی سانس کھینچتے ہوئے کہا۔ فضہ جو باورچی خانے میں صبح سے مصروف تھی، اس نے جلدی سے اپنے ماتھے کا پسینہ خشک کیا اور گرم گرم چائے اور شامی کباب فراز کو پیش کیے۔
باورچی خانے کی طرف دیکھتے ہوئے اور چائے پیتے ہوئے فراز نے قدرے حیرت سے پوچھا ’’یہ سب کیا ہے؟‘‘
’’ارے آپ بھول گئے، آج ہم نے آپا اور اُن کے گھر والوں کو دعوت کرکے بلایا ہے۔‘‘ فضہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
’’اوہ…ہاں… میں تو آفس کی مصروفیات میں بالکل ہی بھول گیا تھا۔ مگر یہ تم نے اتنا زیادہ تکلف کیوں کرلیا؟‘‘ فراز نے باورچی خانے میں چائے کا کپ رکھتے ہوئے کہا۔
’’بس میرا دل چاہ رہا تھا اچھی سی دعوت کرنے کو۔ آپا کبھی کبھی تو آتی ہیں ہمارے گھر۔‘‘ فضہ نے پلاؤ کو دَم پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’اوہ میں تیار ہوجاؤں، آپا آتی ہوں گی، وہ وقت کی بہت پابند ہیں۔‘‘ فضہ تیار ہونے کو گئی۔ وہی ہوا، کچھ دیر بعد گیٹ پر گھنٹی بجی اور آپا مع اپنے شوہر اور دو عدد بچوں کے موجود تھیں۔ فراز نے ان لوگوں کو بیٹھک میں بٹھایا۔ اتنے میں فضہ بھی آگئی۔ سب مل کر باتیں کرنے لگے کہ آپا نے فراز سے شکایت کی ’’لگتا ہے تم لوگ ہمارے گھر کا راستہ بھول گئے ہو‘‘۔ ان کا لہجہ ترش تھا، تو فراز نے بھی بیزاری سے کہا ’’بس کیا بتاؤں، آفس سے آتے آتے یہ وقت ہوجاتا ہے، اور اکثر اس سے بھی زیادہ دیر ہوجاتی ہے۔ پھر میری ہمت جواب دے جاتی ہے۔‘‘
اتنے میں آپا کے شوہر نے بھی لقمہ دیا ’’دیکھو تم بھائی ہو، اور بھائیوں کا فرض ہوتا ہے کہ بہنوں کے پاس جائیں، ان کی خیر خبر لیتے رہیں‘‘۔ ’’بھائی جان میں ان باتوں کا پابند نہیں ہوں، جس کو وقت ملے وہ خیر خبر لے لے‘‘۔ فراز نے جھنجلاتے ہوئے کہا۔ اتنے میں فضہ، جو خاموشی سے سب کچھ سن رہی تھی، اٹھ کر میز پر کھانا چننے لگی۔ دوسری طرف آپا اور فراز کے شکوے شکایات بحث کا رُخ اختیار کرچکے تھے۔ بات اتنی بڑھی کہ فراز دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ اتنے میں فضہ نے نہایت سلیقے سے میز یر کئی طرح کے پکوان سجا دیے تھے۔ ’’آئیے آپ سب کھانے کی میز پر آجائیے‘‘۔ آپا اور ان کے گھر والے خاموشی سے کھانے کی میز پر آکر بیٹھ گئے۔ فضہ نے دیکھا کہ فراز ادھر نہیں ہیں تو وہ انہیں دوسرے کمرے میں بلانے گئی۔
’’آجائیے، سب کھانے کی میز پر آپ کا انتظار کررہے ہیں۔‘‘
فراز نے روکھائی سے جواب دیا ’’تم ان لوگوں کے ساتھ کھا لو، میرا موڈ نہیں ہے۔‘‘ فضہ ان کی عادت جانتی تھی کہ جب ان کا موڈ خراب ہو تو کوئی ٹھیک نہیں کرسکتا، سو وہ خاموشی کے ساتھ واپس لوٹ آئی۔ سب لوگوں نے بادلِ نخواستہ تھوڑا تھوڑا کھایا اور جلد ہی رخصت ہوگئے۔ موڈ تو آپا کا بھی خراب ہوچکا تھا۔ ان کے جانے کے بعد فضہ نے کھانا سمیٹنا شروع کردیا۔ زیادہ تر کھانے بچے ہوئے تھے۔ پھر اس نے برتن دھونے شروع کردیے۔ وہ بھی پریشان تھی، آج صبح سے اس نے کتنی محبت اور خلوص سے دعوت کی تیاری کی تھی۔ اس کا سارا دن باورچی خانے میں گزرا تھا، اسے پتا ہی نہ چل سکا کہ کب سورج ڈھلا، کب شام ہوئی۔ پھر اس کی تعریف تو کجا یہاں تو معاملہ بگڑ چکا تھا۔ اسے فراز پر رہ رہ کرغصہ آرہا تھا۔ وہ فراز کی عادت اچھی طرح جانتی تھی، سو اس نے کچھ نہ کہنے میں ہی عافیت جانی۔
دو تین دن اسی طرح گزر گئے۔ فضہ ان سے دور دور رہتی تو وہ بھی آفس سے آکر کمپیوٹر پر کچھ نہ کچھ کام کرتے رہتے۔ آج جب فراز آفس سے آئے تو ان کا موڈ قدرے خوش گوار تھا۔ انہوں نے فضہ کے ہاتھ میں کچھ رقم رکھی۔ فضہ نے حیرانی سے ان کی جانب دیکھا۔ فراز نے مسکراتے ہوئے کہا ’’ایسا کرو تم اپنی امی کے گھر جاکر دو دن رہ آؤ، اور رمضان اور عید کی خریداری بھی کرلینا۔‘‘
وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ فضہ کو سوئی سے لے کر بڑی سے بڑی چیز لینی ہوتی تو وہ اپنی امی کے گھر کے قریب کے بازار سے لیتی۔ اسے وہیں کی ہر چیز سمجھ میں آتی۔ فضہ نے جب فراز کا موڈ اچھا دیکھا تو اس کی ہمت بندھی ’’دیکھیں آپ صحیح کہہ رہے ہیں، مجھے رمضان کی تیاری ابھی سے کرلینی چاہیے تاکہ رمضان میں صرف عبادت کرسکیں۔‘‘ فراز نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی ’’واقعی رمضان تو خالص عبادت کا مہینہ ہے، پھر ہم تو ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں۔‘‘
’’لیکن فراز…‘‘اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا ’’میں سوچ رہی ہوں کہ رمضان سے پہلے جہاں ہم سب تیاریاں کررہے ہیں وہاں دلوں کی صفائی بھی ضروری ہے۔‘‘
کیا مطلب…؟‘‘ فراز نے نہ سمجھتے ہوئے کہا۔
’’میں آپا کی ناراضی کی بات کررہی ہوں۔‘‘
فراز نے ہنستے ہوئے کہا ’’اچھا بابا! آپا کی ناراضی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم انہیں عید پر دعوت کرکے بلا لیں گے۔‘‘
’’اچھا…‘‘ فضہ دھیمے لہجے سے کہتی ہوئی اٹھی اور الماری سے کپڑے نکال کر امی کے گھر جانے کے لیے بیگ تیار کرنے لگی۔ اس کے دل میں تو جیسے پھانس چبھی ہوئی تھی۔ رات سونے کے لیے لیٹی تو وہ ماضی کی یادوں میں کھو گئی، جب وہ اس گھر میں شادی ہوکر آئی تھی تو یونیورسٹی میں ایم اے کے آخری سال میں تھی۔ گھر کے کام کاج میں کچی تھی۔ آپا نے اس کا بہت ساتھ دیا۔ اسے تو اُن کی مہربانیاں یاد آرہی تھیں۔ دراصل فراز کے والدین کا تین برس پہلے انتقال ہوچکا تھا۔ چونکہ آپا کے شوہر بحری جہاز میں ملازم تھے اور ان کا اپنا مکان تعمیر ہورہا تھا، اس لیے وہ اپنے بھائی کے ساتھ رہنے لگیں کہ جب بھائی کی شادی ہوگی پھر اپنے گھر جاؤں گی۔ مگر جب تک اس کے امتحانات نہ ہوئے، وہ یہیں رہیں۔ انہوں نے اسے ہاتھ پکڑ کر ہر کام سکھایا۔ پھر فراز نے بھی اس کا بہت ساتھ دیا۔ یوں وہ اچھے گریڈ سے کامیاب ہوگئی۔ بس کبھی کبھی خلافِ مزاج باتوں میں بہن بھائی میں بحث ہوجاتی اور بات ناراضی تک پہنچ جاتی۔
وہ سوچوں کے سمندر میں غرق تھی کہ فراز نے اسے ٹوکا ’’کیا ہوا… سوکیوں نہیں رہی ہو! لگتا ہے تمھارے دماغ کی سوئی وہیں اٹک گئی ہے کہ آپا کی ناراضی…اچھا اپنی امی کے گھر جاکر سوچ لینا۔‘‘ دوسرے دن صبح آفس جاتے ہوئے انہوں نے اسے اس کی امی کے گھر چھوڑ دیا۔ امی کے گھر اس کی خوب آؤ بھگت ہوئی۔ دوپہر کے کھانے کے بعد وہ اپنی امی اور چھوٹی بہن سے باتیں کررہی تھی کہ اس کی اتری ہوئی شکل اور دھیمے لہجے سے امی ایک لمحے کو ٹھٹک گئیں۔
’’فضہ خیریت تو ہے…کیا بات ہے؟‘‘ مائیں تو بیٹیوں کے چہرے کے تاثرات اور لہجے کے اتار چڑھاؤ سے حالات کا اندازہ لگا لیتی ہیں اور وہ ان کو کھلی کتاب کی مانند پڑھ لیتی ہیں۔ فضہ نے رندھے ہوئے لہجے میں آپا کی ناراضی کا واقعہ سنایا۔
’’امی…‘‘ اس نے اپنی امی کی آنکھوں سے آنکھیں ملائیں، اس کی آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی ’’مجھے تو یہ احساس ہورہا ہے کہ رمضان میں ہماری عبادت کیسے قبول ہوگی جبکہ کوئی ہم سے ناراض ہو…کچھ کرنا ہوگا، کس طرح مداوا کروں؟‘‘
’’اچھا…!‘‘ امی نے سوچتے ہوئے کہا، پھر اسے ایک مشورہ دے کر اس پر عمل کرنے کو کہا۔ دو روز بعد فضہ اپنے گھر پہنچی تو اس نے فراز سے آپا کے گھر جانے پر اصرار شروع کردیا کہ میں رمضان سے پہلے آپا سے ملاقات کرنا چاہتی ہوں، اس پر فراز نے خدشہ ظاہر کیا کہ کہیں بات اور نہ بگڑ جائے۔ فضہ نے بھی ٹھانی ہوئی تھی کہ اسے معاملات درست کرنے ہیں۔ سو اس نے تیار کر ہی لیا۔ وہ دونوں دوسرے دن آپا کے گھر میں تھے۔
آپا، فراز اور فضہ تین نفوس… مگر خاموش، ایک دوسرے سے نظریں چراتے ہوئے۔ فضہ آپا کے قریب آئی۔ ’’آپا…‘‘ اس نے میٹھے لہجے میں کہتے ہوئے اُن کا ہاتھ پکڑا اور انہیں دوسرے کمرے میں لے گئی۔ کمرے کا دروازہ بند ہوچکا تھا۔ فراز عجیب تذبذب کی حالت میں تھا۔ کبھی بند دروازے کو دیکھتا تو کبھی زمین کو گھورنے لگتا۔ اس کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا تو ایک جا رہا تھا۔ اتنے میں آپا اور فضہ کی ہنسی کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ ’’یہ کیا جادو ہے!‘‘وہ سوچ ہی رہا تھا کہ دونوں کمرے سے باہر آئیں۔
’’اب تم دونوں رات کا کھانا میرے ساتھ کھاؤ گے۔ ہاں یہ تم نے اتنا تکلف کیوں کیا؟‘‘
’’کیسا تکلف…؟‘‘فراز کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
’’یہ…‘‘آپا نے ایک ڈبہ اُس کے آگے کردیا جس کے اندر خوب صورت سوٹ تھا۔ وہ بات سمجھ چکا تھا۔ اب ان دونوں کی ہنسی کی آواز میں فراز کی ہنسی بھی شامل تھی۔ سچ پوچھیں تو اُس دن سے فراز کا دل بھی اداس تھا۔ آپا اور فضہ باورچی خانے میں تھیں۔ کھانا پکنے کی خوشبوئیں پھیلی ہوئی تھیں اور فراز مسکراتے ہوئے تحفے کو دیکھ رہا تھا۔ فضہ جاگنے والی رات میں رمضان سے قبل کی یادیں تازہ کررہی تھی۔ اس کے لبوں پر پیاری سی مسکراہٹ تھی۔ عید کی اصل تیاری تو اپنوں سے ملنا اور ان کی محبت ہے… اپنوں سے ناراضی میں کیسی عید…!

حصہ