زکٰوۃ اور ٹیکس

824

سید مہرالدین افضل

ماہرین اقتصادیات کی تعریف کے مطابق ٹیکس ایک لازمی فریضہ ہے جس کا حکومت کو اداکرنا اس شخص پر واجب ہے جس پر وہ عائد کیا جائے۔ یہ ٹیکس اس شخص کی قدرتِ ادایگی کے پیش نظر عائد کیا جاتا ہے، خواہ اس کو ان خدمات کے فوائد سے مستفید ہونے کا موقع ملتا ہے یا نہیں جو حکومتی ادارے فراہم کرتے ہیں۔ ان ٹیکسوں سے ہونے والی مجموعی آمدنی کو جہاں حکومت کے عام اخراجات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، وہیں ان کے ذریعے بعض ان اقتصادی، اجتماعی اور سیاسی اہداف و اغراض کو حاصل کیا جاتا ہے جو حکومت کے پیش نظر ہوتے ہیں۔۱؂
زکوٰۃ جیساکہ اس کی تعریف علماے شریعت نے کی ہے، ایک ایسا فریضہ ہے جس کو اللہ نے مسلمانوں کے مال و دولت میں ان کے لیے واجب قرار دیا ہے جن کو اللہ کی کتاب میں فقرا، مساکین اور دیگر مستحقین زکوٰۃ کے نام سے یاد کیا گیا ہے تاکہ اس کی نعمت کا شکر ادا کیا جاسکے، اللہ سے تقرب حاصل ہو اور مال اور نفس کا تزکیہ ہوسکے۔
زکٰوۃ اور ٹیکس میں ہم آہنگی کا پہلو
اُوپر بیان کردہ دونوں تعریفوں سے یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ زکوٰۃ اور ٹیکس میں جہاں اختلاف کے بعض پہلو ہیں، وہیں ان دونوں میں اتفاق اور ہم آہنگی کے بھی بعض پہلو پائے جاتے ہیں۔ ان پہلوؤں کا تذکرہ حسب ذیل ہے:
ا۔ جبر اور لزوم کا وہ پہلو جس کے بغیر ٹیکس وصول نہیں کیا جاسکتا ہے ، زکوٰۃ میں بھی پایا جاتا ہے اگر ایک مسلمان اپنے مسلمان ہونے کے دعوے کے باوجود اس کو ادا نہ کرے۔یہ جبر اور لزوم اس وقت اور بھی زیادہ ہوسکتا ہے جب اس کو ہتھیار کی قوت کے ساتھ اس شخص سے وصول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو اس کی ادایگی سے انکار کرتا ہے اور اس کے خلاف تلوار کو میان سے نکال لیتا ہے، نیز جو اس کے واجب ہونے سے انکار کرے اور صاحبِ قوت بھی ہو۔[یہ اشارہ ہے سیدنا ابوبکرؓ کا مانعینِ زکوٰۃسے جنگ کرنے اور ان سے تلوار کی نوک پر زکوٰۃ وصول کرنے کی طرف۔مترجم]
ب۔ علاوہ ازیں ٹیکس کسی عام ادارے کو ادا کیا جاتا ہے جیساکہ مرکزی حکومت یا مقامی حکومت۔۲؂ یہی کچھ حال زکوٰۃ کا بھی ہے جو حکومت کو اس ادارے کے ذریعے ادا کی جاتی ہے جس کو قرآن نے الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا (اس کے لیے کام کرنے والے) کا نام دیا ہے۔
ج۔ ٹیکس کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد یہ بھی ہے کہ اس میں خواص۔۔۔ یعنی خاص خاص افراد۔۔۔ کی رعایت نہیں کی جاتی۔ ٹیکس ادا کرنے والا ایک خاص معاشرے کا فرد ہونے کی حیثیت سے ٹیکس ادا کرتا ہے اور اس کی مختلف سرگرمیوں سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔ اسی طرح ایک مسلمان اپنی زکوٰۃ کسی خاص شخصی فائدے کے لیے ادا نہیں کرتا بلکہ وہ صرف اس وجہ سے ادا کرتا ہے کہ وہ اس مسلمان معاشرے کا ایک فرد ہے جس کی حمایت، کفالت اور اخوت سے وہ بہرہ ور ہوتا ہے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ اس معاشرے کے دیگر افراد کی مدد کرے اور ان کو فقر اور عجز کی حالت میں اور زندگی کی مصیبتوں کے مقابلے میں امن و امان مہیا کرے۔ مزید یہ کہ وہ ایسے عام نفع کے منصوبوں میں اپنا حصہ ادا کرے جس کے ذریعے اُمت مسلمہ کا کلمہ اُونچا ہوتا ہے اور دعوتِ حق کا دائرہ وسیع تر ہوتا ہے، اس بات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے کہ اس کو ادایگی زکوٰۃ سے کوئی شخصی نفع پہنچتا ہے یا نہیں ۔
د۔ اگرچہ ٹیکس کے جدید رجحان کے اعتبار سے ٹیکس کے مالی فوائد کے علاوہ کچھ اجتماعی، اقتصادی اور سیاسی ہدف بھی ہیں لیکن زکوٰۃ کے بھی بعض ایسے پہلو ہیں جو اپنے دائرے میں اس سے زیادہ وسیع ہیں اور ان کا اُفق (horison) زیادہ وسیع اور اس کی جڑیں زیادہ گہری ہیں۔ ان مذکورہ پہلوؤں اور ان کے علاوہ دیگر پہلوؤں میں فرد اور معاشرے پر ان کے دُوررس اثرات نمودار ہوتے ہیں۔[تفصیلات کے لیے دیکھیے اس کتاب کا باب: ’زکوٰۃ کے اہداف‘ ۔مترجم]
زکوٰۃ اور ٹیکس میں اختلاف کا پہلو
زکوٰۃ اور ٹیکس میں اختلاف کے پہلو تو بہت زیادہ ہیں جن میں سے اہم اُمور کا ذکر ہم مندرجہ ذیل سطور میں کرتے ہیں:
*اسم اور عنوان میں فرق: پہلے ہی مرحلے میں زکوٰۃ اور ٹیکس کا فرق ان کے عنوان، ان کی دلالت اور اس کے اثرات سے ظاہر ہوجاتا ہے۔ لفظ ’زکوٰۃ‘ اپنے لغوی معنوں میں طہارت، نشوونما اور برکت پر دلالت کرتا ہے۔
شریعتِ اسلامی کا اس لفظ کو اس حصے کی تعبیر کے لیے اختیار کرنا جو اس کے مال و دولت میں فرض کیا ہے اور جو فقرا اور دیگر مستحقین کے لیے خاص کیا گیا ہے، اس لفظ کے اثرات نفسِ انسانی پر بڑے اچھے پڑتے ہیں برعکس ان اثرات کے جو لفظ ’ٹیکس‘ سے پڑتے ہیں۔
ٹیکس کا لفظ بنا ہے جرمانہ لگانے سے یا پیداوار میں سے ایک حصہ وصول کرنے سے۔ عربی زبان میں ’ضُرِبَ علیہ‘ سے ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ وَ الْمَسْکَنَۃُ (البقرہ۲:۶۱) (ان پر، یعنی یہود پر ذلت اور مسکنت مسلط کردی گئی)۔ کہتے ہیں: ضرب علیہم ضریبۃ البیع (اس پر سیلز ٹیکس عائدکیا)۔اس زاویۂ نگاہ سے لوگ ضریبہ(ٹیکس) کو ایک جرمانہ اور ایک بڑا بوجھ تصور کرتے ہیں۔ رہا لفظ ’زکوٰۃ‘ تو وہ اپنے پہلو میں پاکیزگی، نشوونمااور برکت کے معنوں کو سموئے ہوئے ہونے کی وجہ سے، یہ اثر چھوڑتا ہے کہ جو مال و دولت وہ سمیٹ سمیٹ کر جمع کر رہا ہے یا اس سے لطف اندوز ہورہا ہے اور اس کی زکوٰۃ نہیں ادا کر رہا ہے جس کو اللہ نے فرض کیا ہے، تو وہ مال و دولت اس وقت تک خبیث اور ناپاک رہیں گے جب تک ان کو زکوٰۃ کے ذریعے پاک و صاف نہیں کیا جائے گا۔
یہ لفظ یہ اثر بھی چھوڑتا ہے کہ جو مال زکوٰۃ نکالنے سے بظاہر کم ہوجاتا ہے اگر اس کو بصیرت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو وہ حقیقت میں پاک ہوکر بڑھتا اور نشوونما پاتا ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ (البقرہ ۲:۲۶۷) ’’اللہ سود کا مٹھ مارتا ہے اور صدقات کو پروان چڑھاتا ہے‘‘۔۳؂ اور وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَھُوَ یُخْلِفُہ (سبا ۳۴:۳۹)، تم جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو تو وہ، یعنی اللہ اس کی جگہ نیا رزق دیتا ہے۔۴؂
یہ لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پاکیزگی، نشوونما اور برکت صرف مال میں نہیں ہوتی بلکہ وہ انسان کے اندر اپنے اثرات پیدا کرتے ہیں۔ زکوٰۃ لینے والے میں بھی اور زکوٰۃ دینے والے میں بھی۔ زکوٰۃ وصول کرنے والے کا نفس، معاشی بھلائی کی وجہ سے حسد اور بُغض سے پاک ہوجاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے اس کے اور اس کے خاندان کے لیے مالی آسودگی فراہم ہوجاتی ہے۔ جہاں تک زکوٰۃ دینے والے کا تعلق ہے تو اس کا نفس بخل اور کنجوسی سے پاکیزگی حاصل کرتا ہے اور اس میں، اس کے اہل و عیال میں اور مال میں برکت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں قرآن کہتا ہے: خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیْھِمْ بِھَا (التوبہ ۹:۱۰۳) ’’تم ان کے مال و دولت میں سے زکوٰۃ وصول کرو جس کے ذریعے تم ان کو پاک کرتے ہو اور ان کے نفس کا تزکیہ کرتے ہو‘‘۔
* کیفیت اور رُخ میں فرق: زکوٰۃ ایک ایسی عبادت ہے جو مسلمانوں پر فرض کی گئی تاکہ اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لایا جاسکے اور اس ہستی مبارک سے قرب حاصل ہو۔ رہا ٹیکس تو وہ ایک خالص تمدنی پابندی ہے جو عبادت اور قربت کے سارے معنوں سے یکسر خالی ہے۔ اسی لیے زکوٰۃ میں ادایگی کے لیے ’نیت‘ شرط ہے تاکہ وہ اللہ کے ہاں قبول ہوسکے، کیونکہ کوئی بھی عبادت نیت کے بغیر ادا نہیں ہوتی ہے۔ انما الاعمال بالنیات ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘۔ وَمَآ اُمِرُوْٓا اِِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ (البینہ ۹۸:۵) ’’اور انھیں حکم نہیں دیا گیا الا یہ کہ وہ اللہ کی عبادت کریں (اپنی نیتوں) کو اس کی اطاعت کے لیے خالص کرکے‘‘۔
اسی وجہ سے زکوٰۃ کا ذکر فقہ کی کتابوں میں عبادات کے ضمن میں کیا جاتا ہے۔ کیونکہ کتاب و سنت میں ان دونوں کو، یعنی نماز اور زکوٰۃ کو ایک دوسرے کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ قرآن نے ۲۰سے زائد جگہوں پر مکّی اور مدنی سورتوں میں ان کا ذکر کیا ہے۔ رہی سنت تو اس میں ان مقامات کی گنتی نہیں کی جاسکتی ہے۔ مثلاً حدیث جبریل ؑ اور حدیث: بنی الاسلام علی خمس ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے‘‘۔ ان کے علاوہ دیگر بہت سی احادیث ہیں جن میں زکوٰۃ کا ذکر موجود ہے۔ یہ اسلام کی چار عبادتوں میں سے ایک عبادت ہے۔ اور اس وجہ سے کہ زکوٰۃ ایک عبادت ہے، شعائر اسلام میں سے ایک شعار ہے اور ارکانِ اسلام میں سے ایک رکن ہے، اس سبب سے یہ صرف مسلمانوں پر فرض کی گئی ہے۔ وسعتِ داماں کی حامل شریعت نے اس بات کو گوارا نہیں کیا کہ ایک مالی عبادت کو غیرمسلموں پر فرض کرے جو شعائر اسلام میں سے ہے۔ یہ ٹیکس کے برعکس ہے جو مسلم اور غیرمسلم دونوں پر فرض کیا جاتا ہے اگر ان میں اُسے ادا کرنے کی طاقت اور قدرت ہو۔
* نصاب اور مقدار کے تعین میں فرق: زکوٰۃ ایک ایسا حق و حصہ ہے جس کو شارع نے بذاتِ خود مقرر کیا ہے۔ اسی نے ہرقسم کے مال کا نصاب مقرر کیا ہے۔ اسی نے ان مقداروں کا تعین کیا ہے جو ۵فی صد سے لے کر ۱۰فی صد تک اور ڈھائی فی صد واجب الادا ہوتے ہیں۔ اس کے بعد کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ان میں تبدیلی یا کمی بیشی کرے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے ان لوگوں کو خطاکار قرار دیا ہے جو عصرِحاضر کی اجتماعی اور اقتصادی تبدیلیوں کی بنا پر ان میں زیادتی کرنا چاہتے ہیں (دیکھیے فقہ الزکوٰۃ، ص ۲۴۴۔۲۴۶)۔ اس کے برخلاف ٹیکس اپنے نصاب، مقدار، شرح اور دیگر اُمور میں حکومت کی صواب دید پر منحصرہوتا ہے، اور ان کے تعین کا فیصلہ صاحبِ اقتدار حضرات کرتے ہیں بلکہ ان کا نفاذ یا خاتمہ حکومت کے فیصلے پر منحصر ہوتا ہے اگر وہ اس کی حاجت محسوس کرے۔
* باقی اور دائم رہنے کے لحاظ سے فرق:اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ زکوٰۃ ایک باقی رہنے والا اور دائمی فریضہ ہے، جب تک کہ زمین پر اسلام اور مسلمان باقی ہیں۔ اس کو نہ تو ظالم کا ظلم باطل قرار دے سکتا ہے اور نہ عادل کا عدل۔ اس کا حال نماز جیسا ہے جو اسلام کا ستون ہے، جب کہ یہ اسلام کا خزانہ ہے۔ رہا ٹیکس تو نہ اس کی کیفیت کو دوام حاصل ہے نہ مقدار ہی اس کی دائمی ہے اور نہ اس کے وجوب کی کم از کم حد کو بقا حاصل ہے۔ ہرحکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس کی شرح میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی لاسکے یا اس کو اہلِ حل و عقد (یعنی قانون ساز اداروں) کی پشت پناہی حاصل ہو، بلکہ ٹیکس کا باقی رہنا بجاے خود ایک بڑا سوال ہے۔ کیونکہ یہ حاجت کے تابع ہے اور حاجت کے خاتمے سے اس کا خاتمہ بھی واجب ہوجاتا ہے۔
* خرچ کی مدات میں فرق: زکوٰۃ کے استعمال کی وہ خاص مدات ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی کتاب میں مقرر کردیا ہے اور ان کی وضاحت رسولؐ اللہ نے اپنے قول اور فعل سے کی ہے۔ خرچ کی یہ مدات اتنی واضح ہیں کہ ایک مسلمان بذاتِ خود انھیں جان سکتا ہے اور اپنی زکوٰۃ ان میں صرف (خرچ) کرسکتا ہے اگر اُسے ایسا کرنے پر مجبور ہونا پڑے۔ یہ مداتِ خرچ انسانی اور اسلامی نوعیت کی حامل ہیں۔ جہاں تک ٹیکسوں کا تعلق ہے تو ان کو عام حکومتی اخراجات پر خرچ کیا جاتا ہے اور ان کا تعین حکومت کے مقتدر ادارے کرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ کا موازنہ حکومت کے عام موازنے سے ایک الگ اور مستقل بالذات چیز ہے جس کے صرف کرنے کے راستے نسبتاً محدود اور متعین ہیں، اور جن کو قرآن کریم نے خرچ کرنے کے لیے متعین کرکے کہا: فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ (التوبہ ۹:۶۰) ’’اللہ کی طرف سے فرض کیے ہوئے‘‘۔
* حکومت سے تعلق میں فرق:یہیں سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ ٹیکس کی ادایگی کا معاملہ ٹیکس ادا کرنے والے اور حکومت کے درمیان ہوتا ہے۔ حکومت ہی اس کو مقرر کرتی ہے، وہی اس کا مطالبہ کرتی ہے اور وہی اس کی واجب الادا شرح کا تعین کرتی ہے۔ اُسی کے ہاتھ میں اس کو کم کرنا ہوتا ہے اور وہی اس کے کسی جز سے خاص حالات میں دست بردار ہوسکتی ہے۔ کسی خاص سبب کی وجہ سے یا ہمیشہ کے لیے بلکہ اُسی کے ہاتھ میں اس کو منسوخ قرار دینا ہوتا ہے اور اگر وہ چاہے تو سارے ہی ٹیکسوں کو منسوخ کرسکتی ہے۔ اگر ٹیکس کا شعبہ مطالبے میں لاپروائی سے کام لے یا تاخیر کرے تو ٹیکس ادا کرنے والے کو موردِ الزام نہیں قرار دیا جاتا ہے اور اس سے کسی چیز، یعنی جرمانے کا مطالبہ نہیں کیا جاتا ہے۔
۔(جاری ہے)۔

حصہ