بزم نگارِ ادب پاکستان کے تحت نعت و منقبت کا مشاعرہ

932

ڈاکٹر نثار احمد نثار
۔16 رمضان المبارک کو علی زیدی کی رہائش گاہ پر بزم نگارِ ادب پاکستان نے بہ سلسلۂ جشن ولایت امام حسنؓ نعت و منقبت کی شعری نشست سجائی جس میں شعرا نے شرکت کی۔ تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حفظ سخاوت حسین ناصر نے حاصل کی۔ نعت رسولؐ واحد حسین رازی نے پیش کی۔ سخاوت علی نادر نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ جن شعرا نے کلام نذر سامعین کیا ان میں اعجاز رحمانی‘ سید یداللہ حیدر‘ ڈاکٹر جاوید منظر‘ فیروز ناطق خسرو‘ آصف رضا رضوی‘ کوثر نقوی‘ فیاض علی فیاض‘ اختر سعیدی‘ حامد علی سید‘ احمد سعید خان‘ مصطفی کاظمی‘ عادل شاہ جہاں پوری‘ سخاوت حسین ناصر‘ واحد حسین رازی اور چاند علی شامل تھے۔ بین الاقومی شہرت یافتہ صبیب عابدی نے بھی اس محفل میں شرکت کی۔ بزم نگار ادب پاکستان کی جانب سے تمام مہمانوں کو عطر پیش کیا گیا جب کہ میزبان علی زیدی کی طرف سے کاشان کے ریڈی میڈ برانڈڈ شلوار سوٹ کا سوٹ کا تحفہ ہر شاعر کی خدمت میں پیش کیا گیا اس موقع پر افطار ڈنر کے بعدعلی زیدی کی جانب سے 6 پونڈ وزنی کیک کاٹا گیا۔ اس محفل میں غائبانہ صدارت حضرت امام حسن کی تھی جب کہ تمام شعرا‘ مہمانانِ خصوصی تھے۔ سخاوت علی نادر نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ ان کی تنظیم فنون لطیفہ کی تمام شاخوں کی پروموشن کے ساتھ علمی و ادبی محفلیں بھی سجاتی ہیں‘ آج ہم نے حضرت امام حسنؓ کے سلسلے میں تقریب کا انعقاد کیا ہے‘ اللہ تعالیٰ ہماری اس کوشش کو قبول فرمائے۔

اردو منزل کے زیراہتمام نعتیہ مشاعرہ

صغیر احمد جعفری اور صبیحہ صبا اردو منزل کے حوالے سے بھی نامور ہیں کہ انہوں نے شعر و ادب کے لیے بہت کام کیا اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ان دنوں ان کا قیام کراچی میں ہے جہاں انہوں نے اپنی رہائش پر رمضان کے بابرکت مہینے میں ایک نعتیہ مشاعرے کا اہتمام کیا جس میں فیروز ناطق خسرو صدر تھے‘ صفدر صدیق رضی اور زیب اذکار حسین مہمان خصوصی اور احتشام جمیل شامی‘ پروفیسر علی اوسط جعفری اور راشد نور مہمانان اعزازی تھے۔ صغیر احمد جعفری نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ نعت رسولؐ کی محافل سجانا باعث ثواب ہے ہمارا ایمان ہے کہ سیرت رسولؐ کی اطاعت میں ہماری فلاح و بہبود مضمر ہے۔ ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا و آخرت کے تمام اسرار و رموز سے ہمیں آگاہ کر دیا ہے‘ ہمارا فرض ہے کہ ہم احکاماتِ خداوندی کے ساتھ ساتھ سنتِ رسولؐ پر بھی عمل کریں کیوں کہ قرآن و سنت کی پیروی کے بغیر ہم جنت کے حق دار نہیں ہوسکتے۔ صاحب صدر نے کہا کہ نعت نگاری کا سلسلہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے شروع ہوا‘ فی زمانہ بھی اس صنفِ سخن میں مطالعاتی اور تحقیقی کام جاری و ساری ہے۔ اب غزلوں کے مجموعوںکے ساتھ ساتھ نعتیہ مجموعے بھی تواتر کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ مودّتِ رسول کے بغیرنعت نہیں کہی جاسکتی۔ نعت کہتے وقت عبد و معبود کے مراتب ذہن میں رہنے چاہئیں۔ نعت میں حمدیہ مضامین کی آمیزش سے گریز لازمی ہے اس نعتیہ مشاعرے میں صاحبِ صدر‘ مہمانان خصوصی اور مہمانان خصوصی کے علاوہ جن شعرا نے حصہ لیا اس میں صغیر احمد جعفری‘صبیحہ صبا‘ خالد دانش‘ شاہد ضمیر‘ شکیل وحید‘ ہما بیگ‘ مہر جمالی‘ سید شائق شہاب‘ آصف علی آصف‘ افضل ہزاروی‘ نصیرالدین نصیر‘ اسحاق خان اسحاق زارا صنم‘ یوسف چشتی اور تاج علی رانا نے اپنا اپنا نعتیہ کلام پیش کیا۔

عظیم طارق کی یاد میں مشاعرہ

گزشتہ دنوں بزم بانیان پاکستان اور مہاجر رابطہ کونسل کے اشتراک سے فیڈرل بی ایریا میں عظیم طارق کی یاد میں مشاعرے کا اہتمام کیا گیا۔ اے کیو بندھانی نے صدارت کی۔ نسیم نازش‘ سلمان صدیقی اور تبسم صدیقی‘ مہمانان خصوص‘ شیخ اسماعیل عظیم‘ صفدر علی انشا اور زیب النساء زیبی اس مشاعرے میں مہمان اعزازی تھے۔ حامد علی سید نے نظامت کے فرائض انجام دیے مشاعرے کے منتظم سلیم عکاس تھے جب کہ شعرائے کرام میں نسیم نازش‘ سلمان صدیقی‘ تبسم صدیقی‘ صفدر علی انشا‘ زیب النسا زیبی‘ حامد علی سید‘ سلیم عکاس‘ اقبال صدف‘ پروفیسر ضیا شاہد‘ الحاج یوسف اسماعیل‘ محمد علی سوز‘ شہاب عالم‘ عبدالمجید محور‘ شجاع الزماں‘ گل افشاں‘ محبوب حسین محبوب اور پروفیسر سید محمد رضی رضوی شامل تھے‘ اے کیو بندھانی نے صدارتی خطبے میں کہا کہ عظیم احمد طارق شہید کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ان کا نام عزت و احترام سے لیا جاتا ہے‘ وہ منکسر المزاج اور قلندر صفت انسان تھے‘ وہ ہر کٹھن وقت میں ثابت قدم رہے‘ ان میں قوت فیصلہ بہ درجہ اتم موجود تھی‘ انہوں نے مہاجروں کے لیے بہت کام کیا‘ وہ چاہتے تھے کہ بانیان پاکستان کی اولادوں کو پاکستان میں ان کے جائز حقوق حاصل ہوں۔ عظیم طارق کی زندگی جدوجہد سے عبارت ہے‘ انہوں نے کبھی اصولوں پر سودے بازی نہیں کیا۔ اس مشاعرے میں سامعین کی کثیر تعداد موجود تھے جو ہر عمدہ شعر پر دل کھول کر داد دے رہے تھے۔ اس موقع پر مہاجر رابطہ کونسل کے اراکین و عہدیداران میں سے جمال سعید‘ صغیر قریشی‘ اشفاق قریشی‘ حسام الدین اشرف اور سید اعظم موجود تھے۔ سلمان صدیقی‘ نسیم نازش‘ تبسم صدیقی‘ حامد علی سید اور سلیم عکاس نے بھرپور داد وصول کی۔ سلیم عکاس نے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ تمام حاضرین کے ممنون و مشکور ہیں کہ جن کی وجہ سے مشاعرہ کامیاب ہوا‘ ہم آئندہ بھی یاد رفتگان کے حوالے سے ادبی و علمی پروگرام آرگنائز کرتے رہیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو ادب کی ترویج و ترقی میں ہم سب کو حصہ لینا ہے‘ ہمیں مل جل کر انے مسائل حل کرنے ہیں۔

کھتری ادبی سوسائٹی کے تحت مشاعرہ

معروف شاعر خیام قادری مرحوم کی یاد میں کھتری ادبی سوسائٹی کے تحت نارتھ کراچی میں ایک مشاعرہ منعقد ہوا جس کی صدارت اعجاز رحمانی نے کی۔ سرور جاویدا ور سعید آغا مہمان خصوصی تھے۔ اس موقع پر صدر مشاعرہ‘ مہمانان خصوصی اور ناظم مشاعرہ نظر فاطمی کے علاوہ اختر سعیدی‘ قیصر وجدی‘ فخر اللہ شاد‘ نسیم شیخ‘ صاحبزادہ عتیق الرحمن‘ چاند علی‘ صفدر علی انشا نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ اس مشاعرے میں سامعین کی تعداد شاعروں سے زیادہ تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ کھتری ادبی سوسائٹی کے عہدیداران و اراکین نے مشاعرے کے انعقاد میں بڑی محنت کی تھی۔ انہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں کے اہم افراد کو دعوت تھی اور وہ لوگ اس سوسائٹی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مشاعرے میں شریک ہوئے۔ صاحبِ صدر نے کہا کہ کھتری ادبی سوسائٹی نے قابل ستائش پروگرام منعقد کیے ہیں اس ادارے کا منشور یہ ہے کہ اردو کی خدمت کی جائے اور زیادہ سے زیادہ علمی و ادبی تقریبات ترتیب دی جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ جو شعرا انتقال کر چکے ہیں ان کی یاد میں پروگرام کیے جائیں اس حوالے سے آج کا مشاعرہ خیام قادری مرحوم کے نام ہے کہ جنہوں نے زندگی بھر شعر و سخن کی آبیاری کی۔ موصوف نہایت شریف النفس انسان تھے ان کے کریڈٹ پر بھی کئی شان دار تقریبات ہیں۔ خیال قادری ہر دل عزیز شخصیت تھے‘ وہ اپنے علاقے کے سماجی مسائل کے حل کے لیے مختلف اداروں سے رابطے میں رہتے تھے‘ ان کی دلی تمنا تھی کہ اربابِ سخن ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں اور اپنے حقوق کی جدوجہد کریں۔ وہ کہتے تھے کہ حکومتی سطح پر جن اداروں کا کام قلم کاروں کی فلاح و بہبود ہے وہ ادرے اپنے کام سے مخلص نہیں ہیں۔ نظر فاطمی نے کہا کہ خیام قادری ایک علم دوست شخصیت تھے ان کے انتقال سے ہم ایک نیک انسان سے محروم ہو گئے ہیں‘ انہوں نے تمام عمر اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے کام کیا۔

سلام گزار ادبی فورم کراچی کی ماہانہ شعری نشست

سلام گزار ادبی فورم ایک غیر سیاسی تنظیم ہے‘ یہ ادبی تنظیم رثائی ادب کی ایک اہم شاخ ’’سلام‘‘ کے ترویج و اشاعت میں مصروف عمل ہے۔ اس تنظیم کی شاخیں پاکستان کے مختلف شہروں میں کام کر رہی ہیں۔ ماہانہ بنیادوں پر سلام گزار ادبی فورم کبھی طرحی مشاعرہ اور کبھی غیر طرحی مشاعرے کا اہتمام کرتی ہے رمضان المبارک کے مہینے میں اس ادارے کے تحت اصغر علی سید کی رہائش گاہ گلستان جوہر کراچی میں ایک غیر طرحی مشاعرہ ترتیب دیا گیا جس کی صدارت یداللہ حیدر نے کی۔ مہمان خصوصی سمیع نقوی تھے جب کہ کشور عدیل جعفری نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ ہادی علی سید اور احسن عابدی نے منقبت پیش کیں۔ اس موقع پر جن شعرا نے کلام سنایا ان میں یداللہ حیدر‘ سمیع نقوی‘ کشور عدیل جعفری‘ شہنشاہ جعفری‘ خمار زیدی‘ توقیر تقی‘ سخاوت علی نادر‘ مصطفی کاظمی‘ اصغر علی سید‘ پروین حیدر‘ مقبول زیدی‘ مہتاب عالم مہتاب اور حجاب فاطمہ شامل تھے۔ مقبول زیدی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ رثائی ادب میں واقعۂ کربلا کو خاص اہمیت حاصل ہے‘ نواسۂ رسول حضرت امام حسینؓ اور ان کے 72 جاں نثاروں پر یزیدی فوج نے جو مظالم ڈھائے وہ انتہائی قابل مذمت ہیں جب کہ آل محمد سے محبت کرنا دینِ اسلام میں شامل ہے۔ حضرت امام حسینؓ کے بارے میں ہمارے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں۔‘‘ حضرت امام حسینؓ نے کربلا کے میدان میں جو قربانی پیش کی اس کی مثال ممکن نہیں۔ آپ نے حق و باطل کے درمیان حدِ فاصل کھینچ کر یہ پیغام دیا کہ باطل کے سامنے جان و مال کی قربانی دینا عین اسلام ہے۔ صاحب صدر نے کہاکہ سلام گزار ادبی فورم پاکستان کراچی کے پلیٹ فارم سے آج ہم نے محمدؐ اور آل محمد کے منظوم نذرانۂ عقیدت پیش کیا ہے کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ کام باعث ثواب ہے۔

غزل

فیصل محمود سید

بے چراغ گھوموں میں راستہ نہیں ملتا
کوئی بھی تسلی کا آسرا نہیں ملتا
گفتگو نہ کر پائے حال ہی سمجھ جائے
آدمی کوئی ایسا دوسرا نہیں ملتا
منزلیں الگ ان کی لوگ بھی جدا مجھ سے
میں بچھڑ گیا جس سے قافلہ نہیں ملتا
ساتھ چلنے والوں یوں لوگ تو بہت سے ہیں
ہم نفس نہیں ملتا‘ ہم نوا نہیں ملتا
زندگی کی گر ساری خواہشیں بھی پوری ہوں
بے کلی نہیں جاتی مدعا نہیں ملتا
دور جانے والا کوئی لوٹ کے بھی آ جائے
ربط وہ نہیں رہتا سلسلہ نہیں ملتا

حصہ