۔”دھجی دھجی روشنی”۔۔۔ روشنی کی آنکھ

496

نیل احمد
علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ’’جب کوئی اچھا شعر ہو تو سمجھو کہ کوئی مسیح مصلوب ہوا۔‘‘فکری و شعری انفرادیت کا اظہار کرنا جان جوکھوں کا کام ہے ، اندر سے باہر لانے کا کرب خون نچوڑ لیتا ہے اور اگر تخلیق کا دورانیہ طویل ہو تو شدت کرب عقل و ہوش سے بیگانہ کر دیتا ہے۔ ایک تو ماورائیت کی سرشاری پھر ایسے میں جو نظم یا غزل ہوگی وہ کسی طور معنی کے چنگل سے بچ نہ پائے گی اور معنی بھی وہ جو کثیرالمعنیاتی تشبیہات ، استعاروں اور علامات میں چھپے ہوں۔ دھجی دھجی روشنی قندیل بدر کے جذبات و احسات کی ترجمان ہے جو پڑھنے والے کے ذہن و دل میں روشنی کی آنکھ کھول دیتی ہے اور تیرگی چھٹ جاتی ہے۔ قندیل بدر کے ہاں ان کی شاعری انفرادی رنگ کی بلیغ ترجمانی کرتی نظر آتی ہے۔ خود کو کائنات کا مرکز تصور کرتے ہوئے اپنی ذات کو شعور اور شاعری کے اوزار سے تراشنا اور “واردات ذات” کے پیچ وخم بیان کرنا یقینا مشکل اور تکلیف دہ عمل ہے مگر قندیل بدر نے ذہنی اور روحانی وارداتیں ، جو اس کے دل کی کسی رگ جاں سے نکلی محسوس ہوتی ہیں ، لفظوں کا جامہ پہنا کر ہمارے سامنے پیش کر دیا ہے جس کا پہلا اظہاریہ ان کی نظم “پرورش” ہے
میں نے خود کو خود جنما ہے
خود ہی دی ہے لوری خود کو
اپنا کاندھا خود تھپکا ہے
اپنے کھلونے خود ڈھونڈے ہیں
خود اپنا جھولا جولاہے
خود ہی تلاشے اپنے رستے
خود ہی اپنا پیٹ بھرا ہے
خود ہی الف پڑھایا خود کو
خود ہی میم پر ختم کیا ہے
میں نے خود کو خود جنما ہے
میں نے خود کو خود پالا ہے
ایک اور نظم “بھید بھرا بدگد” بھی اسی کیفیت کی ترجمان ہے
برگدوں کی شاخوں میں
کتنے بھید بستے ہیں
تم نے کیا نہیں دیکھا
ان کے بال نوچو تو
بین کرنے لگتی ہیں
چیختی ہی رہتی ہیں
ان کی چھال کھینچو تو
خون رسنے لگتا ہے
جو کبھی نہیں تھمتا
برگدوں کے جنگل کا
میں بھی ایک برگد ہو ں
تم نے کیوں نہیں سوچا
پھریہاں سے ذات کی ماورائیت کا سفر ان اشعار میں دیکھیے
خود میں گم ہے کوئی خدا میں ہے گم
میرا ہونا کہیں خلا میں ہے گم
خاک پر خاک ڈال کر سیکھا
ساری مستی فنا میں ہے گم
چاند، سورج، چمک، دیا، جگنو
ایک قندیل کی ادا میں ہے گم
بجلیاں کڑکیں، زمین کا نپی، دھواں اٹھنے لگا
رات جانے کیا ہوا میں نور میں حل ہو گئی
دھند نے پہلے لپیٹے میری آنکھیں میرے خواب
جانے کیسے کب کہاں پھر میں بھی اوجھل ہو گئی
کتنے پیڑ آگے ہیں اندر
کتنی شاخیں لہکی ہیں
کتنے پھول لگے ٹہنی پر
کتنے اندر سوکھے ہیں
کتنے پتے شاخ پہ ٹھہرے
کتنے ٹوٹ کے بکھرے ہیں
کونسا چاند فلک پر چمکا
کون سا دل میں اترا ہے
قندیل بدر کا اسلوبیاتی رویہ عام روایت کا پرچار نہیں کرتا ، عصری تقاضے حسیت پر اثرانداز ہوتے ہیں تو اسلوب اور فکری رویے اپنے اظہاریے میں بھی جدت تراش لیتے ہیں ، قندیل کے فکر و نظر کا کینوس چونکہ وسیع ہے لہذا عصریت کا کرب زندگی اور اس سے جڑے معاملات کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتا۔ اس نے اساطیری مثالی حکایات کو تمثیلی انداز میں خلق کیا ہے۔
ٹھک ٹھک ٹھک
آسمان کا دروازہ کھولو
مجھے اللہ سے ضروری بات کرنی ہے
اسی تناظر میں قندیل بدر کی نظم “گیان دھیان” دیکھیے
میری پوریں غیبی سازینے کے تاروں کو چھیڑتی ہیں
تو رنگ و نور کی گٹھڑیاں زمین پر گرنے لگتی ہیں
چاند اپنا چہرہ آسمان کی طرف اٹھا لیتا ہے
اس کا عکس جب آسمان سے ٹکرا کر جھیل میں منعکس ہوتا ہے
تو ہوائیں کتھک کرنے لگتی ہیں
جب تھک جاتی ہیں
تو قدیم پیڑ دیوتا کے قدموں سے لپٹ جاتے ہیں
رات رینگتے رینگتے میری آنکھوں تک آ جاتی ہے
گیان دھیان نیند کی چادر اوڑھ لیتا ہے
غیبی سازینے خاموش ہو جاتے ہیں
فرشتے اونگھنے لگتے ہیں
کائنات آخری ہچکی کا انتظار کرنے لگتی ہے
اسی طرح ایک نظم “نروان” ہے
مٹی کی ہانڈی چولہے پر رکھی ہے
اس کو پکنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں
مٹی گوندھنا ہر ایک کے بس کا روگ نہیں
چاک رکنا نہیں چاہیے
آنچ بڑھنی نہیں چاہیے
سیسہ سونا بننے میں وقت لیتا ہے
کوزہ گری بے صبری سے سیکھی نہیں جا سکتی
دل زمین کی حرکت سمجھ لے تو روح کائنات کے ساتھ دھڑکنے لگتی ہے
نیند میں بھی بیدار رہنا پڑتا ہے
پلکیں جھپکنے میں بھی کئی ستارے ٹوٹ کر گر جاتے ہیں
جب تک ہواؤں پر لکھی نظمیں پڑھنا سیکھ نہیں لیتے
تب تک نروان مکمل نہیں ہوتا
نظم چوتھا دن سے چند سطریں
ابھی کچھ کام باقی ہیں
ابھی سورج پہ پہلا پاؤں رکھنا ہے
فلک کا ریشمی نیلا دوپٹہ چاک کرنا ہے
خدا سے بات کرنی ہے
قندیل کے ہاں ذہنی مورتوں یا صورتوں سے نظموں کی بنت اور غزلوں کی جڑت معنی خیز ہو جاتی ہے جو قاری کو تخلیق میں اتار دیتی ہے یایوں کہئے کہ قاری خود تخلیق کار بن جاتا ہے ، یہ منظر کشی جمالیات کے آہنگ سے رس کشید کرتی ہے تو تخیل میں نظمیں / غزلیں تتلیوں کی طرح اڑتی محسوس ہوتی ہیں اور ان تتلیوں کے پروں میں موجود ایک ایک رنگ کے ذائقے کو آنکھوں میں محسوس کیا جاسکتا ہے

تجھ کو آتی ہے اگر کاری گری سنگ تراش
میرا چہرہ، مرا پیکر، مرا کوئی انگ تراش
یا تو پانی سے کوئی شیشہ بنا میرے لیے
یا تو آئینے سے یہ دھول ہٹا زنگ تراش
میرے آنچل کو بنانے کے لیے گھول دھنک
اور پھر پھول سے تتلی سے کئی رنگ تراش
تیرے ہاتھوں میں کئی سر ہیںیہ دعویٰ ہے ترا
چل کوئی ساز ہی لکڑی سے بنا چنگ تراش
کورے کاغذ پہ بھی کاڑھے ہیں شجر، پھول، ثمر
شعر کہنا ہے تو کچھ ذائقہ کچھ ڈھنگ تراش
میں بناؤں گی کھلا اور وسع ایک جہان
میں نہیں قید، گھٹن، قبر، قفس، تنگ، تراش

اب ان کی نظم ” Trade Norms ” سے کچھ سطریں

میں سب گلابوں پہ ، نیلی جھیلوں پہ ہونٹ رکھ لوں تو سانس آئے
میں نگری نگری میں قریہ قریہ یونہی بھٹک لوں تو خواب آئے
میں اپنی پیاسی زبان سے اک دن شراب چکھ لوں تو چین آئے
میں اپنی خالی ہتھیلیوں سے یہ چاند ڈھک لوں تو نیند آئے
آسماں میں کالی راتوں میں بجلیوں سی ذرا چمک لوں تو موت آئے
تیرے سمندر کے جل سے سارا بدن نمک لوں تو سحر آئے
گھنیرے جنگل میں آگ بن کر کبھی بھڑک لوں تو جوگ آئے
میں جگنو بن کر میں تتلی بن کر ذرا چہک لوں تو کیف آئے

قندیل بدر کی جس نظم نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا اس کا عنوان ہے “مجھے ڈر آنا آسان نہیں” اردو شاعری میں نسائی/ تانیثی ادب کو خاص اہمیت حاصل ہوئی ہے جس کی بنیادیں مضبوط کرنے میں مختلف شاعرات سرفہرست رہی ہیں زہرہ نگاہ، کشور ناہید، سارہ شگفتہ، شبنم شکیل اور پروین شاکر کے نام شمار ہوتے ہیں۔ عصرِ حاضر میں پاکستان اور بیرونِ ممالک میں پاکستانی نژاد اردو کی جو شاعرات نمایاں مقام رکھتی ہیں اْن میں فاطمہ حسن، نوشی گیلانی، حمیدہ شاہین، نسیم سید، شاہین مفتی، عشرت آفرین، حمیرا رحمان، شاہدہ حسن، مونا شہاب،عارفہ شہزاد، ثروت زہرہ، صبیحہ صبا، یاسمین حمید، ناہید ورک ، گلناز کوثر اور الماس شبی کے ہیں، ان شاعرات نے معاشرے میںخواتین کے اہم مسائل کو واضح کرنے کیلے شاعری کو بطور آلہ استعمال کیا ہے جن میں ایک مضبوط نام فہمیدہ ریاض کا ہے ، آپ نے شاعری میں نئی روح اور نئی فکری معنویت کے علاوہ تفکری جمال کی شعری دولت مہیا کی جو صدیوںیاد رکھی جائے گی۔ قندیل بدر کے ہاں بھی ایک مضبوط اور باہمت عورت کی جھلک نظر آتی ہے ، قندیل کی نظم “مجھے ڈرا نہ آسان نہیں” اسی طرح کے مضبوط رویے کی غماز ہے۔ نظم کچھ یوں ہے کہ
میں ہمیشہ ہریالی کی طرف دیکھتی ہوں
میری نظر خشکابوں میں پانی بھر دیتی ہے اور بیابانوں میں درخت لگا دیتی ہے
اجاڑ زمینوں سے ابلتے چشمے اور سنگلاخ چٹانوں سے بہتے جھرنے میرا ایمان ہے
رات کی کالک چیرتی لکیر، میری سفیر ہے
مجھے آنسو میٹھے لگتے ہیں اور مسکراہٹ نمکین
مجھے ہرانا آسان نہیں
مجھے گرانا آسان نہیں
میرا ماتم زلزلے اور لاوے کی طرح
خون میں لتھڑی
ان زمینوں کو مسمار کرنے کے لئے ہے
جن پر زمینی خدا ناز کرتے ہیں
تمہیں مجھے میرے قہقہوں سے ناپنا ہوگا
جو میں لکھی گئی تقدیر پر روز لگاتی ہوں
قندیل بدر کی شاعری موضوعاتی اور اسلوبیاتی سطح بہت وسیع ہے اور مزید امکانات کی جھلک پوشیدہ رکھتی ہے خاص طور پر نظموں کا کمال یہ ہے کہ قاری پر ہر بار نئے پرت کھلتے ہیں اور نئے معنی اخذ کرتی ہیں اور چھپے ہوئے رازوں سے آشنا ہونے کی تربیت بھی دیتی ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ قندیل بدر کی شاعری میں ذہنی مورتیںیا منظر کشی ذاتی اور تاثراتی نوعیت کی ہے جو اوپر اٹھ کر پوری زندگی کا احاطہ کرتی نظر آتی ہیں۔ قندیل بدر کے روشن مستقبل کے لیے دعائیں اور ڈھیروں محبت۔

غزلیں

خلیل اللہ فاروقی

کہا سفر کرو مگر چراغ ہی نہیں دیا
چلا جو رات کارواں سراغ ہی نہیں دیا
مری شگستگی اسے عزیز تر ہے دوستو
خوشی کے پھول کیا کھلیں وہ باغ ہی نہیںدیا
میں اس جہاں میں اس لیے اداس و نامراد ہوں
شکستہ ایک دل دیا دماغ ہی نہیں دیا
ستم کہوں‘ کرم کہوں عجیب کشمکش سی ہے
شریکِ بزم کر لیا ایاغ ہی نہیں دیا

اسد اقبال

جسے بھی چاہتا ہے بے سر و سامان کرتا ہے
کہ پہلے مرحلے میں عشق یہ نقصان کرتا ہے
کوئی تو راز پوشیدہ ہے آشفتہ سری میں بھی
وگرنہ کون اپنے آپ کو ویران کرتا ہے
اٹھانا پھینک دینا پھینکنا اور پھر اٹھا لینا
کوئی ایسے بھی دل کا حال میری جان کرتا ہے
اسے میں نے کہا تھا یاد رکھنا تم کہا میرا
ضرورت سے زیادہ سچ بہت نقصان کرتا ہے
چھپا لیتا ہے میری مفلسی کو اپنی چادر میں
اندھیرا تو اسدؔ مجھ پر بڑا احسان کرتا ہے

تنویر انجم

یار جس کے قریب ہوتا ہے
آدمی خوش نصیب ہوتا ہے
کل جو اپنے تھے اب پرائے ہیں
وقت کتنا عجیب ہوتا ہے
جاگ اٹھتے ہیں زخم یادوں کے
پاس جب بھی طبیب ہوتا ہے
دل سے نکلے نہ بات پردے کی
ہر قدم پر رقیب ہوتا ہے
اُس کی تصویر دیکھ کر انجمؔ
حال دل کا عجیب ہوتا ہے

حصہ