شریک مطالعہ “قلزم کے اُس پار” افتخار حیدر ملک کا منفرد سفرنامہ

495

نعیم الرحمٰن
(دوسرا اور آخری حصہ)
بلاشبہ انسانی عزم کے سامنے کوئی پہاڑ بھی نہیں ٹھیر سکتا۔ انسان اگر حوصلہ برقرار رکھے تو کوئی بھی کارنامہ انجام دے سکتا ہے۔ بین الاقوامی کھیلوں کے مقابلوں میں بھی یورپی ملکوں کے علاوہ جاپان اور جنوبی کوریا جیسے ایشین ممالک محدود وسائل کے باوجود بہتر نتائج پیش کرتے ہیں۔ اسی طرح مشرقی یورپ کے پاکستان سے کم وسائل والے ممالک اپنے افراد کی منظم کاوشوں اور عزم کی بدولت شان دار کارکردگی دکھاتے ہیں، لیکن مسلم دنیا سے اکا دکا کے سوا کوئی بڑا نام سامنے نہیں آتا۔
مغربی دنیا کا ایک بڑا مسئلہ کثافت ہے۔ صنعتی ترقی، کان کنی اور بے ہنگم ٹرانسپورٹ نے فضا کو انتہائی آلودہ کردیا ہے۔ اس کے مقابلے میں مشرقی ملکوں کی نسبتاً شفاف اور صحت مند فضا نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ افتخار ملک لکھتے ہیں کہ ’’لاس اینجلس جو امریکا کا دوسرا بڑا شہر ہے اور کیلی فورنیا جیسے حسین خطے میں واقع ہے، فضائی آلودگی کی بدولت انتہائی غیر صحت مند مقام بن چکا ہے۔ اسی طرح نیویارک، شکاگو، ڈیٹرائٹ، لندن، لیور پول، پیرس، فرینکفرٹ، روم ، برسلز، ٹوکیو اور ماسکو وغیرہ سب روز افزوں فضائی کثافت کی وجہ سے عجیب وغریب مسائل کا شکار ہیں۔ مغربی جرمنی کی صنعتی ترقی نے وہاں کے حیوانات، انسانوں اور نباتات پر نہایت مضر اثرات مرتب کیے ہیں، مثلاً جرمنی کے کالے جنگلات، جن کو دیکھنے کے لیے لوگ دور دور سے آتے ہیں، درحقیقت کثافت کے ہاتھوں نباتات کی تباہی کا زندہ ثبوت ہیں۔ ہمارے بڑے شہروں کراچی، گوجرانوالہ اور فیصل آباد میں بھی یہ مسئلہ درپیش ہے۔ لیکن سوات، چترال اور دیگر شمالی علاقوں کی فضا صاف ستھری ہے۔ ہمارے ملک میں گندگی کے ڈھیر، گندے پانی کے جوہڑ، تنگ گلیاں اورمضرِ صحت پانی کم خطرناک نہیں۔‘‘
سفرنامے میں مصنف احوالِ سفرکے ساتھ ایسے مسائل بھی زیربحث لاتے ہیں اور ان کا پاکستان سے موازنہ بھی کرتے ہیں، جس سے قاری کو آگاہی حاصل ہوتی ہے۔
افتخار حیدر ملک امریکا اور فرانس کا ویزا ملنے کے بعد ایتھنز ائرپورٹ سے یونان کا ٹرانزٹ ویزا ملنے کی امید میں اسلام آباد سے روانہ ہوگئے، لیکن جب ائرپورٹ بلڈنگ میں یونان کے امیگریشن حکام کے سامنے اپنا پاسپورٹ پیش کیا اور تین دن کا ٹرانزٹ ویزا مانگا تو پاکستانی پاسپورٹ دیکھتے ہی متعلقہ آفیسر نے اپنے ایک اور ساتھی سے مشورے کے بعد فیصلہ کیا کہ چوں کہ وہ پاکستانی ہیں اور ان کے پاس یونان کا ویزا نہیں ہے اس لیے وہ یونان میں داخل نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ وہ یونیورسٹی کے استاد ہیں اور ایک نہایت اہم اور معزز فیلوشپ پر امریکا جارہے ہیں۔ ان کے پاس نہ صرف امریکا بلکہ فرانس کا ویزا اور باقاعدہ ٹکٹ بھی ہے۔ لیکن یونانی حکام پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا اور ایک افسر ٹرانزٹ لاؤنج میں چھوڑ آیا کہ اپنی منزل کا فیصلہ کریں یا تین دن اسی لاؤنج میں گزار دیں۔ اس واقعے سے بیرون ملک کے مسافروں کو یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ ہر صورت اپنے ملک ہی سے جن ممالک میں جانا چاہتے ہیں اُن کا ویزا حاصل کرکے روانہ ہوں، ورنہ کسی بھی مشکل سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ ماضی میں پاکستانی پاسپورٹ کو نہایت احترام سے دیکھا جاتا تھا اور بہت سے مغربی ملکوں میں سفر یا مختصر قیام کے لیے کسی ویزے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، لیکن اب چند دن کی مسافت کیا، تعلیم و تحقیق کے لیے بھی ان ممالک میں مختصر قیام ناممکن ہوگیا ہے، جس کی وجہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدحالی ہے جس نے پاکستان کی ساکھ کو بہت متاثرکیا ہے اور گرین پاسپورٹ کی اہمیت کم ہوگئی ہے۔
افتخار ملک صاحب نے ائرفرانس کے کاؤنٹر پر متعین یونانی نژاد ائرہوسٹس کو اپنا ٹکٹ دکھاکر ٹرانزٹ ویزا نہ ملنے پر اسی شام فرانس کے شہر نیس بھجوانے کو کہا، جس پر اُس نے یونان سے دل چسپی کے بارے میں پوچھا۔ اس بارے میں وہ بتاتے ہیں کہ ’’میں نے اسے بتایا کہ میں پاکستان کی فیڈرل یونیورسٹی میں تاریخ کا استاد ہوں اور اپنے مضمون کے ناتے سے مجھے یونان دیکھنے کا شوق ہے حالانکہ میری منزل امریکا ہے۔ میں نے اسے اپنا پاسپورٹ اور دیگر کاغذات دکھائے کہ میں ایک بین الاقوامی اعزاز پر یو ایس اے کی چند اعلیٰ درس گاہوں میں بطور استاد جا رہا ہوں، اور مجھے اگرکہیں رہنا ہوا تو وہ امریکا ہی ہوگا جہاں میں پہلے بھی ساڑھے چارسال گزار کر آیا تھا۔ یونان اور فرانس میں رہنے کی میرے لیے تو کوئی تک ہی نہیں بنتی۔ امریکا سے واقفیت رکھنے اور وہاں کی اعلیٰ پائے کی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے کے باوجود میں نے امریکا میں کبھی مستقل سکونت کے بارے میں نہیں سوچا۔ میری ان کے ملک کے بارے میں دل چسپی اور ساتھ ہی مایوسی نے اُسے چند لمحات کے لیے خاموش کردیا۔ کچھ توقف کے بعد بولی ’’اگر تمہیں آج شام کو فرانس کی فلائٹ مل جائے اور ساتھ ہی یونان کے لیے تین دن کا ویزا بھی، تو تم ان دونوں میں سے کس کا انتخاب کرو گے؟‘‘ میں نے برجستہ جواب دیا ’’یونان کا‘‘۔ اس نے مجھ سے پاسپورٹ اور دیگر کاغذات لے کر کچھ دیر انتظار کرنے کو کہا اورکچھ دیر بعد ویزا لگوا دیا۔‘‘
ایسی دل چسپ اور معلومات افزا تفصیلات کتاب کی دل چسپی میں اضافہ کرتی ہیں اور قاری کو اکتاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیتیں۔ ایک ہزار سال قبلِ مسیح تک یونانی زیادہ تر زبانی روایات پر ہی انحصارکررہے تھے، یہاں تک کہ ہومر جیسے مشہورِ زمانہ دانشور، مؤرخ اور ادیب کی ذہنی کاوشیں نسل در نسل زبانی روایات سے ہی منتقل ہوئیں۔ یونانیوں نے ہزار سال قبلِ مسیح سے ایک سوچھیالیس قبلِ مسیح کے درمیانی عرصے میں سیاسی، مذہبی، سماجی اور ادبی روایات کی بنیاد رکھی۔ ریاضی، سائنس، فلسفہ، تاریخ، عمرانیات، سیاسیات اور فنونِ لطیفہ جیسے نئے مضامین کا آغازکیا، اور اس طرح افلاطون، سقراط جیسے عظیم دانشور پیدا کیے۔ فدیاس نامی ایک یونانی نے چوتھی صدی قبلِ مسیح میں ایکرو پولس اور دیگر کئی اہم مذہبی و ثقافتی عمارات کی تعمیر کا کارنامہ سرانجام دیا جو آج تک یونان کے عہدِ قدیم کی سنہری یادگاریں ہیں۔ یونانی اپنے مافوق الفطرت عقائد کے باوجود احساس ِ لطیف، عقل و دانش، انسانی عظمت اور بشری جذبات کی سربلندی کے لیے مشہور تھے۔ انہوں نے دنیا میں عقل اور خوب صورتی کو لازم و ملزوم قرار دیا اور انہیں اچھائی اور نیکی کا نام دیا۔ جب کہ بدصورتی کو برائی اور بدانتظامی قرار دیا۔ مصنف کا تین روزہ سفر یونانی تہذیب سے آشنا کرتا ہے۔ وہ اپنے سفرکا کوئی لمحہ رائیگاں نہیں جانے دیتے۔ مختصر قیام کے بعد مصنف ایتھنز ائرپورٹ سے یونان کی انمٹ یادیں لیے اگلی منزل کی جانب روانہ ہوئے۔ بحیرہ روم کے ساتھ ساتھ پرواز کے بعد وہ اٹلی پر سے گزرے تو ذہن میں اٹلی کا تاریخی پس منظر دہرا رہے تھے۔ یہیں سے تحریک احیائے علوم کا آغاز ہوا تھا، جس کے نتیجے میں جدید یورپ کی بنیاد پڑی۔ اطالوی ریاستوں میں میلان، نیپلز، روم، وینس اور فلورینس تہذیبی اور علمی مراکز تھے جہاں یورپ کی قدیم ترین یونیورسٹیوں کی بنیادیں پڑیں۔ دانتے، باکاسیو، پیٹرارخ، میکاولی اور لورینزو نے تحریک احیائے علوم میں اہم کردار ادا کیا۔ دانتے نے ڈیوائن کامیڈی میں جنت و دوزخ، زندگی اور موت جیسے مضامین پر قلم اٹھایا۔ میکاولی نے اپنی تاریخی تحقیقی کتب میں اٹلی کی شیرازہ بندی کی، اور اپنی مایہ ناز تصنیف ’’دی پرنس‘‘ میں اٹلی کی وحدت اور مرکزیت کے لیے ایک مثالی بادشاہ کے کردار اور حکمت عملی پر سیر حاصل بحث کی۔ غرض اٹلی میں نہ اترکر بھی افتخار حیدر ملک نے فضائی نظارے میں ہی یہاں کی تاریخ کی بازیافت کرکے قارئین کو بھی اس میں شریک کیا۔ یہی ان کی تحریرکا کمال ہے۔
جنوبی فرانس اور مونٹی کارلو میں مٹرگشت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: ’’فرانس یورپ کا واحد ملک ہے جس کے بارے میں حتمی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس کی تاریخ کافی حد تک مبسوط اور معلوم ہے، کیوں کہ ہجری زمانے سے عصرِ حاضر تک فرانسیسی تاریخ کے مختلف ادوار باقاعدگی سے واضح طور پر مندرج ہوچکے ہیں۔ ماضی میں جنوبی یورپ کے مختلف ممالک کی مانند قدیم فرانس بھی شمالی یورپ اور ایشیائے کوچک سے آنے والوں کی آماج گاہ رہا ہے۔ یونان و روما کی تہذیبوں سے کماحقہٗ متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ فرانس ہسپانیہ، افریقا اور عربستان کی نظریاتی، سیاسی اور تجارتی یلغاروں سے بھی محفوظ نہ رہا۔ موجودہ فرانس ایک مدبر، ترقی یافتہ اور طاقتور ملک ہے۔ دس سال پہلے مجھے ایک ایسی فرانسیسی تخلیق پڑھنے کو ملی جسے افریقا کے نوجوان طالب علم کیمارالائے نے پچاس کی دہائی میں تحریرکیا تھا۔ یہ ایک ایسے افریقی بچے کی آپ بیتی ہے جسے پیرس جیسے انتہائی جدید اور امیر شہر میں اپنا غریب اور دور افتادہ افریقی گاؤں یاد آتا ہے، اور جو اپنے بچپن کو انتہائی دلنشین اور غمگین لہجے میں ایک ناولٹ میں پیش کرتا ہے۔ والد کی مصروفیات، دادی جان کی بھرپور طاقت، قبائلی رسومات، جادوگری کے کرشمے، مسلمان دوستوں کے ساتھ گزارے ہوئے شب و روزکی یادیں کیمارالائے کو فرانس کی خوب صورت راتوں میں تڑپاتی ہیں اور محکوم ریاست کا یہ نوجوان نسل پرست فرانس میں اپنے وطن کے لیے بے تاب ہوجاتا ہے۔‘‘
عمدہ اسلوب میں ایک ناولٹ کے حوالے سے مصنف نے اپنے پسماندہ ملک کی یاد کو عمدگی سے پیش کیا ہے۔ کوئی کسی بھی ملک میں کتنے برس بھی رہے، اپنے وطن کی یاد ہمیشہ اُس کے دل میں موجود رہتی ہے۔ افتخار ملک لکھتے ہیں کہ ’’انقلابِ فرانس نہ صرف تاریخِ یورپ بلکہ تاریخِ انسانی میں بھی ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت کا حامل ہے۔ یہ انقلاب بنی نوع انسان کی برابری، انفرادیت، جمہوریت، قوم پرستی، حریتِ افکار اور اس کے علاوہ بہت سی تحریکات کا پیش خیمہ بنا۔ اگرچہ یہ تلخ حقیقت ہے کہ خود فرانس بعداز انقلاب ایک بار پھر شہنشاہیت کا شکار ہوگیا اور تقریباً 80 سال بعد وہاں جمہوریت فروغ پذیر ہوئی جب فرانس نے جرمنی سے پہلی مرتبہ 1870ء میں شکست کھائی۔ بعدازاں فرانس میں بھی جمہوریت کا قافلہ نہایت پُرخطر رستے پر چل نکلا اور جمہوری قوتوں کو مختلف اندرونی بحرانوں کا شکار ہونا پڑا۔‘‘
افتخار حیدر ملک پہلے بھی امریکا میںکئی سال رہ چکے تھے۔ نیویارک کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’’نیویارک کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ انسانوں پر پھلتا پھولتا ہے، اور واقعی یہ صحیح ہے کہ امریکا جیسے وسیع و عریض ملک میں نسبتاً کم آبادی کے باعث جہاں جنوبی ایشیا کی طرح لوگوں کے جمگھٹے نظر نہیں آتے، وہاں نیویارک میں لوگوں کی کثیر تعداد دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ یہاں کی بلند و بالا عمارات ہی نہیں بلکہ لوگوں کی بھیڑ بھی اس شہر کو باقی امریکا سے ممتازکرتی ہے۔‘‘
مجموعی طور پر ’’قلزم کے اُس پار‘‘ ایک انتہائی دل چسپ اور ریڈایبل سفرنامہ ہے جس کا مصنف مختلف خطوں کے ساتھ ساتھ قارئین کو تاریخ کا سفر بھی کراتا ہے، جس سے قاری کا تحیر اور تجسس قائم رہتا ہے اور دل چسپی میں اضافہ ہوتا ہے۔

حجاب عباسی کی غزلیں

یہ سودا دل کا سودا ہے خسارا ہو نہیں سکتا
تو پھر کیوں یہ گماں ہے وہ ہمارا ہو نہیں سکتا
ہمیں سمجھا دیا ہے چار دن کی اُس کی فرقت نے
کہ اُس سے بے خبر رہ کر گزارا ہو نہیں سکتا
ہماری دسترس ہے ضبطِ گریہ‘ ضبطِ وحشت پر
ہمارا غم کسی پر آشکارا ہو نہیں سکتا
بہت دشوار ہے کارِ سخن اس رائیگاں رُت میں
مگر ترکِ سخن ہم کو گوارا ہو نہیں سکتا
ہمیں عادت سی اب تو ہو گئی قسطوں میں مرنے کی
تری یادوں سے اِک پل بھی کنارا ہو نہیںسکتا
٭
وہ جہاں ہو رہوں وہاں میں بھی
ورنہ وہ بھی ہے رائیگاں میں بھی
میں نے کاغذ پہ بس ’’زیاں‘‘ لکھا
لکھ تو سکتی تھی داستاں میں بھی
جانتی ہوں ہوائوں کے تیور
ساتھ رکھتی ہوں بادباں میں بھی
وہ تو پاسِ وفا نے چُپ رکھا
ورنہ رکھتی تو ہوں زباں میں بھی
ضبطِ گریہ نے کر دیا گم صم
اس سے پہلے تھی خوش گماں میں بھی
٭
ہو جائے ترے غم سے شناسائی تو بولوں
ہو شہرِ محبت میں بھی شنوائی تو بولوں
یوں بولنا ہر وقت مجھے خوش نہیں آتا
خوشبو کی طرح ہو جو پزیرائی تو بولوں
تازہ کیے بیٹھے ہوں کئی زخم پرانے
گر ہو کوئی امید مسیحائی تو بولوں
صحرائے سماعت میں کوئی لفظ تو اترے
ہو مجھ سے مخاطب مری تنہائی تو بولوں
اک عمر سے یہ سوچ کے بولی نہیں کچھ بھی
گر آپ ہوں سننے کے تمنائی تو بولوں
کچھ وقت گزاروں تری یادوں کے فسوں میں
آ جائے سخن میں ذرا رعنائی تو بولوں
اک نام کی گردان کیے جاتا ہے یہ دل
اک پل کو ہو خاموش یہ سودائی تو بولوں

حصہ