رومن انگلش میں اردو لکھنا، اردو کا قتلِ عام ہے

965

معروف شاعرہ، ادیب، افسانہ نگار، ڈراما نویس حجاب عباسی سے جسارت میگزین کی گفتگو

ڈاکٹر نثار احمد نثار

حجاب بانو المعروف ’’حجاب عباسی‘‘ ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ وہ شاعر‘ ادیب‘ افسانہ نگار‘ ڈراما نویس کے علاوہ سہ ماہی رسالے ’’ادبِ عالیہ‘‘ کی مدیرہ بھی ہیں۔ وہ اپنی ادبی تنظیم تخلیق کار کے پلیٹ فارم سے اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں مصروف عمل ہیں۔ انہوں نے کوئٹہ ریڈیو پر ایک عرصے تک انائوسمنٹ کی اور ساتھ ہی کوئٹہ ٹیلی ویژن پر نیوز کمنٹری اور ڈاکومنیٹریز پڑھتی رہیں۔ یہ گورنمنٹ سروس میں رہیں اور محکمہ سوشل ویلفیئر کے تحت چلنے والے ذہنی و جسمانی معآور بچوں کے ادارے ’’شمع‘‘ میں بحیثیت آفیسر کام کیا لیکن گھریلو ذمے داریوں کے سبب ملازمت کو خیرباد کہا۔ انہیں کوئٹہ ریڈیو کی پہلی نونہال آرٹسٹ ہونے کا اعزاز حاصل ہے انہوں نے ریڈیو کے کم و بیش 100 ڈراموں اور فیچرز میں حصہ لیا ہے۔ ریڈیو پاکستان کراچی سے رات 8 بجے کی خبروں کے بعد نشر ہونے والا مشہور پروگرام ’’آئو بچو کہانی سنو‘‘ کے لیے انہوں نے ان گنت کہانیاں لکھی ہیں۔ ان کا تحریر کردہ ایک ڈراما ’’بات ہے رسوائی کی‘‘ مدر ڈے کے موقع پر ٹیلی کاسٹ ہوا تھا‘ انہیں روزنامہ مشرق کوئٹہ کے تحت ہونے والے مقابلہ افسانہ نگاری میں پہلا انعام ملا تھا۔ ان کا تعلق بنو عباس سے ہے جس کی وجہ سے ’’عباسی‘‘ ان کے نام حصہ ہے۔ یہ ادبی حلقوں میں اپنی شناخت رکھتی ہیں۔ گزشتہ دنوں راقم الحروف نے ان سے جسارت میگزین کے لیے گفتگو کی جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔

جسارت میگزین: اپنے خاندانی پس منظر سے آگاہ کیجیے۔
حجاب عباسی: میں 14 اکتوبر 1954ء کو کراچی میں پیدا ہوئی‘ میرے والدین دہلی (انڈیا) سے ہجرت کرکے کراچی میں آباد ہوئے۔ میرے والد صاحب شعیب حزیں عباسی شاعر‘ ڈراما نگار‘ اسکرپٹ رائٹر اور سینئر براڈ کاسٹر تھے جو کہ دہلی ریڈیو سے وابستہ تھے۔ پاکستان میں لاہور‘کراچی اور کوئٹہ ریڈیو سے منسلک رہے لاہور قیام کے دوران میرے والد صاحب اخبار ’’امروز‘‘ اور کوئٹہ سے شائع ہونے والا اخبار ’’زمانہ‘‘ سے وابستہ رہے۔ پچاس کی دہائی میں والد صاحب کی لکھی ہوئی تاریخِ اسلام کراچی کے انٹر تعلیمی نصاب میں شامل رہی۔ میرے دادا محمد احسن عباسی سینئر ڈاکٹر اور سرجن تھے جو بھارت کے مختلف اسپتالوں میں تعینات رہے‘ میرے دادا کے چھوٹے بھائی فرید احمد عباسی کو بھارت میں ’’بابائے طب‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے میرے چچا اویس احمد عباسی مزاح گو شاعر تھے‘ میری دونوں پھوپھیاں بھی شاعری کرتی تھیں۔ میرے بھائی زبیر عباسی ٹی وی ڈراما رائٹر تھے جنہوں نے ڈراما نگاری میں مختلف ایوارڈز حاصل کیے۔ میری ایک بہن سیما غزل شاعرہ اور ڈراما نگار ہیں‘ دوسری بہن نسرین نظامی بھی ڈراما رائٹر ہیں جب کہ میری بڑی بیٹی ثمینہ اعجاز بھی ٹی وی ڈراما رائٹر ہیں اور بیسٹ رائٹر کا ایوارڈ بھی حاصل کرچکی ہے۔
میں جب نو‘ دس سال کی تھی اس وقت ہمارے گھر کی شعری نشستوں میں جگر مراد آبادی‘ تابش دہلوی‘ ہوش امروہوی‘ رضی اختر شوق‘ سلیم احمد وغیرہ آیا کرتے تھے اس طرح میں نے شعر و سخن کی محفلوں میں شرکت کی۔ ان نشستوں نے میری شاعری میں اہم کردار ادا کیا۔ مجھے شاعری ورثے میں ملی ہے۔ میرے خاندان کے 90 فیصد لوگ علم وادب سے جڑے ہوئے ہیں۔ میں اپنے بچپن کا ایک واقعہ آپ سے شیئر کرنا چاہتی ہوں کہ ریڈیو پر والد صاحب کے ایک دوست شمش الدین بٹ تھے‘ ایک روز وہ والد صاحب کی مزاج پرسی کے لیے گھر آئے‘ میںچائے لے کر کمرے میں گئی تو انہوں نے والد صاحب سے پوچھا تمہارے بچوں میں کس کو لکھنے کا شوق ہے؟ والد صاحب میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس بچی کو شاعری سے کچھ دلچسپی ہے جب گھر میں شعر نشست ہوتی ہے تو یہ بڑی توجہ اور شوق سے سنتی ہے‘ اس وقت میری عمر دس سال تھی‘ بٹ صاحب نے مجھ سے پوچھا تم مصرع سمجھتی ہو‘ میں نے کہا ’’جی ہاں‘‘ اس مصرعے پر مصرع لگائو میں نے دس منٹ کے اندر اس پر مصرع لگایا‘ شعر تھا:

تیرا مرنا خوشی کی بات سہی
دفن کر کے اداس رہتی ہوں

بٹ صاحب نے مصرع سن کر والد صاحب سے کہا یہ بچی مستقبل کی شاعرہ ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ میں اپنے خاندان کا نام روشن کر رہی ہوں۔ میں کوئی بہت ممتاز و معروف شاعرہ نہیں ہوں لیکن ادبی منظر نامے میں اپنی شناخت رکھتی ہوں۔ میں اردو ادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ سماجی خدمات بھی انجام دے رہی ہوں لیکن اس کارِ خیر کی شہرت نہیں چاہتی۔
جسارت میگزین: شاعری کے حوالے سے اپنے اساتذہ کا نام بتانا پسند کریں گی؟
حجاب عباسی: شاعری میں باقاعدہ کوئی استاد نہیں بنایا‘ کبھی کبھی اگر فنی لحاظ سے کسی شعر یا مصرعے سے مطمئن نہ ہوئی تو پروفیسر سحر انصاری سے مشورہ کر لیتی ہوں۔ میں نے اپنے شاگرد نہیں بنائے البتہ کچھ نئی شاعرات اور شاعروں کی رہنمائی کرتی رہتی ہوں۔
جسارت میگزین: علم عروض کے بارے میں آپ کے کیاخیالات ہیں؟
حجاب عباسی: عروض اس علم کا نام ہے جس میں اوزانِ اشعار جانچے جاتے ہیں اس علم کا موجد خلیل بن احمد ہے جو کہ مکے کا رہائشی تھا۔ اساتذہ قدیم نے عروض کی پندرہ بحریں بنیادی قرار دی تھیں لیکن متاثرین نے چاربحریں مزید ایجاد کیں تو گویا کل انیس بحریں علم عروض کا حصہ بن گئیں لیکن علم عروض کے ماہر زخافات میں کمی بیشی کرکے نئی بحر بنا لیتے ہیں فارسی دانوں نے انیس بحروں کے علاوہ 9 بحریں اور ایجاد کرلیں اس طرح 28 بحریں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ بحر کے لغوی معنی دریا کے ہیں جس طرح دریا سے ندیاں نکلتی ہیں اسی طرح بحر سے مختلف اوزان پھوٹتے ہیں جنہیں فاعیل‘ تفاعیل‘ افعال وغیرہ وغیرہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ علمِ عروضً کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن شاعری کے لیے علم عروض سیکھنا ضروری نہیں ہے ہمارے سامنے کئی سینئرز موجود ہیں جن کو عروض نہیں آتا لیکن وہ بہت عمدہ کہہ رہے ہیں۔ شاعری ایک خداداد صلاحیت ہے‘ بہت سے لوگ گنگنا کر مصرع وزن میں کر لیتے ہیں جب آپ شاعری میں پختہ کار ہو جاتے ہیں تو آپ بے وزن مصرع پہچان لیتے ہیں۔ کراچی میں اس وقت کئی ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں علمِ عروض پر دسترس حاصل ہیں ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
جسارت میگزین: فی زمانہ تنقید کا معیار کیسا ہے آپ اس سلسلے میں کیا مؤقف رکھتی ہیں؟
حجاب عباسی: فی زمانہ تنقید کا معیار بہت گر چکا ہے‘ تنقید نگار ہر شاعر و شاعرہ کے کلام پر تعریفی مضمون لکھ دیتے ہیںکیوں کہ وہ کسی کی مخالفت مول لینا نہیں چاہتے لوگ دوستیاں نبھا رہے ہیں یا پھر ستائش باہمی کے اصول پر کاروبارِ تنقید جاری ہے۔ تنقید نگاری کا شعبہ جب سے کمزور ہوا ہے ادب کی ترقی کا سفر سست روی کا شکار ہے۔ کھری اور سچی تنقید سے قلم کار کی اصلاح ہوتی ہے اب فیس بک کا زمانہ ہے لوگ اپنی شاعری فیس بک پر ڈال دیتے ہیں اور جو Comments آتے ہیں‘ ان کو سرمایۂ حیات سمجھتے ہیں۔
جسارت میگزین: اردو زبان و ادب کے فروغ میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے کردار کے بارے میں بتائیں؟
حجاب عباسی: الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا اپنے مفادات کا خیال رکھتے ہیں ہر چیز کمرشلائزڈ ہو چکی ہے اگر کہیں سے اشتہار مل جاتا ہے تو کوئی ٹی وی چینل ادبی پروگرام دکھا دیتا ہے‘ آپ ہی بتائیں کہ شہر میں روزانہ کتنے علمی و ادبی پروگرام ہوتے ہیں کیا ان کی ٹی وی کوریج ہو رہی ہے؟ جہاں تک اردو زبان سیکھنے کا تعلق ہے تو ہمارے بچے اپنے اساتذہ اورگھر کے ماحول سے زبان و ادب کے بارے میں زیادہ سیکھ سکتے ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا پر ٹی وی اینکرز غلط سلط اردو بول کر ہمارے بچوں کو گمراہ کر رہے ہیں‘ وہ اردو زبان کے درست تلفظ سے اس لیے نابلد ہوتے ہیں کہ وہ اہل زبان نہیں ہوتے۔ ایک زمانہ تھا کہ ریڈیو اور ٹی وی پر تلفظ کا بہت خیال رکھا جاتا تھا کوئی بھی پروگرام آن ائر جانے سے پہلے اسکرپٹ کسی اردو کے ماہر سے پڑھوایا جاتا تھا۔ اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے بنائے گئے سرکاری اور نیم سرکاری ادارے اپنے فرائض ایمان داری سے پورے نہیں کر رہے۔ وہ P.R کی بنیاد پر کام کر رہے ہیں‘ میں سمجھتی ہوں کہ وہ اپنے حلقے کے لوگوں کو سپورٹ کر رہے ہیں جینئس قلم کاروں کی بھرپور حوصلہ نہیں ہو رہی۔ اردو کے مستقبل کی طرف سے ہمارے ادیب و شاعر فکر مند ہیں کیوں کہ ہماری نئی نسل کو اردو سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ وہ الیکٹرانک میڈیا پر ہونے والی گفتگو سے متاثر ہو کر غلط سلط اردو بولتے ہیں‘ ٹی وی کے ایک نظامت کار نے لفظ ’’کُتابچہ‘‘ استعمال کیا اور اسے بار بار دھہرایا بھی جب کہ یہ لفظ ’’کتابچہ‘‘ ہے۔ زبان کے عروج و زوال میں الیکٹرانک میڈیا کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ ارباب اختیار کو چاہیے کہ وہ اس طرح بھی توجہ دیں۔
جسارت میگزین: عدالتی فیصلے کے باوجود اردو کو سرکاری زبان کا درجہ کیوں نہیں مل سکا؟ آپ اس سلسلے میں کیا کہتی ہیں؟
حجاب عباسی: سپریم کورٹ کے نفاذِ اردو کے فیصلے پر عمل نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ مختلف زبان بولنے والے افسران اعلیٰ اور صاحبِ اقتدار لوگ ہیں جو کہ اپنی اپنی زبانوں سے محبت کے باعث اردو کو اہمیت نہیں دیتے حالانکہ اردو کا کسی بھی علاقائی زبانوں کی ترقی میں اردو رکاوٹ نہیں ہے‘ اردو تو قومی زبان ہے بلکہ اب تو اردو بین الاقوامی زبان کے طور پر فروغ پا رہی ہے۔
جسارت میگزین: آپ کا نظریۂ ادب کیا ہے؟
حجاب عباسی: شاعری‘ انسانی زندگی سے جڑی ہوئی ہے‘ شاعر بہت حساس ہوتا ہے‘ وہ اپنے اردگرد جو کچھ دیکھتا ہے‘ اس کو شاعری میں ڈھالتا ہے‘ اگر شعرائے کرام معاشرے کو مثبت پیغام دیں تو معاشرے میں بہتری آتی ہے‘ جس معاشرے میں ادب کو اہمیت نہ دی جائے تو وہ معاشرہ زوال کاشکار ہوجاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ارباب ِ سخن نے مختلف تحریکوں کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
جسارت میگزین: آپ کی نظر میں تنقیدی نشستوں کی کیا اہمیت ہے؟
حجاب عباسی: تنقیدی نشستوں کی روایت دم توڑ رہی ہے‘ ایک زمانہ تھا کہ کراچی میں تنقیدی نشستیں اور طرحی مشاعرے ہوتے تھے‘ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں طویل عرصے تک نقاش کاظمی‘ تنقیدی نشستوں کا اہتمام کرتے رہے ہیں۔ تنقیدی نشستوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں کہ اس قسم کی نشستوں میں قلم کاروں کی تخلیقات رکھی جاتی ہیں جس پر مختلف لوگ اپنی اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں اس طریقۂ کار سے ہماری معلومات میں اضافہ ہوتا ہے لیکن جس شخص کی تخلیق برائے تنقید رکھی جاتی ہے وہ اپنے کلام یا اپنی تحریر کی خامیاں برداشت نہیں کرتا میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ تو نوبت تلخ کلامی سے بڑھ کر ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے۔ بہرحال تنقیدی نشستوں کو بحال کیا جاناچاہیے اس سلسلے میں ہمیں سوچنا چاہے‘ یہ ایک اچھا قدم ہوگا۔
جسارت میگزین: آپ کے نزدیک نثری نظم کا کیا مستقبل ہے؟
حجاب عباسی: کچھ عرصے پہلے تک لوگ نثری نظم کو قابل توجہ نہیں سمجھتے تھے مگر موجودہ دور میں ن۔م راشد اور جمال احسانی کی تقلید کرتے ہوئے نثری نظم کو فروغ دے رہے ہیںنثری نظم کا بھی ایک قاعدہ ہے‘ اگر اسے مدنظر رکھ کر نثری نظم کہی جائے تو ادب میں اپنا مقام بناتی ہے ورنہ الل ٹپ کچھ بھی لکھ مارنا بے کار ہے۔
جسارت میگزین: نعت نگاری کے بارے میں آپ کے کیا نظریات ہیں؟
حجاب عباسی: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف‘ چاہے نظم کی شکل میں ہو یا نثر کی صورت میں‘ اہم اسے ’’نعت‘‘ کہتے ہیں۔ نعت نگاری صنفِ سخن میں شامل ہے‘ نعت گوئی میں سیرت مصطفی ؐاور جمال مصطفیؐ بیان کرتے ہوئے رتبۂ سرور کونینؐ کا پورا پورا احساس رکھنا چاہیے۔ غلو یا مبالغہ آرائی کا پہلو شاملِ نعت نہیں ہونا چاہیے۔ اب نعت میں فضائل و مناقب‘ رسالت کے ساتھ ساتھ سیرتِ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ اور مقاصدِ نبوت کا ذکر بھی ہو رہا ہے اور فرد کی ذاتی احوال کی نگارش کے ساتھ آشوبِ امت کی نشان دہی ور چارہ گری کا اظہار بھی نعت کے مضامین ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ اسوۂ رسولؐ کی پیروی میں ہماری دینوی اور دنیاوی مشکلات کا حل موجود ہے۔
جسارت میگزین: آپ نئے لکھنے والوں کو کیا پیغام دینا چاہتی ہیں؟
حجاب عباسی: مبتدی قلم کاروں کو وسیع مطالعہ کرنا چاہیے‘ انہیں اساتذہ کرام کا کلام پڑھنا چاہیے‘ میں دیکھتی ہوں کہ آج کل کچھ جونیئر شعرا اپنی غزل سنا کر مشاعرے سے چلے جاتے ہیں انہوں نے اپنی الگ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا لی ہے۔ گروہ بندیوں نے ادب کو کافی نقصان پہنچایا ہے ایک تنظیم دوسری تنظیم کے افراد کو نہیں بلاتی چاہے وہ کتنا ہی اچھا قلم کار ہو۔ اگرگروہ بندی نظریات سے ہٹ کر ہو تو بلاشبہ ادب کو فروغ ہوگا۔
جسارت میگزین: متشاعروں کے بارے میں آپ کیا کہتی ہیں؟
حجاب عباسی: ادب میں متاشعروں کا سلسلہ بہت پرانا ہے‘ غالباً میرؔ اور غالبؔ کے زمانے میں بھی یہ لوگ موجود تھے کچھ لوگ مالی مفاد کی خاطر لوگوں کو کلام لکھ لکھ کر دیتے ہیں اور کچھ مال دار شاعر بننے کے شوق میں ایسا کام کر رہے ہیں۔ صاحبِ ثروت متشاعروں کے کلام کے مجموعے بھی شائع ہورہے ہیں ان میں خواتین بھی شامل ہیں یہ لوگ اپنی کتاب کی تقریب رونمائی کے لیے کسی بڑے شاعر و ادیب کو بلا لیتے ہیں۔ یہ سلسلہ کیسے بند ہوگا میری سمجھ سے باہر ہے۔ میں ذاتی طور پر بھی کچھ لوگوں کو جانتی ہوں کہ جو ایک مصرع بھی نہیںکہہ سکتے لیکن ان کے مجموعے شائع ہو رہے ہیں۔

حصہ