روزے کا انسانی جسم پر کیا اثر پڑتا ہے؟۔

362

ہر سال کروڑوں مسلمان سحری سے لے کر سورج ڈھلنے تک روزہ رکھتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں دنیا کے کرہ نصف شمالی میں رمضان گرمیوں کے موسم میں آتا ہے، جب دنیا کے کئی علاقوں میں گرمی پڑتی ہے اور دن لمبے ہوتے ہیں۔
ناروے جیسے شمالی ملکوں میں تو روزہ 20 گھنٹے سے زیادہ لمبا ہوسکتا ہے۔
کیا یہ صحت کے لیے مفید ہے؟ اور اگر آپ لگا تار 30 دنوں تک ایسا کرتے رہیں تو آپ کے جسم پر کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں؟
تکنیکی طور پر آپ کا جسم روزہ شروع کرنے کے آٹھ گھنٹے تک معمول کی حالت میں رہتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب معدے میں پڑی خوراک مکمل طور پر ہضم ہوجاتی ہے۔
اس کے بعد جسم جگر اور پٹھوں میں ذخیرہ شدہ گلوکوز کے ذرائع استعمال کرنا شروع کردیتا ہے۔ جب یہ ذخیرہ بھی ختم ہوجائے تو پھر جسم چربی کو پگھلا کر توانائی کے لیے استعمال کرتا ہے۔
جسم میں ذخیرہ شدہ چربی کے بطور خوراک استعمال سے وزن گھٹنا شروع ہوجاتا ہے، کولیسٹرول کی مقدار میں کمی واقع ہوتی ہے اور ذیابیطس کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی جسم میں شوگر کم ہونے سے کمزوری اور تھکاوٹ کا احساس شروع ہوجاتا ہے۔ اس کے علاوہ سردرد، سر چکرانا، متلی اور سانس سے بدبو جیسی شکایات بھی ہوسکتی ہیں۔
جب جسم روزے کا عادی ہوجاتا ہے تو چربی کو پگھلا کر اس سے گلوکوز بنانا شروع کردیتا ہے۔ اس لیے افطار کے بعد پانی زیادہ مقدار میں پینا چاہیے، کیوں کہ روزے کی حالت میں پسینہ آنے سے جسم میں پانی کی کمی یعنی ڈی ہائیڈریشن واقع ہوسکتی ہے۔
افطار کے بعد پانی زیادہ مقدار میں پینا چاہیے کیوں کہ روزے کی حالت میں پسینہ آنے سے جسم میں پانی کی کمی یعنی ڈی ہائیڈریشن واقع ہوسکتی ہے۔ اس دوران آپ کے کھانوں میں ’توانائی والی خوراک‘ شامل ہونا چاہیے، جیسے نشاستہ دار غذائیں اور چربی۔
یہ ضروری ہے کہ خوراک متوازن رہے اور اس میں لحمیات، نمک اور پانی شامل رہیں۔
تیسرے مرحلے میں جسم کے روزے کے عادی ہو جانے سے موڈ بہتر ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر معروف کیمبرج میں اینستھیزیا اور انٹینسیو کیئر میڈیسن کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ مزید فائدے بھی ہیں۔
آپ کے کھانوں میں ’توانائی والی خوراک‘ شامل ہونا چاہیے، جیسے نشاستہ دار غذائیں اور چربی۔ عام زندگی میں ہم روزانہ ضرورت سے زیادہ کیلوریز استعمال کرتے ہیں، جس سے جسم کو دوسرے ضروری کام، مثلاً اپنی مرمت کے لیے مناسب وقت نہیں مل پاتا۔
روزے سے یہ مسئلہ حل ہوجاتا ہے اور جسم اپنی توجہ دوسرے افعال کی طرف مرکوز کردیتا ہے۔ اس لیے روزہ جسم کو مندمل ہونے اور جراثیم کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتا ہے۔
رمضان کے آخری دنوں میں جسم فاقہ کشی کے عمل سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔
بڑی آنت، جگر، گردے اور جِلد اس دوران زہر رفع کرنے کے عمل (detoxification) سے گزرنا شروع ہو جاتے ہیں۔
ڈاکٹر معروف کہتے ہیں: ’’اس دوران اعضا کا فعل بھرپور قوت سے چلنے لگتا ہے اور آپ کی یادداشت اور ارتکاز کی قوت بہتر ہو جاتی ہے اور آپ کے اندر زیادہ توانائی آ جاتی ہے۔‘‘
اگر فاقہ کشی کئی دن تک مسلسل جاری رہے تو جسم پٹھوں کو پگھلانا شروع کر دیتا ہے، لیکن رمضان میں ایسا نہیں ہوتا کیوں کہ روزہ ایک دن میں ختم ہو جاتا ہے۔ تو کیا روزہ صحت کے لیے مفید ہے؟
ڈاکٹر معروف کہتے ہیں، جی ہاں، مگر ایک شرط کے ساتھ۔ یہ ضروری ہے کہ خوراک متوازن اور اس میں لحمیات، نمک اور پانی شامل رہے۔ روزہ صحت کے لیے اچھا ہے کیوں کہ اس سے ہمیں اس بات پر غور کرنے کا موقع ملتا ہے کہ کیا کھانا اور کب کھانا ہے۔ البتہ میں اس کا مشورہ نہیں دے سکتا کہ ایک مہینے سے زیادہ عرصے تک روزے جاری رکھے جائیں۔
وہ کہتے ہیں: ’’مسلسل روزہ وزن کم کرنے کے لیے اچھی چیز نہیں ہے کیوں کہ بالآخر آپ کا جسم چربی کو توانائی میں ڈھالنے کے بجائے پٹھوں کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ یہ صحت کے لیے اچھی بات نہیں اور اس کا مطلب ہے کہ آپ کا جسم فاقہ کشی کی حالت میں چلا گیا ہے۔‘‘
ان کا کہنا ہے’ ’رمضان کے روزے اگر صحیح طریقے سے رکھے جائیں تو ہر روز جسم کی توانائی بحال ہوتی ہے جس سے آپ کارآمد پٹھے گھلائے بغیر وزن بھی کم کر سکتے ہیں۔‘‘

حصہ