دو رنگی چھوڑ کر یک رنگ ہوجا

928

انصر محمود بابر
حسن ِاخلاق کیا ہے؟۔میں نے سوال کیا۔جواباً وہ مسکرائے توان کی نیم واروشن آنکھیں کچھ اور جمکنے لگیںاورمیرے من میںٹھنڈک سی اترنے لگی۔وہ شفیق دھیمے لہجے میں فرما نے لگے کہ دیکھوبیٹامثال کے طورپر آپ نے کسی کاادھارچکاناہواورآپ کے پاس گنجائش نہ نکل رہی ہو۔باربارکی وعدہ خلافی سے شرمندگی آپ کو گھیرے میں لے لے اورایسے میں آپ کااچانک اس شخص سے سامناہوجائے جس کا آپ نے ادھاردیناہے تواس وقت جس خوش اخلاقی سے آپ معذرت کرتے ہیں اورجلد ادھار واپس کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔وہی رویہ اور شائستگی زندگی میں عام لوگوں سے بے غرض ہوکراپناناحسن ِاخلاق ہے‘‘۔وہ سانس لینے کو رکے تومیرے لئے ادراک ومعانی کاایک نیادرکھلنے لگا۔
منافقت کیاہے؟۔میںنے پوچھاتوایک لمحے کوان کی آنکھوں میں جلال ساجھلکا۔دوسرے ہی لمحے اپنے مخصوص اندازمیں گویاہوئے۔’’بچوں کوان کے پچپن میںقدم قدم چلناسکھایاجاتاہے اوراس دوران بچے کو اپنی بانہوں کے حلقے میں رکھاجاتاہے تاکہ گرنہ پڑے۔توپھرکیاوجہ ہے کہ جب وہ چلناسیکھ جاتاہے تواس کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں؟‘‘۔میں دم بخودانھیں سن رہاتھا۔اپنی بات کوانھوں نے آگے بڑھایا۔’’جنازے کو بھاگ بھاگ کر کندھادیتے ہواورزندوں سے زندگی کے سہارے چھین لیتے ہو‘‘۔ان کا لہجہ اگرچہ بدستوردھیما تھامگران کی گفتگوکے اندازاورالفاظ کے چنائوسے جلال جھلک رہاتھا۔’’مُردوں کی برسیاں مناتے ہو جبکہ زندوں کوکھانا تک نہیں دیتے ہو، مزدورکی مزدوری تک نہیں دیتے ہو۔ محافل میں حسن ِ اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہو تو گھروں میں اتنے ہی بدتمیز ہو جاتے ہو۔ دوسروں کے متعلق خود ہی رائے قائم کرتے ہو، خود ہی فیصلہ کرتے ہو اور اس پہ ڈٹ جاتے ہو اور منافقت کسے کہتے ہیں؟‘‘ بات ختم کرتے کرتے ان کا تنفس پھولنے لگا تھا جو میری دھڑکنوں میں اضافے کا سبب بن رہا تھا۔ ان کی آخری بات نے تو میرے رونگٹے کھڑے کردیے تھے۔ ’’ناچنے والیوں پہ لاکھوں لٹا دیتے ہو اور بیوائوں کے لیے تمھارے پاس چند ٹکوں کی گنجائش نہیں ہوتی۔‘‘ انھوں نے مجھے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا ’’جائو میاں پہلے یہ تمام برائیاں اپنے اندر تلاش کرو۔ جب انھیں پالو تو ایک ایک کر کے ختم کرنے کی کوشش کرو۔ دوسروں کے کردارکو اپنے لیے آئینہ سمجھو تو یقینا اصلاح ہو سکتی ہے۔‘‘ اتنا کہہ کر انھوں نے آنکھیں موند لیں۔ یہ گویا ملاقات کے اختتام کا اشارہ تھا۔
ان کا ایک ایک لفظ میری سماعتوں پہ ہتھوڑے کی طرح لگ رہا تھا۔ اس ملاقات میں انھوں نے میں میری ذات کے اندر تہہ در تہہ لگی گرہوں کو ایک ایک کر کے کھول دیا تھا۔ میں ایسی ہی اذیت میں تھا جیسا کہ مریض آپریشن کے بعد محسوس کرتا ہے۔ بزرگوار نے میری تحلیل نفسی کچھ اس انداز سے کی تھی کہ میں بھی خود کو آپریشن زدہ مریض ہی سمجھ رہا تھا۔ مجھے یاد آرہا تھا کہ اکثر محافل میں مقررین ِ شعلہ بیان جب بھی وعظ و نصیحت کی بات کرتے ہیں تو اسلام کی خاطر مرمٹنے پہ اکساتے ہیں۔ شاید ہی کسی نے اسلام کی خاطر جینے کا درس بھی دیا ہو۔ شاید ہی کسی نے کہا ہو اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، زندگی کے ہر پہلو کی رہنمائی کرتا ہے۔ ہم بھی کیسے سادہ لوح مسلمان ہیں کہ قرآن کو بھی محض کتاب ِ ثواب سمجھ رکھا ہے۔ کاش ہم نے اسے کتاب ِ عمل اور کتاب ِ زندگی سمجھا ہوتا تو یقینا زندگی آسان ہوتی اور موت کا خوف نہ ہوتا۔ اب میں آپ سے مخاطب ہوں ۔ کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ہم حسن ِ اخلاق کے پیکر بن جائیں اور ہماری عام معاشرتی زندگی پُر بہار ہو جائے؟ کیا ہمیں منافقت چھوڑ نہیں دینی چاہیے تاکہ قرآن اور صاحب ِ قرآن کی نظر میں کامل مومن بن جائیں؟ کیا کہتے ہیں آپ؟

حصہ