بچے کتنے پیارے

240

مولانا سید جلال الدین عمری
انسان کا چھوٹا سا بچہ بھی قدرت کا عجیب کرشمہ ہے، اس کی بھولی بھالی شخصیت میں کتنی کشش اور جاذبیت ہوتی ہے۔ اس کی معصوم ادائیں، اس کی مسکراہٹ، اس کی دلچسپ اور ٹوٹی پھوٹی باتیں، اس کی شوخیاں اور شرارتیں، اس کا کھیل کود… غرض اس کی کون سی ادا ہے جو دل کو لبھاتی اور کیف و سرور سے نہ بھر دیتی ہو! پھر ایک دوسرے پہلو سے دیکھیے، ہمیں نہیں معلوم کہ قدرت نے کس بچے میں کتنی اور کس قسم کی صلاحیتیں رکھ دی ہیں اور وہ آگے چل کر کیا خدمات یا کارنامے انجام دینے والا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آج کے ان معصوموں میںکوئی کسان اور تاجر ہو، کوئی انجینئر اور صنعت کار ہو، کوئی صحافی اور مصنف ہو، کوئی مدرس اور مقنن ہو، کوئی سائنس دان اور فلسفی ہو، اور کوئی ماہر سیاست اور مدبر و منتظم ہو۔ ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ خاندان، قبیلے، قوم، ملک اور نوعِ انسانی کو ان میں کس کے ذریعے کتنا بڑا فائدہ پہنچے گا۔
اتنی بڑی صلاحیتیں جس بچے کے اندر چھپی ہوئی ہیں وہ اپنی پیدائش کے وقت سب سے زیادہ کمزور اور بے بس ہوتا ہے۔ وہ اپنی نشوونما اور پرورش کے لیے جتنی توجہ، شفقت اور محنت کا طالب ہے، کسی بھی جان دار کا بچہ اتنی توجہ اور محنت نہیں چاہتا۔ ذرا سی بے احتیاطی سے اس کی زندگی ہی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اس کی ذہنی، فکری اور اخلاقی تربیت تو اس سے بھی زیادہ پیچیدہ اور مشکل کام ہے۔ اس معاملے میں غلطی یا کوتاہی اسے بالکل غلط رُخ پر لے جاسکتی ہے اور اس کا وجود پورے سماج کے لیے عذاب بن سکتا ہے۔ لیکن اگر صحیح نہج پر اس کی تربیت ہوسکے تو وہ سماج کو امن، چین اور سکون سے بھی بھر سکتا ہے۔
پورے معاشرے کے لیے انسان کے ایک ایک بچے کی بڑی اہمیت ہے۔ وہ ماں باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک، ان کے لیے سکون و راحت کا باعث، اور ان کی تمنائوں کا مرکز ہوتا ہے، بڑھاپے میں وہ اسے اپنا سب سے بڑا سہارا تصور کرتے ہیں۔ خاندان اور قبیلے کی بے شمار توقعات اس سے وابستہ ہوتی ہیں۔ قوم و ملک کا وہ قیمتی سرمایہ ہوتا ہے، اس لیے ہم میں سے ہر ایک کی اخلاقی اور قانونی ذمے داری ہے کہ اس کی جسمانی نشوونما اور اخلاقی تربیت کی فکر کریں اور اسے مرض، کمزوری، جہالت اور غلط روی سے بچائیں۔

حصہ