فانی دنیا کے لافانی لوگ، مولانا حسرت موہانیؒ

1290

پروفیسرشاہد احمد
سچائی‘ حق پرستی کی راہ پر چلنے والے اور برصغیر میں انگریزوں کے خلاف بغاوت کا عَلم بلند کرنے والے مولانا حسرت موہانی سرتاپا جدوجہد تھے جو ہر استبداد سے مقابلہ کرتے رہے۔ وہ ایسے باعمل تھے جن کا ہر لمحہ ایک بلند مقصد کے لیے صرف ہوا‘ وہ ایک اضطرابِ مسلسل تھے جس کی انتہا شاید موت بھی نہ کرسکے۔ ان کی ساری زندگی سعی پیہم‘ عمل مسلسل اور جدوجہد آزادی میںگزری۔ حسرت موہانی جیسی متضاد طبیعت کا انسان کبھی کبھار ہی منصۂ شہود پر آتا ہے۔ انہوں نے سیاست میں سچائی‘ استقامت‘ اصول پسندی‘ حق پرستی اور اپنے کردار‘ قول و فعل کے ایسے نقوش چھوڑے ہیں جو تاریخ کے صفحات پر روشن ہیں۔ مولاناحسرت موہانی ایک درویش صفت بے باک اور حق گو رہنما تھے‘ انہوں نے برصغیر میں حق پرستی کی جو قندیل روشن کی تھی وہ اپنی مثال آپ تھی۔ ان کی زندگی ایک کھلی کتاب تھی جس کا ہر حرف چمکتا ہوا تھا۔ بقول ڈاکٹر فرمان فتح پوری حسرت موہانی پاک و ہند کے پہلے صحافی‘ پہلے شاعر‘ پہلے ادیب‘ پہلے طالب علم‘ پہلے حریت پسند تھے جنہوں نے حکومتِ برطانیہ کے خلاف عَلم بغاوت بلند کیا‘ انہوں نے جیتے جی انگریزوں کو کبھی حاکم تسلیم نہیں کیا۔ حکومت نے ان کو باغی قرار دے رکھا تھا۔ مولانا حسرت موہانی کے حوالے سے علامہ سید سلیمان ندوی مرحوم کہتے ہیں کہ حسرت موہانی بیسویں صدی کے ابوذر غفاریؓ جیسی شخصیت کی مثال ہیں۔ برصغیر کی سیاست اور اردو شاعری میں مولانا حسرت موہانی کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہے اس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ مولانا شرع کے سختی سے پابند تھے۔ نمازی ایسے کہ لڑکپن سے لے کر آخر دم تک شاید ہی نماز قضا ہوئی ہو۔
مولانا حسرت موہانی خوش حال گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ دادی کی طرف سے انہیں تین گائوں ورثے میں ملے ہوئے تھے۔ ددھیال والے بھی خوش حال تھے کیوں کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ نہیں جاسکتے تھے لیکن سنت نبویؐ کی پیروی اور استغنا و سادگی کی صورت یہ تھی کہ جائیداد کا زیادہ حصہ دینی اور فلاحی کاموںکے لیے وقف کر رکھا تھا۔ وہ دال دلیہ کھاتے‘ موٹا جھوٹا پہنتے اور عیش دنیا سے بے نیاز ہو کر قلندرانہ زندگی بسر کرتے تھے۔ مولانا حسرت موہانیؒ نے ساری زندگی گھر کے سلے ہوئے اور اپنے ہاتھ کے دھلے ہوئے کپڑے پہنے۔ عاشق رسول ایسے کہ آخری عمر میں ہر سال حج کرنے جاتے تھے لیکن نہ تو کبھی حاجی کہلائے اور نہ ہی ان میں تعصب نام کی کوئی چیز تھی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نعتیں کہیں‘ گاندھی جی کے شباب کے زمانے میں اُن کے خلاف سیاہ جھنڈیوں کا جلوس نکالا اور قائد اعظم کے عروج کے زمانے میں ان کی مخالفت کی۔ حسرت موہانی 1875ء میں موہان ضلع انائو (بھارت) میں پیدا۔ والد کا نام سید اظہر حسین تھا۔ حسرت کا سلسلۂ نسب امام علی موسیٰ رضا سے ملتا ہے۔ حسرت کی ابتدائی تعلیم موہان میں ہوئی اور وہیں سے انہوں نے 1894ء میں اردو مڈل کا امتحان پاس کیا اس کے بعد فتح پور گئے اور گورنمنٹ اسکول میں انگریزی تعلیم شروع کی۔ 1889ء میں انٹر کے بعد ڈاکٹر ضیا الدین کے مشورے پر علی گڑھ چلے گئے اور 1903ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد آپ نے انگریز حکومت کی نوکری کرنے کے بجائے علم و ادب کے میدان کو چنا۔ ’’اردو معلیٰ‘‘ کے نام سے ایک بلند پایہ ادبی رسالہ نکالا جس میں شعر و سخن کے ساتھ ساتھ سیاسیات پر بھی مضامین ہوتے تھے اس میں جو کچھ لکھا جاتا‘ وہ بے خوف ہو کر لکھا جاتا۔ یہ رسالہ اپنی بے باکی‘ حق پرستی اور اعلیٰ مضمون نگاری کی بابت ہندوستان بھر میں مشہور ہو گیا۔ اردو معلیٰ کی ایک اشاعت میں مولانا نے مصر کے مشہور لیڈر مصطفی کامل کی موت پر ایک مضمون شائع کیا اور اس میں انگریزوں کی پالیسی پر سخت تنقید کی گئی۔ حکومت نے اسے بغاوت سے تعبیر کیا اور اس جرم کی پاداش میں مولانا کا قیمتی کتب خانہ تباہ کر دیا گیا۔ دو سال کے لیے قید بامقشت کی سزا دی گئی۔ اذیت و مصیبت کے یہ دو سال انہوں نے جس جواں مردی اور خندہ پیشانی سے گزارے وہ سیاسی قید و بند کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہیں۔ تیس سیر سے ایک من تک آٹا انہیں پتھر کی چکی پر روزانہ پیسنا پڑتا تھا۔

ہے مشقِ سخن جاری‘ چکی کی مشقت بھی
ایک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
٭

چھ فٹ چوڑی کوٹھری میں یہ حریت کا دلدادہ مقید تھا۔ بدن پر ایک کرتی اور ایک لنگوٹی کے سوا کچھ نہ تھا۔ ضروریاتِ زندگی کے لیے بوسیدہ سا ایک ٹاٹ کا ٹکڑا اور ٹین کا ایک ڈبہ ملا ہوا تھا۔ ٹاٹ کے ٹکڑے کو مولانا بستر‘ تکیہ اور جائے نماز کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ٹین کا ڈبہ پانی پینے‘ وضو کرنے اور آب دست کے کام آتا تھا۔ ان سب کے باوجود مولانا سے نہ کسی وقت کی نماز چھٹی نہ تراویح اور نہ کوئی روزہ قضا ہوا۔

کٹ گیا قید میں ماہِ رمضان بھی حسرت
گرچہ سامان سحر کا تھا نہ افطاری کا

جس مضمون پر حسرت موہانی کو سزا ہوئی تھی‘ وہ مضمون ان کا نہ تھا‘ مگر مقدمہ قائم ہونے پر حسرت نے اس کو خود اوڑھ لیا اور باوجود اصرار کے اس کے لکھنے والے کا نام نہیں بتایا۔ انہوں نے صحافت کے اعلیٰ اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے مثالی کردار ادا کیا اور اپنے پرچے میں لکھنے والے کے وقار اور عزت کو بحال و برقرار رکھا۔ اپنی صحافتی اور سیاسی زندگی میں مولانا حسرت کا مسلک یہ تھا کہ انہوں نے ہمیشہ وہی لکھا‘ وہی کیا جسے سچ جانا۔ مولانا حسرت موہانی کی شخصیت یک رنگ نہیں رنگا رنگ ہے۔ یک شیوہ نہیں ہزار شیوہ ہے۔ انہوں نے زندگی کو ایک رُخ سے نہیں ہر رخ سے دیکھا ہے‘ اس کے ہر اچھے پہلو اور ہر بے ضرر مشغلے سے مخلصانہ دلچسپی لی ہے۔ تقسیم ہند کے ہندوستان ہی میں قیام پذیر رہے اور اپنی زندگی کو اُسی طرح گزارا جس طرح آزادیٔ ہند سے پہلے گزارتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد جب دہلی میں فسادات پھوٹ پڑے تو اس زمانے میں ایک بار پارلیمنٹ اسٹریٹ کے ایک درخت کے نیچے عین فسادات کی حالت میں نماز ادا کی۔ آنجہانی سردار پٹیل سے کہا تھا کہ یہ مت سمجھنا کہ ہندوستان کے مسلمان یتیم ہو کر رہ جائیںگے۔ ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ جب تک زندہ ہوں مسلمانوںکے لیے لڑتا رہوں گا۔
وہ بہت سی پارٹیوں میں رہے۔ بقول مولانا جمال میاں فرنگی محلی وہ گاندھی جی سے پرانے کانگریسی اور جناح صاحب سے پرانے مسلم لیگی تھے۔ ہندوستان کے سارے اشتراکیت پسندوں سے پرانے اشتراکی اور سارے آزادی چاہنے والوں سے پہلے مبلغ آزادی تھے‘ اردو معلیٰ کے باغیانہ مضامین کے باعث جب حکومت نے مولانا حسرت موہانی کو قید میں ڈال دیا تو اس قید میں انہوں نے ’’تذکرۃ الشعراء‘‘ تحریر کیا۔ ادبی تاریخ اور تنقید میں ان کی یہ تصنیف قابل قدر ہے۔ علاوہ ازیں ’’انتخاب سخن‘‘ کے نام سے گیارہ جلدوں میں تمام ممتاز قدیم وجدید شعرا کے دوادین کا انتخاب بھی شائع کیا۔ حسرت موہانی نے غزل میں جدید رنگ پیدا کرکے اس کو نئی زندگی دی یہی وجہ ہے کہ ان کا جدید رنگ ان کے دور سے لے کر آج تک بے حد پسند کیا گیا۔

نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں
٭
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا ہے حسرتؔ
ان سے مل کر بھی نہ اظہارِ تمنا کرنا

کلام میں حسنِ بندش‘ جدت تخیل‘ سوز و گداز‘ درد و اثر کے اعتبار سے حسرت موہانی اور شعرا میں ممتاز ہیں اور آپ کو ’’رئیس المتغزلین‘‘ کہا جاتا ہے۔
مولانا حسرت موہانی کی شاعری بنیادی طور پر حسن و جمال اور عشق و محبت کی شاعری ہے اس شاعری کی ابتدا لڑکپن کی اس معصوم اور بھولی بھالی عمر سے ہوتی ہے جس کے بابت خود حسرت موہانی نے کہا کہ:

حُسن سے اپنے وہ غافل تھا‘ میں اپنے عشق سے
اب کہاں سے لائیں وہ نا واقفیت کے مزے

حسرت موہانی باعمل مسلمان اور وسیع المشرب انسان تھے۔ ہندو‘ مسلم الغرض ہر مکتب فکر کے لوگ ان کے دل کی بارگاہ میں برابر کی جگہ پاتے تھے۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد 13 مئی 1951 کو انڈیا میں مولانا حسرت موہانی کا انتقال ہوا‘ آپ کی تربت اُسی باغ میں بنی جس کی شان میں کبھی آپ نے خود کہا تھا:

تا قیامت رہے قائم مری سرکار کا باغ
وہ جسے کہتے ہیں سب حضرتِ انوار کا باغ

حصہ