کالام میں دین کی اشاعت کا مرکز

671

سید حسین احمد مدنی
کچھ عرصے قبل کالام میں ایک تربیتی ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا۔پروگرام کالام کی ایک مسجد و مدرسے میں ہورہا تھا۔ ہم کراچی سے طویل سفر کرکے وہاں پہنچے تھے۔ جمعہ کا دن تھا اور جمعہ کی تیاری کی فکر تھی۔ ابتداء میں اندھیرے کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آیا تاہم ایک باریش نوجوان وہاں لائٹ کا انتظام کررہا تھا۔ اس نے بڑی خوش اخلاقی سے ہماری رہنمائی کی اور ساتھ میں معذرت بھی کہ ابھی انتطامات مکمل نہیں ہو سکے ان شاء اللہ بہت جلد مکمل ہوجائیں گے۔ ہم اس باریش نوجوان سے بہت متاثر ہوئے کہ ایک الیکٹریشن کا کام کرنے والا بھی اسقدر مہذب ہے۔
مسجد میں داخل ہوئے تو جمعہ کا واعظ شروع ہوچکا تھا ہماری نگاہیں منبر پر پڑیں تو خلفا ئے راشدین کے زمانے کی یاد تازہ ہوگئی کہ وہی باریش خوش اخلاق خوش گفتار نوجوان جسے ہم الیکٹریشن سمجھے تھے منبر پر بیٹھے انتہائی دلنشیں انداز میں تفہیم دین کررہا تھا۔
میں سوچ رہا تھا اس دور میں ایسی تربیت و تذکیہ سے آراستہ و پیراستہ نوجوان کو تیار کرنے کا سہرا کس کے سر ہے۔ اس ہی جستجومیں نوجوان عالم دین مولانا سیف الرحمن کالامی صاحب سے ملنے اور فیض حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ورکشاپ میں مقررنے اپنی ابتدائی گفتگو میں بتایا کہ یہ مسجد و مدرسہ حضرت مولانا شاہ جہاں کالامی صاحب مرحوم کا ہے جو مفکر اسلام مولانا سید ابو علیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ کے ایک اشارے پر پشاور سے اپنا سب کچھ چھوڑ صرف اپنی بیوی اور ایک بچہ کے ساتھ کالام منتقل ہوگئے تھے جہاں ان کے طعام و قیام کا کوئی انتظام نہیں تھا اوراب ان کی اولاد مسجدو مدرسہ کے تمام انتظامات سنبھالے ہوئے ہے۔ اس دور دراز علاقے میں ایک بڑے پروگرام کا سارا انتظام انکے بیٹے مولانا سیف الرحمنٰ کالامی صاحب اور ان کی پوری فیملی کا مرہون منت ہے۔ اس بات نے مولانا سیف الرحمن کالامی سے ملاقات کرنے کے شوق کو اور بڑھا دیا۔
پہلا دن تو خاصا مصروف گزرا دوسرے دن وقفے کے دوران مولانا سیف الرحمن کالامی صاحب سے ملاقات ہوئی اور وہ نہایت خوش اخلاقی سے ملے اور مسجد سے کچھ فاصلے پر موجود درختوں کے جھنڈ جسے وہ جنگل کہہ رہے تھے لے گئے اور بڑی تپاک سے اپنا رومال بچھا کر بیٹھنے کے لیے کہاقریب ہی ان کا گھر تھا وہاں سے تازہ آلوچے توڑلائے اور پیش کیے۔
دوران گفتگو ہم نے ان سے پوچھا کے آپ کے والد کالامی صاحب کیسے جماعت اسلامی میں شامل ہوئے کیونکہ انہوں نے بتایا تھا کے ان کے والد جمعیت علمائے اسلام سے بہت متاثر اور دیوبند مکتبہ فکر کے زبردست حامیوں میں سے تھے۔ انہوں نے بڑی سادگی سے پوری تفصیل بتائی کے ان کے والد محترم نے خود ان کو اپنے جماعت اسلامی میں شامل ہونے اور پشاور سے کالام آنے کا قصہ سنایا ہے۔
انہوں نے بتایا کے میرے والد کالامی صاحب علمائے دیوبند کے بہت عقیدت مند تھے اور بڑی دور دور تک اپنی سائیکل پر علما سے فیض حاصل کرنے جاتے تھے۔ ایک دفعہ کوئی بہت بڑے عالم دیں جن کا پورے سرحد میں بڑا نام تھا پشاور آئے ہوئے تھے یہ وہ زمانہ تھا جب ایوب خان اور فاطمہ جناح کے درمیان سیاسی کشمکش جاری تھی اور حضرت مولانا سید ابوا علیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ فاطمہ جناح کی حمایت کررہے تھے۔ میرے والد کے ہر دل عزیز عالم دین خطاب کررہے تھے انہوں نے اپنے خطاب کے دوران سید ابواعلیٰ مودودی پر سخت تنقید کرتے ہوئے مولاناؒ پر بے سروپا الزامات لگائے اور ایسا انداز اختیار کیا جو میرے والد کالامی صاحب کی زندگی میں انقلاب برپا کر گیا۔
میرے والد صاحب نے بتایا کہ میں رات بھر سو نہیں سکا اور کئی دن تک اپنی چھوٹی سی مسجد کے حجرے میں بند رہا اور سوچتا رہا کیا کوئی عالم دین اس طرح کا بھی ہوسکتا ہے۔ اور بالآخر وہ مولانا مودودی کی حقیقت جاننے کے لیے نکل پڑے اور پشاور کے مشہور قصہ خانی بازار میں جماعت اسلامی کے دفتر پہنچ کر مولانا کے بارے میں جاننا چاہا وہاں کسی نے مولانا مودودی کی کتاب دینیات دی جسے پڑھ کر دل کی دنیا ہی بدل گئی اور کچھ مزید کتب کا مطالعہ کیا اور پھر جماعت اسلامی میں شامل ہو گئے۔ کالامی صاحب انسان دوست آدمی تھے لوگوں سے محبت رکھتے ان کے غم اور خوشی میں رہتے اور کسی بھی پریشان آدمی کو دیکھ کر اس کی پریشانی دور کرنے میں لگ جاتے وہ ہومیو پیتھک ڈاکٹر بھی تھے دور دراز پہاڑی علاقوں میں پہنچ کر لوگوں کی خدمت انجام دیتے تھے۔ اور اس دوران لوگوں کو جماعت اسلامی کی دعوت بھی دیتے تھے۔
اسی دوران مولانا سید ابواعلیٰ مودودیؒ سے بھی ملاقات کی اور مولانا مودودیؒ نے یہ جان کرکہ والد صاحب کا اصل تعلق کالام سے ہے مولانا مودودیؒ نے کہا کہ وہ پشاورسے کالام منتقل ہوجائیں وہاں جماعت کا کام نہیں ہیاور وہاں جاکر لوگوں تک جماعت کی دعوت پہنچائیں والد صاحب نے بتایا کہ اس وقت وہ غربت کی زندگی گزار رہے تھے اور ایک چھوٹی سی مسجد کے امام تھے اور نئی نئی شادی ہوئی تھی اور ایک بچہ تھا بس مولانا اور جماعت کے حکم پر فوری عمل کرتے ہوئے بیوی اور بچہ کو لے کر کالام آگئے۔ جبکہ کالام میں ٹھہرنے اور کھانے پینے کا کوئی انتظام بھی نہیں تھا۔ ایک عزیز کے ہاں چند دن ٹھہرے اور پھر بڑی محنت اور جاں فشانی سے دعوت دین کا کام شروع کیا۔
مولانا شاہ جہاں کالامی مولانا مودودی کی ہدایت کے مطابق مرجع خلائق بن گئے اس سے پہلے کالام میں جماعت اسلامی کے حوالے سے شدید مخالفت تھی لیکن وہ استقامت سے ڈٹے رہے اور بہت تھوڑے عرصے میں جماعت اسلامی کو متعارف کرادیاجب بلدیاتی انتخاب ہوئے تو بڑی بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے۔
کالامی صاحب بہت ہی جرات مند صاحب درویش آدمی تھے ایک دفعہ گورنر فضل حق کالام آئے ہوئے تھے اور ان کے استقبال کے لیے بڑی شاندار تقریب منعقد کی گئی تھی بڑے بڑے علما اور سیاسی شخصیات موجود تھیں کالامی صاحب کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ تمام علما اور سیاسی شخصیات گورنر فضل حق کی تعریف و توصیف بیان کررہے تھے اور کالام کی حالت زار اور لوگوں کے مسائل بیان نہیں کررہے تھے ایسے میں جب کالامی صاحب کی باری آئی تو انہوں نے نہایت سلیقے سے کالام کی حالت زار اور لوگوں کے مسائل پر گفتگو کی۔ انہوں نے کہا ،محترم گورنر فضل حق صاحب میں تو آپ کی کرامات و کشف کا دل سے معترف ہوگیا ہوں‘ میں نے اپنی آنکھوں سے آپ کی کشف و کرامات دیکھی ہیں آپ کے آتے ہی راتوں رات ہمارے برسوں سے یہ ٹوٹے راستے بہترین سڑک میں تبدیل ہوگئے اور گندگی کے ڈھیر پر پھول پودے اُگ آئے۔میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ اپنے کشف و کرامات کا سلسلہ جاری رکھیئے گا جس سے پورا کالام فیض پائے۔ کالامی صاحب نے بتایا کے اس کے بعد لوگ میرے پیچھے پڑگئے اور مجھے برا بھلا کہنے لگے کہ تم نے ہماری بے عزتی کردی اب گورنر صاحب سخت ناراض ہوجائیں گے۔ مگر ہوا یہ کے پروگرام کے بعد گورنر صاحب نے مجھے خصوصی طور پر شاباش دی اور وعدہ کیا کے وہ کالام میں ترقیاتی کام کی طرف خصوصی توجہ دیں گے۔یہ اللہ کا کرم اور احسان تھا کہ وہ حق بات کہنے والوں کی قدر دانی کرتا اور کرواتا ہے۔
میں نے مولانا سیف الرحمن کالامی صاحب سے سوال کیا کہ آپ کا یہ مدرسہ اور مسجد کس طرح چل رہا ہے تو انہوں نے کہا اللہ کے بھروسے پر ورنہ ہم شدیدمالی مشکلات میں گرفتار ہیں کالامی صاحب کے زمانے میں فنڈ آتے تھے جس سے ہم نے مدرسہ اور مسجد کی تعمیر تو کرلی لیکن اب اس کو چلانے میں بڑی دشواری ہے انہوں نے یہ بھی بتایا کے کراچی سے چند مخیرحضرات مالی تعاون کرتے تھے‘ اب وہ تعاون بھی کم ہورہا ہے انہوں نے کہا کہ استادوں کی تنخواہ کے لیے پیسے نہیں لیکن میری بیوی ایک اسکول میں ملازمت کرتی ہے وہاں سے جو تنخواہ ملتی ہے وہ مدرسے کے استاد کو دے دیتے ہیں اور پھر اللہ مدد کرتا ہے اور وہ کام جو کالام میں ہمارے والد محترم شاہ جہاں کالامی صاحب نے شروع کیا تھا‘ اسے ہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
میں حیران تھا انہوں نے اس کے باوجود کسی چندے اور کسی امداد کی بات نہیں کی بلکہ یہ کہتے ہوئے بات ختم کی کہ اللہ بڑا کارساز ہے وہی انسانوں کو حوصلہ دیتا ہے اور وہی مشکلات میں مشکل کشا بنتا ہے لہٰذا اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے اور اسی سے مانگنا چاہئے۔ اس نے پہلے بھی ہماری مشکلات کو آسان کیا تھا۔ وہی آئندہ بھی ہماری مشکلات کو حل کرے گا۔
اس نوجوان عالم دین، ان کے والد اور ان کی پورے خاندان کی تربیت تزکیہ ، عجز و انکساری کا سہرا اس صدی کے مفکر اسلام سید ابواعلیٰ مودودیؒ اور ان کی برپا کی ہوئی تحریک کے سر ہے۔

حصہ