شریک مطالعہ “قلزم کے اُس پار” افتخار حیدر ملک کا منفرد سفرنامہ

915

نعیم الرحمن

’’قلزم کے اُس پار‘‘ محترم افتخار حیدر ملک کا منفرد سفرنامہ ہے جس کا ذیلی عنوان ’’ایتھنز سے برکلے تک ایک مؤرخ کے ساتھ‘‘ دے کر واضح کیا گیا ہے کہ یہ صرف سفرنامہ نہیں، ان علاقوں کا ایک تاریخی جائزہ بھی ہے۔ ایمل پبلشرز کی روایتی دیدہ زیب طباعت نے کتاب کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ 300 صفحات کی کتاب کی قیمت 580 روپے مناسب ہے۔ ایمل مطبوعات نے مختصر وقت میں مطالعے کے شوقین قارئین کے دلوں میں گھرکرلیا ہے۔ ’’قلزم کے اُس پار‘‘ بھی ایسی ہی ایک تصنیف ہے۔
سفرنامے کے مصنف پروفیسر افتخار حیدر ملک نے پنجاب یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے ایم اے کیا، جس کے بعد مشی گن یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ بعدازاں نیویارک، برکلے اور اسلام آبادکی جامعات میں تدریسی فرائض انجام دیے۔ 1989ء سے وہ آکسفورڈ اور باتھ سپا کی دانش گاہوں میں تاریخ کے پروفیسر متعین رہے۔ جنوبی ایشیا، اسلامی تاریخ و ثقافت اور مغرب میں مسلم معاشروں پر 18 تحقیقی کتب اور درجنوں مقالے تصنیف کرچکے ہیں۔ پروفیسر ملک رائل ہسٹوریکل سوسائٹی کے فیلو اور وولفسن کالج آکسفورڈ کے سینئر ممبر ہیں۔ ان کی حالیہ کتاب پشتونوں کی تاریخ اور پاکستان و افغانستان کی سیاسیات پر لندن سے 2016ء میں شائع ہوئی تھی۔ وہ اس کے بعد سے سرسید احمد خان، جسٹس امیر علی اور سر فضل حسین پر تحقیق کررہے ہیں۔’’قلزم کے اُس پار‘‘ پروفیسر افتخار حیدر ملک کی پہلی اردو تصنیف ہے جو یونان، جنوبی فرانس اور امریکا کے تعلیمی اور ثقافتی تاثرات پر مبنی ایک اہم کاوش ہے جس میں انہوں نے 1983-84ء کے ذاتی مشاہدات کا جائزہ بھرپور انداز میں پیش کیا ہے۔ تحریرکے ذریعے انہوں نے سلیس اور عام فہم زبان میں مشرق و مغرب کو نزدیک سے دیکھنے کی ایک کوشش کی ہے۔ اس تاثرنامہ میں تاریخی، تدریسی اور تفریحی مقامات کا سیاحتی جائزہ بھی لیا ہے اور مغرب کے ثقافتی اور علمی اثاثوں کا تجزیہ بھی قارئین کے سامنے پیش کیا ہے۔ ’’قلزم کے اُس پار‘‘ پہلے مغربی تہذیبی ماخذ یونان سے شروع ہوتی ہے اور کیلی فورنیا کی برکلے اور اسٹین فورڈ جیسی عظیم دانش گاہوں پہ اس کا اختتام ہوتا ہے۔ یہ تاریخی مقامات، آرٹ گیلریوں، دانش گاہوں، دل کش وادیوں اور اہل ِ قلم کی داستان ہے جو اس مؤرخ کے عہدِ شباب کو بھی قارئین کے سامنے پیش کرتی ہے۔
’’قلزم کے اُس پار‘‘ محض ایک سفرنامہ نہیں بلکہ علمی، ثقافتی اور ادبی دستاویز بھی ہے جس میں یونان کی قدیم تہذیب سے لے کر امریکا کی سیاحتی عکاسی کی گئی ہے۔ کتاب کا تعارف کراتے ہوئے پروفیسر افتخار حیدر ملک نے لکھا ہے کہ ’’بخارا اور سمرقند کے تاریخی اور لاثانی مقامات نے شعوری اور غیر شعوری دونوں طرح سے، اس مسافر کو تقریباً بتیس سال قبل کے سیاحتی مطالعے کا موجودہ دیباچہ لکھنے کی تحریک دی ہے۔ یہ حُسن ِ اتفاق ہے کہ سمرقند میں مرزا الغ بیگ کے انتہائی جاذبِ نظر مدرسے سے 1982-83ء کی اس تصنیف کا پیش لفظ رقم ہوا۔ اگست 2015ء میں سینٹرل ایشیا کے تحقیقی اور تفریحی دورے میں، مَیں اپنے خیالات کو واپس اُس تعلیمی سفرکی طرف لے گیا جو بتیس سال قبل ایتھنز سے شروع ہوا تھا اور براستہ جنوبی فرانس انگلستان، نیویارک اور امریکا کی ریاست کیلی فورنیا میں پایۂ تکمیل کو پہنچا تھا، اور یہ بھی حُسنِ اتفاق ہے کہ اس تعارف کی آخری سطور بھی ایتھنزکے قدیم ورثے ایکروپولس میں رومی بادشاہ ہیڈیان کی لائبریری کے عقب میں رقم ہونا تھیں۔ ابن سینا، فردوسی، امام بخاری اور رودکی کا بخارا بھی اس تخلیقی عمل میں کافی ممد ثابت ہوا۔ کبھی یہ شہر اپنے زمانے کا قدیم مسلم آکسفورڈ تھا اور آج اپنی تمام تر تاریخ اور رجائیت کے ساتھ ایک بے چین روح کی طرح نئے جنم کے انتظار میں ہے۔‘‘
ان مختصر سطور میں ملک صاحب نے کس کمالِ اختصار اور درد مندی سے یورپ اور مسلم دنیا کے علمی فرق کو واضح کیا ہے۔ صدیوں پہلے قائم ہونے والی مسلم دانش گاہیں آج کس حال میں ہیں اور اُس دور میں علم سے دور مغرب کی درس گاہیں کس طرح علم کے خزانے بانٹ رہی ہیں۔ 2015ء میں پروفیسر ممتاز احمدکے ہاں شاہد اعوان صاحب سے افتخار حیدر ملک کی ملاقات اور ان کے ادارے کی شائع کردہ گراں قدر کتب نے انہیں بھی اس تصنیف پر آمادہ کیا جس کا نتیجہ ’’قلزم کے اُس پار‘‘ کی شکل میں قارئین کے سامنے آیا۔
کتاب کے بارے میں مصنف کا کہنا ہے کہ ’’یہ تاثرات مغربی معاشروں کو قریب سے دیکھنے کی ایک انفرادی کوشش ہے۔ ان بشری معاشروں کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے اور نہ اُن کی بے جا ہرزہ سرائی کی گئی ہے۔ کہیں کہیں اپنے معاشرے کے ساتھ تقابل کا مقصد برتری یا کمتری کے چنگل میں پھنسانا نہیں بلکہ اسے نئے سوالات کے لیے بحیثیت مہمیز استعمال کرنا ہے۔ 9/11 کے بعد کا مغرب مسلم دنیا کے لیے اپنی تمام تر جارحیت اور جاذبیت کے ساتھ ایک معما ہے جیسا کہ اہلِ مغرب کے لیے مسلم دنیا۔ یہ تحریر اُس تاریخی چوراہے سے کئی سال قبل کی ہے اور شاید یہی اس کی انفردیت کا اَمر بنے۔ اگرچہ یہ مصنف دنیا کو نیک و بد یا سیاہ و سفید کے ہمدرد پیرایوں میں دیکھنے کا قائل نہیں، لیکن ہم ایک بدلتی دنیا میں ہر لمحہ اٹھتے سوالات کو خاموش نہیں کرسکتے اور نہ ہی کرنا چاہیے۔ دنیا نئی تاریخ، تفسیر اور تسلسل کا مرقع ہے اور یہ خیالات اسی جذبے کے امین ہیں۔ شعوری طور پر اس تحریر کو زیادہ تحقیقی اور گراں بار بنانے سے احتراز برتا گیا ہے۔ یہ تمام دنیاوی معاشروں کو بشری کاوشیں بلکہ سفر گردانتی ہے جہاں سکوت اور تبدیلی ہمہ وقت زیر عمل ہیں۔ یہ مغربی اقوام کو مشرقی معاشروں سے افضل یا کمتر گرداننے کی سعی نہیں ہے بلکہ ایک ممکنہ انسانی حد تک خلوصِ نیت میں ڈوبی ہوئی ایک سچی کہانی ہے۔‘‘
اگست 1983ء کی ایک حبس زدہ شام افتخار ملک اسلام آباد ائرپورٹ سے کراچی روانہ ہوئے تو اُن کی فلائٹ ڈیڑھ گھنٹے تاخیر کا شکار تھی۔ کتاب کے آغاز ہی میں مصنف نے سول ایوی ایشن حکام کی روایتی لاپروائی، مسافروں کی پریشانی، ائرپورٹ سے باہر ٹیکسی ڈرائیوروں کی لوٹ مار اور کرنسی تبدیل کرانے والوں کا اچھا نقشہ پیش کیا ہے۔ ساتھ ہی کراچی پہنچنے سے پہلے کے کٹھن مراحل کا بھی ذکر کیا ہے جو ہر پاکستانی کا مقدر ہیں۔ لکھتے ہیں کہ ’’یہ بات ان لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی کہ جب آپ کو غیر ملکی یونیورسٹیاں الاؤنس اور فیلوشپ دیتی ہیں اور ساتھ ہی آپ مقامی یونیورسٹیوں میں سے کسی ایک کے ذمے دار استاد بھی ہیں تو پھر یہ نوآبجکشن سرٹیفکیٹ کی کیا ضرورت ہے؟ ساری وزارتیں آپ کے کیس بلکہ آپ کی فائل کا مطالعہ کرتی ہیں، مہینوں اِن پر بیٹھتی ہیں اور میل ملاپ کے بغیر آپ کا جائز حق آپ کو نہیں ملتا۔ کیا ایک ملک کا ذمے دار شہری یا کسی ادارے کا باعزت ملازم ہونا کافی نہیں کہ آپ کو این او سی کی بھی ضرورت پڑے جو کہ سامراجی دور کی ایک اذیت ناک سرکاری الجھن کے طور پر ہمارے سروں پر سوار ہے۔ آپ کے اساتذہ آپ کے ملک کے بارے میں کبھی غلط بات نہیں کریں گے، اور اگر آپ اُن کو زبردستی بند کرکے رکھیں گے تو پوری قوم تاریکی میں سفرکرے گی۔ ہمیں اپنی قوم کے افراد سے ہتک آمیز سلوک کرکے آخر کیا حاصل ہوتا ہے؟ سفر وسیلۂ ظفر کے مصداق دنیا کے طول و عرض میں پھیل جانے سے آپ کی نئی نسلوں کو جدید ترین دریافتوں اور سہولتوں سے آگاہی حاصل ہوگی۔ یہ انتہائی افسوس ناک امر ہے کہ ہمارے پالیسی بنانے اور چلانے والے اپنے طالب علمی کے زمانے میں تو خوب روشن خیال اور انقلابی ذہن کے مالک ہوتے ہیں مگر ذرا سی اہم حیثیت حاصل کرنے کے بعد رعونت اور فرعونیت کا شکار ہوکر رہ جاتے ہیں۔‘‘
کس سادگی سے ہماری بیوروکریسی کے طرزِعمل کو پیش کیا ہے جو ہماری ترقی کی راہ میں حائل ہے۔ بہت سے غیر ملکی وظائف اسی رویّے کی وجہ سے ضائع ہوجاتے ہیں۔ اس سے وظیفہ دینے والے ملکوں پر بھی پاکستان کا غلط تاثر مرتب ہوتا ہے۔ افتخار حیدر ملک نے ایران اور ترکی کے تفصیلی دورے اور شیراز کی آبِ رکنا باد کی سیر، آذر بائیجان کے قہوہ خانوں میں گھومنے، کردستان کی پُرحیات وادیوں میں آوارہ گردی اور استنبول میں باسفورس کے پُل پر کھڑے ہوکر مشرق و مغرب کا ایسے ہی موازنہ کرنے کا پروگرام بنایا تھا جیسا کہ کئی سال قبل ننھے منے ترک بچے نے کیا تھا، جو تاریخ میں ’’غازی کمال اتاترک‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ بیرون ملک کی سیاحت سے انہیں اس حقیقت کا بھی علم ہوا کہ پاکستان میں بھی تفریحی اور دیدہ زیب مقامات کی کمی نہیں، لیکن بیرونی سیاح تو کیا ہمارے اپنے ملک کے لوگ پاکستان کے اس حُسن سے ناآشنا ہیں۔ مغرب میں لوگ سال بھر خوب محنت کرکے کماتے ہیں اور پھر چند ہفتوں کے لیے وہ سیر و سیاحت کے لیے دور دراز مقامات کی طرف نکل جاتے ہیں۔ ماہی گیری، ہائیکنگ، کوہ پیمائی، کشتی رانی، کیمپنگ یا اسکیئنگ جیسے مشاغل میں فارغ وقت گزارتے ہیں اور پھر تر و تازہ ہوکر دوبارہ اپنے کام میں مگن ہوجاتے ہیں۔ جسمانی اور نفسیاتی طور پر بھی سیر و تفریح ایک انسان کے لیے بہت ضروری ہوتی ہے، کیوں کہ یہ اکتاہٹ اور بوریت کا بہترین علاج ہے۔ کیمپنگ اور آؤٹ ڈور لائف اتنی گراں نہیں جتنی عام طور پر سمجھی جاتی ہے۔ ذرا سی دل چسپی اور غور و فکر سے انسان کم خرچ سے بھی لطف اندوز ہوسکتا ہے۔ تفریح کے لیے زیادہ اسبابِ سفر بھی ضروری نہیں۔ آپ بسوں، ویگنوں یا ریل پر بھی گلگت، بلتستان، چترال یا زیارت کی سیر کرسکتے ہیں۔ اس طرح ملک کے مختلف خطوں میں بسنے والوں، ان کی رسومات اور رہن سہن سے آگاہی بھی حاصل ہوتی ہے۔
افتخار ملک نے آئرلینڈ کی مشہور مصنفہ اور نادرِ روزگار سیاح ڈرویلہ مرفی کی مثال دی جو انتہائی گم نام گاؤں سے تعلق رکھتی تھیں اور رنگارنگ مشکلات کا شکار رہیں۔ لکھتے ہیں کہ ’’مفلوج والدہ اور محدود معاشی مسائل نے کئی رکاوٹیں اس کی راہ میں کھڑی کردیں۔ اس نے اپنا غم غلط کرنے کے بجائے سائیکلنگ شروع کردی اور اس شوق میں یورپ اور ایشیا کی سیر کر ڈالی، یہی نہیں بلکہ موسمِ سرما کی سخت برفانی سردی میں بلتستان میں دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ پیدل چل کر لداخ تک پہنچ گئیں۔ اس طرح شمالی ایتھوپیا کے دشوار گزار راستوں کی بھی پیدل سیاحت کرڈالی۔ وہ کئی کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔ یہ صرف ایک عورت کی کہانی نہیں بلکہ انسانی عزم کی داستان ہے۔‘‘ (جاری ہے)

غزلیں

عتیق احمد جیلانی

بادل مجھ سے آگے آگے اُڑتا جاتا تھا
میں روزانہ پیاسا آتا‘ پیاسا جاتا تھا
بڑھتے قدموں میں زنجیریں ڈالی جاتی تھیں
مجھ کو میرے گھر سے روز پکارا جاتا تھا
میں اپنی اِک اِک ساعت کا سب جمع و تفریق
خاموشی سے لوحِ جاں پر لکھتا جاتا تھا
لوگ گھروں میں بیٹھے مجھ پر ہنستے رہتے تھے
میں جنگل سے خوش بُو لینے تنہا جاتا تھا

سید فیصل محمود

لکیریں کھینچ کر کاغذ پہ تحریریں بناتا ہوں
انہی خوابوں سے مستقبل کی تصویریں بناتا ہوں
میں پہلے جوڑتا ہوں تار سارے ہی محبت سے
دلوں کو جوڑ دیں جو پھر وہ زنجیریں بناتا ہوں
یہ بنجر دل حقیقت میں روا داری کے دشمن ہیں
میں دل ہی دل میں ان لوگوں کی تعزیریں بناتا ہوں
تفکر ہے تدبر ہے عمل مفقود ہے لیکن
یونہی بس رات دن بیٹھا میں تدبیریں بناتا ہوں
اچانک توڑ دیتا ہوں سبھی بے معنی سے بندھن
مگر پھر خود یہاں رہنے کو زنجیریں بناتا ہوں
جلا دیتا کسی کو اور کسی کو مار دیتا ہوں
کہانی میں، میں کرداروں کی تقدیریں بناتا ہوں
ذرا سی پیش بینی ہے مجھے احساس ہوتا ہے
حقیقت بن سکیں شاید جو تصویریں بناتا ہوں

ابوذر

آیا ہوں بحرِ ذات میں طوفان کی طرف
بربادیٔ تمام سے امکان کی طرف
حیرت سرائے دِل کے مکیں کوچ کر گئے
اک روگ آ بسا ہے رگِ جان کی طرف
اِس دھندلکے میں بیٹھیے منت کشِ نظر !
کب دیکھتے ہیں وہ رُخِ حیران کی طرف
یوں دن کی کلفتوں کو بھی کر لیتا ہوں قبول
کھنچتا ہے میرا دل شبِ ویران کی طرف
کم مایئگی کی خیر ہو! رہبر کا کیا علاج ؟
وہ مجھ کو دیکھتا کبھی سامان کی طرف
دشتِ گماں میں کھینچتے چلیے خطِ غبار
مقدور ہو تو نقطۂ ایقان کی طرف
سارا وجود سیلِ تغافل سے تھک کے چور
اور دھیان ایک جنبشِ مژگان کی طرف

حصہ