حکومتی پالیسیاں سوشل میڈیا کی زد پر

611

اہم خبر ہر اس پاکستانی کے لیے اس ہفتہ یہ آئی کہ وہ مقابلے یعنی سول سروسز کے امتحانات میں اگر انگریزی زبان میں عدم مہارت کی بناء پر شرکت کرنے سے گریزاں تھا تو اب قومی زبان یعنی اردو میں بھی سول سروسز کے امتحانات لینے کا سلسلہ منظور ہو گیا۔سینیٹ اجلاس میں سینیٹر اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی جانب سے سی ایس ایس کے امتحان کو انگریزی کے بجائے اردو میں کرنے کی قرارداد پیش کی گئی اور مطالبہ کیا گیا کہ اعلی ترین مرکزی ملازمتوں کا امتحان انگریزی کے بجائے اردو میں لیا جائے۔سینیٹ میں یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی ۔ اس عمل کو قومی زبان کی خدمت کے ساتھ ساتھ ایک مثبت پیش رفت بھی کہا گیا۔سماجی میڈیا پر جماعت اسلامی نے اپنے امیر کی اس کوشش کے کامیاب ہونے پر اردو کو نافذ کرو کے عنوان سے ہیش ٹیگ متعارف کرایااور ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ بنانے میں کامیاب رہے ۔
اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر اس ہفتہ دہشت گردی ( کوئٹہ ،لاہور، گوادر ) کے منڈلاتے بادلوں نے زیادہ رنگ نہیں جمایا۔مجموعی طور پر ملکی معیشت کی بدترین صورتحال ہی چھائی نظر آئی ۔ 10رمضان کو یوم خدیجۃ الکبریٰ ؓ کے یوم وفات کے حوالے سے ہیش ٹیگ بھی متعارف کرایا گیا۔لاہور ہائی کورٹ بھی اس ہفتہ دوبارہ زیر بحث آیا ، بلکہ اس کورٹ کانام ہی ضمانت ہائی کورٹ تجویز کیا گیا۔پی ٹی آئی کے رہنما علیم خان اور تحریک لبیک پاکستان کے رہنما علامہ خادم رضوی کو اسی ہفتہ ضمانت پر رہائی ملی ۔اس سے قبل میاں برادران بھی ضمانت سے مستفید ہو چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر دونوں کے شائقین و معتقدین نے ہیش ٹیگ کے ساتھ ٹرینڈ بنائے ۔ علیم خان کرپشن کیس میں بند تھے جبکہ خادم رضوی کا معاملہ الگ تھا۔اس پر بھی خوب تبصرے کیے گئے ’’لاہور ہائیکورٹ کسی اور کو ضمانت دے تو لوہار ہائیکورٹ۔ علیم خان کو ضمانت دے تو حق اور سچ کی جیت۔ یہی ہے کل ملا کر ان شاہ دولوں کی اجتماعی دانش جو 22 کروڑ عوام پر حکومت کرتے ہیں اور ان کی بھی جو اسکرین پر بیٹھ کر 22 کروڑ کوبے وقوف بنا رہے ہیں۔‘‘ایک اور دل جلا لکھتا ہے کہ ’’علیم خان کو ضمانت اس لئے دی گئی ہے کیوں کے انکا نام وزیر اعظم کی بہن سے مماثلت رکھتا ہے‘‘۔
معاشی حوالے سے دلائل میں جدھر دیکھو اُس کی حکومت میں ایسا تھا ، اُس کی حکومت میں ایسا تھا، موجودہ حکومت کو کچھ ٹائم دو۔ایسا تھا،ویسا تھا۔یہی چلتا نظرآیا۔افسوس ناک بات یہ تھی کہ کوئی بھی حل نہیں پیش کر سکا۔ٹی وی چینل کی خبریں ہوں یا ٹاک شوز، تجزیہ یا تبصرے ۔یہی حال سوشل میڈیا کا رہا۔ بقول شاعر :

ٹرینڈ تو بنا دیا گھنٹہ بھر میں
پر مسئلہ کا حل کوئی بتا نہ سکا

آئی ایم ایف کو ہمار ی ہر اپوزیشن جماعت نے ایک ملکی معیشت کے لیے ’تباہی ‘کے طور پر پیش کیا اور تحریک انصاف کے حکومت میں آنے سے قبل کے کلپس نے جلتی پر تیل کا کام کیااور آئی ایم ایف کو ’ گندی گالی‘ جیسا بنا دیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی ایم ایف کی مالی شرائط ایسی ہی ہوتی ہیں ، جنہیں کوئی سامنے ہی نہیںلاتا۔اب ایسے میں آئی ایم ایف سے ڈیل ہو گی ، ان کے بندے اہم عہدوں پر تعینات ہوں گے تو کہنے کا موقع تو ملے گا۔بات یہیں نہیں رکی بلکہ ساتھ ہی ملکی خزانے کو بھاری نقصان پہنچانے والے ٹیکس چوروں کے لیے ایک شاندار ٹیکس ایمنسٹی اسکیم بھی متعارف کرا دی گئی۔
اس کے مطابق ٹیکس چور یعنی ( ناجائز) کالا پیسہ رکھنے والے اب صرف چار فیصد یعنی سو روپے میں 4روپے حکومت کو دے کر باقی 96روپے سے کھل کر عیاشی کر سکتے ہیں ۔اصولاً تو یہ حکومت کی سب سے بڑی ناکامی ہے کہ تمام تر اختیارات و وسائل کے باوجود وہ بڑی مچھلیوں پر ہاتھ نہیں ڈال رہے ۔ویسے اندر کی اطلاع یہی ہے کہ خود حکومت میں اتہائی بڑے بڑے ٹیکس چور بیٹھے ہیں ۔اس عمل کو جلتی پر تیل کی مثال کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے کیونکہ حکومت کے اس بڑے کارنامے کو سوشل میڈیا پر بھر پور تعریف و توصیف والی کوئی جگہ نہیں ملی بلکہ اپوزیشن ہی چلاتی رہی ۔جب عمران خان خود اپوزیشن میں تھے تو ماضی کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کوڈاکوؤں کے لیے ریلیف قرار دیتے تھے ۔خود اسد عمر اور شیریں مزاری کی جانب سے ٹیکس ایمنسٹی اسکیموں کے خلاف تحاریک التواء اسمبلی کے ریکارڈ پر موجود ہیں۔
اس پورے منظر نامے تحریک انصاف مجھے تو اس پریشر میں کہیں بیک فٹ پر نظر آئی کیونکہ ان کے پاس موضوع بدلنے کے علاوہ کوئی مضبوط، مدلل بیانیہ نہیں تھا ۔کبھی صوبائی وزراء اعلیٰ کی کارکردگی کے پول پر اپنا راگ الاپتے جس میں حیرت انگیز طور پر پنجاب کے وزیر اعلیٰ پہلے نمبر پر تھے ۔کبھی پاکستان کی خوبصورتی و سیاحت کو موضوع بنا لیتے۔ جنرل پبلک احتجاج کرتی تو وہ یہ سمجھاتے کہ جب پچھلی حکومتیں ملکی خزانہ لوٹ کر تباہ کر رہی تھیں تو کیوں خاموش تھے ۔ اب کچھ انتظار کرو۔بہتری آئے گی۔کپتان کو وقت دو ۔ وغیر وغیرہ۔اگر زیادہ جوش مارتے تو فوراً اُسے پٹواری یا پیپلز پارٹی سے جوڑ کر کارنر کردیتے۔معاملہ یہ ہے کہ جس تیزی سے ملکی معیشت کا گراف نیچے آیا ہے ایسی تیزی پہلے کبھی نہیں محسوس ہوئی۔ عوام نے تو ووٹ دیا ہی ان کرپٹ حکمرانوں سے نجات کے لیے تھا ، مسائل سے حل کے لیے مگر جو کچھ تبدیلی کے نام پر ہو رہا ہے وہ بہت افسوس ناک اور تشویش ناک ہے۔آئی ایم ایف کی ڈیل کے ساتھ ہی ڈالر کو پر لگ گئے ، روپے کی قدر مزید نیچے آگئی۔ایسے میں اس طرح کی میم سے لوگ دل بہلاتے رہے :’’ڈالر اوپر جانے سے کیا ہوتا ہے ۔ ایک دن ہم سب نے اوپر جانا ہے۔فواد چوہدری ‘‘۔فہیم پٹیل لکھتے ہیں کہ ’’مجھے اپنی حکومت پر فخر ہے جس نے آئی ایم ایف کو مجبور کردیا کہ وہ ہمیں قرضہ دے۔یہ کوئی کم اعزاز والی بات ہے؟‘‘اسی طرح ماضی کی حکومتوں کا مالی چارٹ بھی سوشل میڈیا پر وائرل رہاجس میں دیئے گئے اعداد و شمار ایسے تھے ۔’’جب یہ قرضوں کی بات کرتے ہیں تو مشرف جب حکومت چھوڑ کر گیا تو تب 45 ارب ڈالر قرضہ تھا ، جب پیپلزپارٹی نے حکومت چھوڑی تو تب 61 ارب ڈالر قرضہ تھا اور اب جب ن لیگ نے حکومت چھوڑی تو قرضہ 93 ارب ڈالر تھا۔‘‘ شمس الدین امجد لکھتے ہیں کہ ’’ حکومت سے لیموں کی قیمت سنبھل نہیں رہی ملکی معیشت خاک سنبھالیں گے ۔لیموں 400روپے کلو ‘‘۔ ایک اور دوست لکھتے ہیں کہ’’روپے کی قدر ایک روپیہ گرنے سے پاکستان پر تقریبا 100 ارب کا قرضہ (بغیر قرضہ لئے) بڑھ جاتا ہے۔ عمران خان پی ٹی آئی نے روپے کی قدر 35 روپے گرائی جس سے تقریبا 3500 ارب کا قرضہ (بغیر قرضہ لئے) بڑھ گیا۔‘‘انصار عباسی لکھتے ہیں کہ ’’ تبدیلی تباہی میں بدل رہی ہے ‘‘۔خالد منیر لکھتے ہیں ،’’ چلو کچھ تو سستا ہوا روپیہ ۔ شکریہ عمران خان۔‘‘اسی طرح ایک اور میم بھی وائرل رہی :’’قوم کو سب سے زیادہ بیوقوف بنانے میں ’محبوب آپ کے قدموں میں ‘ اور ’ فائزہ بیوٹی کریم ‘کو ’تبدیلی‘ نے پیچھے چھوڑ دیا اور پہلے نمبر پر پہنچ گئی۔اسی طرح میاں نواز شریف کے کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بیانیہ دیا گیا کہ ’’نوازشریف دور میں خبر آتی تھی اسٹاک ایکسچینج تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی:پٹرول اتنے روپے سستا ہوگیا۔آج فلاں موٹروے کا افتتاح ہو رہا ہے۔افسوس اب خبریں آتی ہیں ڈالر 148 روپے کا اسٹاک مارکیٹ میں بدترین مندی لوگوں کے اربوں ڈوب گئے۔تین بچوں کو مار کر ماں باپ نے خودکشی کر لی۔‘‘ تبدیلی سرکار اور آئی ایم ایف معاہدے کے اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے,ڈالر مہنگا ہو کر ملکی تاریخ کی نئی بلند ترین سطح 148 روپے تک پہنچ گیا۔پاکستان کے بیرونی قرضوں میں 666 ارب روپے کا اضافہ ہو گیا۔کاروباری لین دین کے آغاز پر انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں 5.61 روپے کا اضافہ ہوا جس کے بعد وہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔روپے کی قدر کم ہونے پر پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بھی منفی رجحان ہے جہاں 100 انڈیکس 325 پوائنٹس کمی سے 33 ہزار 965 کی سطح پر آگیا۔مارچ کے اختتام پر پاکستان کے بیرونی قرضوں کا حجم 105 ارب ڈالر تھا۔ان سب میں اہم بات یہ تھی کہ کوئی بھی حل نہیں پیش کر پا رہا تھا۔ آئی ایم ایف کے حق میں ذیشان ہاشم کی ایک اچھی پھیلی ہوئی مدلل پوسٹ یہی نظر سے گزری۔
’’ پاکستانی معیشت کو اس وقت اسٹرکچرل ریفارمز کی اشد ضرورت ہے ۔یہ ریفارم دو دہائیوں میں زیادہ تر صرف اس وقت ہی ہوئے ہیں جب آئی ایم ایف کا دباؤ تھا ۔پاکستانی بجٹ کے تین بڑے حصہ دفاعی اخراجات۔ خسارے والے قومی ادارے جن سے فی الحال عوام کوذرا بھی فائدہ نہیں اور تیسرا بڑا حصہ سبسڈیزہے ۔ یہ سبسڈیز عوام کو نہیں بلکہ ایک خاص طبقہ کو فائدہ دے رہی ہیں ۔ زراعت پر جانے والی سبسڈیز کے سبب عوام کا الٹا استحصال ہو رہا ہے مگر بڑے بڑے زمیندار اس سے خوب فائدہ اٹھاتے رہے ہیں ۔ اگر گندم پر سبسڈی ختم ہو جائے تو عوام کو آٹا موجودہ قیمت سے تقریبا ستر فیصد سستا ملے ۔اسی طرح ذراعت کو خاص طور پر تحفظ دے کر پاکستان میں صنعتکاری کو حوصلہ شکنی کی جاتی ہے ۔پاکستان کی پولیٹیکل اکانومی اتنی مظبوط ہے کہ سٹرکچرل ریفارم انتہائی مشکل ہیں وہ بھی اس وقت جب سیاسی عدم استحکام حاوی ہو اور ہر حکومت “اب گئی کہ کب گئی” کی صورتحال کا سامنا کر رہی ہو ۔ پاکستانی اشرافیہ صرف ان میدانوں میں ریفارم ہونے دیتی ہیں جن کا ان کے مفادات پر کم سے کم اثر ہو – مثال کے طور پر بجلی و گیس پر سبسڈی ختم کروا لی جائے گی مگر زراعت پر نہیں وغیرہ وغیرہ ۔اس پر بھی تقریبا تمام معیشت دان اتفاق کریں گے کہ ٹیکس وصولیوں کو بڑھانا پاکستان کے لئے اشد ضروری ہے ۔مگر ہر حکومت مکمل اختیارات کے باوجود ناکام ہے کہ دامن خود کا صاف نہیں۔
بڑھتے ہوئے حکومتی اخراجات اور بجٹ خسارہ ایک انتہائی سنگین چیلنج ہے ۔ ان سب مسائل کی طرف اگر کوئی بھرپور دباؤ کے ساتھ توجہ دلاتا ہے تو وہ آئی ایم ایف ہے ۔ ہمیں اس کی اس لئے بھی ماننی پڑتی ہے کہ ہمیں پیسے چاہئیں اور اسے یقینی بنانا ہوتا ہے کہ آیا اس کے پیسے بھی واپس ملیں گے اور یہ پیکج کامیاب بھی ہو گا تاکہ وہ اپنے وسائل اور اقوام عالم میں اپنی credibility کا تحفظ بھی کر سکے ۔ ایک بڑا مسئلہ آئی ایم ایف کے ریفارم پیکج میں بھی ہے جو دنیا کے تمام ممالک کے لئے کم و بیش ایک جیسا ہی ہے جسے (ایک ہی ماڈل ، سب ممالک کے لئے ) کہتے ہیں – اس کا خلاصہ یہ ہے حکومتیں اپنے اخراجات کم کریں ، کفایت شعاری کی پالیسی لاگو کریں ، ٹیکسز کی شرح بڑھائیں ، کاروبار میں سہولیات بڑھائیں وغیرہ وغیرہ ۔اس پورے عمل یعنی مذاکرات میں پاکستانی معیشت کے بنیادی خدوخال کو نظرانداز کیا جاتا ہے جس کا بنیادی سبب پاکستانی پولیٹیکل اکانومی ہے ۔ اگر ہم اپنے معاشی مسائل خود حل کر لیں یعنی اکنامک سٹرکچرل ریفارم میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہم پر آئی ایم ایف اپنا فارمولا لاگو نہیں کر سکے گا ۔
اگر ائی ایم ایف کی پیکجز کا مختلف ممالک کے ضمن میں دیکھا جائے تو ملے جلے نتائج ملتے ہیں – مثال کے طور پر انڈیا 1989 میں جب دیوالیہ ہونے کے قریب تھا اور معاشی بحران بدترین شکل اختیار کر گیا تو یہ آئی ایم ایف ہی تھا جو اسے ایک کلوزڈ معیشت سے اوپن معیشت کی طرف دھکیل لایا تھا جس کا آج انڈیا خوب سے خوب فائدہ اٹھا رہا ہے اس میں یقینا نرسیہما راؤ اور من موہن سنگھ کا بھی اہم کردار ہے ۔اب امکان یہی ہے کہ معاشی استحکام تو آئے گا ، مگر اکنامک گروتھ سست ہو جائے گی اور بے روزگاری میں خاطر خواہ کمی نہیں آئے گی – اصل مزے اس حکومت کے آخری برس ہوں گے یا پانچ سال بعد اگلے حکومت کرے گی۔ اگر ہم نے اپنے معاشی مسائل حل نہ کئے اور بڑے پیمانے پر معاشی اصلاحات نہ کیں تو تقریبا پانچ سال بعد پھر آئی ایم ایف کی گود میں ہوں گے ۔یہی مختصر قصہ ہے ۔‘‘
بہر حال ہزاروں لاکھوں ٹوئیٹس میں کوئی بھی ایسا نہیں ملا جو یہ کہے کہ ’ سودی معیشت سے جان چھڑاؤ۔ کوئی یہ کہتا نظر نہیں آیا کہ اپنے رب کی بندگی اختیار کرو جو تمہیں بھوک میں کھانا ور خوف میں امن دیتا ہے ۔‘‘

حصہ