پیدائش سے موت تک کا سفر

1395

بنت ِ عبدالغفور
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں’’بے شک انسان پر زمانہ میں سے ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جب وہ کوئی قابلِ ذکر چیز نہ تھا۔ بلاشبہ ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا کہ اس کو آزمائیں، تو ہم نے اس کو سننے والا، دیکھنے والا انسان بنا دیا‘‘۔ سورہ یٰسین میں اللہ تعالیٰ کا فرمانِ مبارک ہے ’’کیا انسان نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو نطفے سے پیدا کیا، پھر وہ تڑاق پڑاق جھگڑنے لگا اور ہمارے بارے میں مثالیں بیان کرنے لگا اور اپنی پیدائش کو بھول گیا۔ کہنے لگا ہڈیاں بوسیدہ ہوجائیں گی تو ان کو کون زندہ کرے گا۔ کہہ دو، وہی زندہ کرے گا جس نے پہلی بار پیدا کیا، اور وہ سب قسم کا پیدا کرنا جانتا ہے‘‘۔ بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ کی ہی ذات ہے جو انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرنے کی طاقت و قدرت رکھتی ہے، اور یہی ہر مسلمان کا عقیدہ ہے کہ اسے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا ہے۔
ایک اور جگہ اللہ پاک فرماتے ہیں: ’’ہم نے انسان کو ایک نجس قطرے سے پیدا کیا، پھر اس نفطے کو جما ہوا خون بنا دیا۔ پھر اس خون کے لوتھڑے سے بوٹی بنائی، پھر انھی بوٹیوں سے انسان کی ہڈیاں بنائیں۔ ان ہڈیوں پر گوشت پہنایا، پھر اسے ایک صورت میں اٹھا کر کھڑا کردیا‘‘۔ تو پھر آج انسان کس بات پر تکبر کررہا ہے۔ کون سی بات ہے جس پر تو اکڑ رہا ہے، کس بات پر اتنا اتراتا ہے۔
یہ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے اشرف المخلوقات میں سے بنایا۔ پھر اللہ رب العزت نے بولنے کی قوت دی۔ چلنا نہ آتا تھا، چلنے کی قوت دی۔ باپ جیسا سائبان، ماں جیسی مہربان چھائوں اور بہن بھائیوں جیسے محبت کرنے والے رشتے عطا کیے۔ آہستہ آہستہ جوانی کی طرف قدم بڑھانے لگا۔ اسکول سے گھر تک کا سفر، نرسری سے ڈاکٹر، انجینئر بننے تک کا سفر استاد نے کروا دیا۔ مزید جوانی کی دہلیز پر پہنچا تو اللہ نے مزید نعمتوں کی بارش کردی، اسے عقل و شعور سے نوازا، صحیح اور غلط کی پہچان کی تمیز عطا کی۔
جب اللہ نے انسان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت عطا کی، اس کے سامنے دو راستے رکھ دیے۔ ایک رحمن کا راستہ، صراطِ مستقیم، جنت میں لے جانے والا راستہ۔ دوسرا شیطان کا راستہ، جہنم میں لے جانے والا، بھٹکادینے والا راستہ۔ اب ان دونوں راستوں میں سے اگر رحمن کے راستے کو چنتا ہے تو وہ دنیا و آخرت دونوں میں کامیاب ہے، اب اس کے لیے موت تک کا سفر سکون و اطمینان کا باعث ہے۔ اس راستے پہ چلنا بھی انسان کا اپنا کمال نہ تھا، یہ بھی کمال والے کا کمال کہ اس نے جہنم سے بچا کر جنت میں جانے والے راستے پر ڈال دیا۔
اب اس راستے میں انسان پر طرح طرح کی آزمائشیں آتی ہیں۔ کبھی اللہ تعالیٰ بھوک سے، کبھی مال سے، کبھی تکلیف سے، کبھی بیماری سے آزماتا ہے۔ یہ آزمائشیں انسان کو جانچنے، اس کی نیت اور ثابت قدمی کو پرکھنے کے لیے آتی ہیں۔ اس آزمائش میں انسان کیا کرتا ہے، اگر وہ ان تمام پر صبر و شکر کے ساتھ کام لیتا ہے تو امتحان میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اس کی آنے والی زندگی، موت اس کے لیے ایک بہترین تحفہ بن جاتی ہے۔ جوانی کا یہ سفر انسان کے لیے تھوڑا کٹھن اور لمبا ہوتا ہے۔ شادی کے بعد زوجین کے حقوق، والدین کے حقوق، اولاد کے حقوق وغیر ہ کے ساتھ ساتھ اپنے رب کے حقوق کو ادا کرتے کرتے اپنے آخری مراحل بڑھاپے کی سیڑھی پر قدم رکھ دیتا ہے۔ ضعیف جسم، پست آواز، کمزور ہڈیوں کے ساتھ وہ کچھ لمحات، دن، گھنٹے گزار رہا ہوتا ہے اور پھر سوچتا ہے پوری زندگی، بچپن سے لے کر بڑھاپے تک کی زندگی کو… تو بے اختیار کہہ اٹھتا ہے:

زندگی کیا ہے ایک ننھا سا دیا
جس کو ہوا کا ایک جھونکا پل میں گرا دے

پھر وہ وقت آجاتا ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے، کل نفس ذائقہ الموت اور دنیا اور دنیا کی تمام آسائشوں کو چھوڑ کو وہ اپنے اصلی وطن کی طرف لوٹ جاتا ہے۔

موت سے کس کو رستگاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے

حصہ