عذاب پانے والی قوموں کا طرزِ فکر و عمل

903

سید مہرالدین افضل
سورۃ الاعراف میں ان قوموںکےقصے ہیںجن پر خدا کا عذاب آیا۔ اگر ہم ان قصوں کو آج کے تناظر میں دیکھیں اور ان سے سبق لینے کی کوشش کریں تو ایک خیال یہ آتا ہے کہ… یہاں جن قوموں کا ذکر ہے وہ ایک چھوٹے سے علاقے میں آباد تھیں، اور ان کی آبادی چند لاکھ سے زیادہ نہ رہی ہوگی… لیکن آج تو بڑی بڑی آبادی کے ملک اور قومیں ہیں، تو اب ہم ان قصوں کا انطباق آج پر کیسے کرسکتے ہیں؟ اس سوال پر غور کرنا اور اس کا حل تلاش کرنا ہر اُس شخص کے لیے ضروری ہے جو دعوتِ الی اللہ کا کام اپنا فرض سمجھتا ہے۔ گزشتہ چند صدیوں میں جتنی تیزی سے تبدیلیاں ہوئی ہیں اور اس میں دن بہ دن جتنی تیزی آرہی ہے، جان لینا چاہیے کہ یہ تیزی انجام کی طرف لے جا رہی ہے۔ ابلاغ کے ذرائع کی بڑھتی ہوئی تیزی… کسی بھی فرد سے رابطہ کرلینے کی سہولت ہر داعی کے لیے آسانی فراہم کررہی ہے… اور وہ دن دور نہیں جب ہر شخص کی اپنی مخصوص آئی ڈی ہوگی اور آپ ایک کلک کے ذریعے دنیا کے اربوں افراد میں سے کسی کو بھی تلاش کرسکیں گے اور اس سے رابطہ اور بات کرسکیں گے… اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اپنی پوری آب و تاب اور مکمل دعوت، اور انسانیت کی فلاح کے مکمل پیکیج کے ساتھ موجود ہے۔ اس سہولت نے کسی مرکزی شخصیت کی ضرورت کو بھی ختم کردیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دعوت دینے والے اپنی سیرت و کردار کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے قریب کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے اپنے حلقۂ اثر میں دعوت دیں… اور جو لوگ ابلاغ عام میں دلچسپی رکھتے ہوں وہ اس کی صلاحیت بڑھائیں اور ٹیکنالوجی پر دسترس حاصل کریں۔ وہ دن بھی قریب ہے جب ایک فرد ایک ہی وقت میں تمام انسانوں سے خطاب کرسکے گا۔ یاد رکھنا چاہیے کہ وقت کے معروف ذرائع ابلاغ کا استعما ل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے۔ آپؐ کے زمانے میں جبل ابوقبیس لوگوں تک بات پہنچانے کا ذریعہ تھی۔ ایک برہنہ قاصد اپنے اونٹ کو زخمی کرکے، چیخ چلاّ کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا۔ آپؐ نے بھی اسی پہاڑی پر کھڑے ہوکر لوگوں کو بلایا۔ بس انداز اپنا تھا۔ تو اب ہر ایک کو موقع ملنے والا ہے… گو کہ ابلاغ کی تیزی کا سارا انتظام شیطان کے بھائیوں کے ہاتھ میں ہے، لیکن بالآخر یہ سب استعمال ہوں گے انسانوں پر خدا کی آخری حجت پوری کرنے کے لیے۔ ان شاء اللہ
سورۃ الاعراف آیت 94 تا 96 میں ارشاد ہوا:۔ ’’کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہم نے کسی بستی میں نبی بھیجا ہو اور اُس بستی کے لوگوں کو پہلے تنگی اور سختی میں مبتلا نہ کیا ہو… اس خیال سے کہ شاید وہ عاجزی پر اُتر آئیں۔ پھر ہم نے اُن کی بدحالی کو خوشحالی سے بدل دیا… یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پھولے اور کہنے لگے کہ ’’ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور برے دن آتے ہی رہے ہیں‘‘۔ آخرِکار ہم نے اُنھیں اچانک پکڑلیا اور اُنھیں خبر تک نہ ہوئی۔ اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے… تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے، مگر اُنھوں نے تو جھٹلایا… لہٰذا ہم نے اُس بری کمائی کے حساب میں انھیں پکڑ لیا جو وہ سمیٹ رہے تھے۔‘‘
قوم نوحؑ، عاد و ثمود، قومِ لوطؑ اور اصحاب ِمدین کے طرزِ فکر و عمل اور برے انجام کے تذکرے کے بعد وہ اصول بتایا جارہا ہے جو ہر زمانے میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کی بعثت کے موقع پر اختیار فرمایا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جب کسی قوم میں کوئی نبی بھیجا گیا تو پہلے اس قوم کو مصائب اور آفات میں مبتلا کیا گیا، تاکہ اس کا دل نرم پڑے… اس کی شیخی اور تکبر سے اکڑی ہوئی گردن ڈھیلی ہو… اپنی طاقت کا غرور اور دولت کا نشہ اتر جائے… اپنے ذرائع و وسائل اور اپنی قوتوں اور قابلیتوں پر اس کا اعتماد ٹوٹ ہوجائے… اُسے محسوس ہو کہ اُوپر کوئی اور طاقت بھی ہے جس کے ہاتھ میں اس کی قسمت کی ڈور ہے… اور اس طرح اُس کے کان نصیحت کے لیے کھل جائیں اور وہ اپنے خدا کے سامنے عاجزی کے ساتھ جھک جانے پر آمادہ ہوجائے۔ لیکن جب سختی اور تنگی میں اس کا دل قبول ِ حق کی طرف مائل نہیں ہوتا تو اس کو خوش حالی کے فتنے میں مبتلا کردیا جاتا ہے، اور یہاں سے اس کی بربادی کی ابتدا ہوتی ہے۔ جب وہ نعمتوں سے مالامال ہونے لگتی ہے تو اپنے برے دن بھول جاتی ہے اور سمجھتی ہے کہ حالات کے اُتار چڑھاؤ اور قسمت کے بناؤ اور بگاڑ میں کوئی حکمت نہیں، اور نہ ہی ہمارے لیے کوئی سبق ہے، اور نہ ہی اس اتار چڑھائو کا تعلق ہمارے اخلاق و کردار سے ہے، بلکہ یہ سب کچھ قانونِ فطرت اور طبعیات کے مطابق ہے… ان کی وجہ سے کوئی اخلاقی سبق لینا، ایک دوسرے کو نصیحت کرنا… یا کسی کی نصیحت قبول کرنا…اور خدا کے سامنے آہ و زاری کرنا اور گڑگڑانا صرف ایک نفسیاتی بیماری اور کمزوری ہے جو مصیبتوں کے پڑنے پر کچھ لوگوں کو ہوجاتی ہے۔ ابھی زیادہ پرانی بات نہیں افغانستان میں قید کے دوران اسلام سے متاثر ہونے اور اسلام قبول کرنے والی صحافی کے بارے میں اُس کی قوم کے رہنمائوں اور دانش وروں نے یہی کہہ کر اپنی قوم کو اطمینان دلایا کہ جن حالات سے یہ گزر کر آئی ہے اس کے بعد اس کا اسلام لانا صرف ایک نفسیاتی مرض ہے جو کمزور قوتِ برداشت والوں کو ہوجاتا ہے۔ یہ معاملہ قوموں کی طرح افراد کے ساتھ بھی پیش آتا ہے۔ انھیں بھی تنگی، سختی کے امتحان میں ڈالا جاتا ہے۔ لیکن جو لوگ اسے صرف حالات کا الٹ پھیر اور معمول کی بات سمجھتے ہیں ان کی ذہنی کیفیت کا نقشہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں کھینچا ہے کہ:
’’مصیبت مومن کی تو اصلاح کرتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ جب وہ اِس بھٹی سے نکلتا ہے تو ساری کھوٹ سے صاف ہوکر نکلتا ہے، لیکن منافق کی حالت بالکل گدھے کی سی ہوتی ہے جو کچھ نہیں سمجھتا کہ اُس کے مالک نے کیوں اُسے باندھا تھا اور کیوں اسے چھوڑ دیا۔‘‘
بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو مصیبت اور تنگی میں اللہ کو یاد کرتے ہیں، لیکن جب آسانی اور فراخی آتی ہے تو خدا کو بھول جاتے ہیں۔ تنگی میں دس روپے تھے تو وہ پورے ہی راہِ خدا میں خرچ کردیئے، لیکن اب بے حساب ہے تو گن گن کر خرچ کرتے ہیں اور انفاق کے ہر موقع اور مطالبے پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں، کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ انھیں ملا ہے وہ ان کی محنت اور قابلیت کی وجہ سے ملا ہے۔ جان لینا چاہیے کہ یہ طرزِ فکر و عمل مناسب نہیں اور خسارے کی طرف لے جانے والا ہے۔ یہاں یہ بات اور جان لینی چاہیے کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے جس ضابطے کا ذکر فرمایا ہے، ٹھیک یہی ضابطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے موقع پر بھی برتا گیا… اور شامت زدہ قوموں کے جس طرزِعمل کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، ٹھیک وہی طرزِعمل سورہ اعراف کے نزول کے زمانے میں قریش والوں سے ظاہر ہورہا تھا۔ حدیث میں عبداللہ بن مسعودؓ اور عبداللہ بن عباسؓ دونوں کی متفقہ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد جب قریش کے لوگوں نے آپؐ کی دعوت کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنا شروع کیا… تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ خدایا، یوسفؑ کے زمانے میں جیسا ہفت سالہ قحط پڑا تھا ویسے ہی قحط سے ان لوگوں کے مقابلے میں میری مدد فرما۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں سخت قحط میں مبتلا کردیا اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگ مُردار کھانے لگے… چمڑے اور ہڈیاں اور اُون تک کھا گئے۔ آخرکار مکہ کے لوگوں نے، جن میں ابوسفیان پیش پیش تھا… حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمارے لیے خدا سے دعا کیجیے۔ مگر جب آپؐ کی دعا سے اللہ نے وہ برا وقت ٹال دیا اور بھلے دن آئے تو اُن لوگوں کی گردنیں پہلے سے زیادہ اکڑ گئیں… اور جن کے دل تھوڑے بہت پسیج گئے تھے اُن کو بھی اشرارِ قوم نے یہ کہہ کہہ کر ایمان سے روکنا شروع کردیا کہ… میاں، یہ تو زمانے کا اتار چڑھاؤ ہے۔ پہلے بھی آخر قحط آتے ہی رہے ہیں، کوئی نئی بات تو نہیں ہے کہ اس مرتبہ ایک لمبا قحط پڑگیا، لہٰذا ان چیزوں سے دھوکا کھا کر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پھندے میں نہ پھنس جانا۔ یہ تقریریں اُس زمانے میں ہورہی تھیں جب یہ سورہ اعراف نازل ہوئی۔ اس لیے قرآن مجید کی یہ آیات ٹھیک اپنے موقع پر چسپاں ہوئی ہیں اور اسی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے اِن کی معنویت پوری طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔ آیت 97 تا 99 میں ارشاد ہوا: ’’پھر کیا بستیوں کے لوگ اب اس سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ہماری گرفت کبھی اچانک اُن پر رات کے وقت نہ آجائے گی جب کہ وہ سوتے پڑے ہوں؟ یا انھیں اطمینان ہوگیا ہے کہ ہمارا مضبوط ہاتھ کبھی یکایک اُن پر دن کے وقت نہ پڑے گا جب کہ وہ کھیل رہے ہوں؟ کیا یہ لوگ اللہ کی چال سے بے خوف ہیں؟ حالانکہ اللہ کی چال سے وہی قوم بے خوف ہوتی ہے، جو تباہ ہونے والی ہو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ارادے اور عمل کی جو آزادی بخشی ہے، اس کے لیے ایک دورانیہ مقرر کیا ہے جسے عمر کہا جاتا ہے… اس دوران میں اسے اپنی طرف رجوع کرنے کے لیے خوشی اور غم کی صورت میں ریمائنڈرز دیئے جاتے ہیں… لیکن اگر وہ ان سے غفلت برتتا ہے اور رجوع نہیں کرتا تو وقت مکمل ہوتے ہی سانس کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے… جبکہ انسان یہی سمجھتا ہے کہ سب اچھا جارہا ہے۔ یہی اللہ کی چال ہے جس سے غفلت کی وجہ سے انسان بے خوف ہوجاتا ہے۔ آیت 100 تا 102 میں ارشاد ہوا: ’’اور کیا اُن لوگوں کو جو سابق اہلِ زمین کے بعد زمین کے وارث ہوتے ہیں، اِس امر ِ واقع نے کچھ سبق نہیں دیا…کہ اگر ہم چاہیں تو ان کے قصوروں پر انھیں پکڑ سکتے ہیں؟ مگر وہ سبق آموز حقائق سے تغافل برتتے رہے اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں، پھر وہ کچھ نہیں سنتے۔ یہ قومیں جن کے قصے ہم تمہیں سنا رہے ہیں، تمہارے سامنے مثال میں موجود ہیں، ان کے رسول ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے، مگر جس چیز کو وہ ایک دفعہ جھٹلا چکے تھے پھر اُسے وہ ماننے والے نہ تھے۔ دیکھو اس طرح ہم منکرینِ حق کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں۔ ہم نے ان میں سے اکثر میں کوئی پاس ِ عہد نہ پایا بلکہ اکثر کو فاسق ہی پایا۔‘‘
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں لیتا… حالانکہ ہر گرنے والی قوم کے زوال کی وجوہات سامنے ہوتی ہیں… اور ابھرنے والی قوم اگر عقل سے کام لے تو جان سکتی ہے کہ کچھ عرصہ پہلے جو لوگ اِسی جگہ عروج پر تھے انھیں فکر و عمل کی کن غلطیوں نے برباد کیا… اور یہ بھی سوچ سکتی ہے کہ جس خدا نے اُنھیں اُن کی غلطیوں پر پکڑا تھا، وہ آج کہیں چلا نہیں گیا ہے، نہ کسی نے اس سے یہ قدرت چھین لی ہے، کہ آج عروج پانے والے اگر وہی غلطیاں کریں جو گزرے ہوئے لوگ کررہے تھے تو وہ ان سے بھی زمین کو پاک کردے۔ اور ہوتا یہ ہے کہ جب وہ تاریخ سے سبق نہیں لیتے اور اپنے آپ کو خوابِ غفلت میں ڈالتے ہیں، تو پھر خدا کی طرف سے بھی انھیں سوچنے سمجھنے اور کسی نصیحت کرنے والے کی بات سننے کی توفیق نہیں ملتی۔ خدا کا قانونِ فطرت یہی ہے کہ جو اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے چمکتے سورج کی روشنی سے محروم ہی رہتا ہے… اور جو خود نہیں سننا چاہتا اُسے پھر کو ئی کچھ نہیں سنا سکتا۔ وجہ اس کی یہ بتائی گئی ہے کہ ’’یہ عہد کی پابندی نہیں کرتے‘‘۔ یہ عہد کیا ہے؟ سب سے پہلا عہد جو انسان کو وفا کرنا چاہیے وہ اُس کا خدا سے ہے، جس نے اسے وجود بخشا اور اس کے زندہ رہنے کا انتظام کیا… دوسرا عہد انسانی معاشرے سے ہے، جس نے اسے پیدا ہونے کے بعد پروان چڑھایا اور استحکام بخشا… تیسرا عہد وہ ہے جو ہر شخص مصیبت اور پریشانی کے لمحوں میں، یا جب اس پر اچھے جذبات کا غلبہ ہو، اپنے خدا سے کرتا ہے… یاد رکھیں جو انسان اپنے خالق سے وفادار نہیں اور اس سے کیے ہوئے عہد کو پورا نہیں کرتا، پھر وہ کسی سے بھی نہ وفا کرے گا اور نہ کوئی عہد پورا کرے گا… اگر آپ اسے عہد کا پابند دیکھتے ہیں تو جان لیں وہ اُسی وقت تک یہ پابندی کرے گا جب تک اس کا اپنا فائدہ ہو… جہا ں نقصان کا امکان بھی ہوا وہ دغا دے جائے گا۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
وآخر دعوانا ان ا لحمد و للہ رب العالمین۔

حصہ