شریک مطالعہ “مولُومصلی” ۔

650

ڈاکٹر امجد ثاقب کی دلوں کو چھولینے والی تحریروں سے مزین کتاب

نعیم الرحمن
ڈاکٹرامجد ثاقب کی نئی کتاب’’مولُو مصلی‘‘ دل کو چھو لینے والی تحریروں سے مزین پُراثر کتاب ہے۔ اس مختصرکتاب کی کہانیاں عام پاکستانیوں کی کہانیاں ہیں… دوست محمد موچی، محمد دین اور اللہ دتہ۔ سود کی دلدل میں گھری ایک خاتون کی، جیل کے ایک معصوم قیدی کی، ان عام لوگوں کی جو ہمیں راہ چلتے ملتے ہیں۔ کسی فٹ پاتھ پر، کسی سرکاری دفترکے برآمدے میں، ضلع کچہری کی بے ربط بھیڑ میں، کسی گاؤں کی چوپال میں یا ریل گاڑی کے تیسرے درجے میں۔ پل بھر ان پہ نگاہ پڑتی ہے، پھر فراموش کردیے جاتے ہیں۔ عمدہ کاغذ، بہترین طباعت کے ساتھ مجلّد 148 صفحات کی کتاب کی قیمت 450 روپے مناسب ہے، لیکن موضوع کی اہمیت اور عام آدمی کی دسترس میں لانے کے لیے 24 خالی صفحات کم اور پیپر بیک پر شائع کرکے اس کی قیمت مزیدکم کی جاسکتی تھی تاکہ کتاب زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے۔
ڈاکٹر محمد امجد ثاقب ایک معروف سماجی رہنما ہیں۔ انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور اور کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج سے تعلیم حاصل کی۔ 1985ء میں سول سروس کے ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کے لیے منتخب ہوئے۔ امریکا سے پبلک ایڈمنسٹریشن اور انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ اہم سرکاری عہدے پر فائز رہے۔ ملازمت سے مستعفی ہوکر اخوت جیسے ادارے کی بنیاد رکھی اور اسے کامیابی سے ہمکنارکیا۔ اخوت دنیا میں قرضِ حسنہ دینے والا سب سے بڑا پروگرام ہے جس نے پاکستان کی ایک خوب صورت تصویر دنیا کے سامنے پیش کی ہے۔ ایثار، قربانی اور بھائی چارے کی یہ تصویر، جسے اخوت کا نام دیا گیا ہے، غربت کے خاتمے اور ترقی کے ایک نئے افق کی نشاندہی ہی نہیں کرتا بلکہ اسے عملاً کرکے بھی دکھاتا ہے۔ معاشرے کے کمزور طبقات کے لیے آواز اٹھانے اور ان کی رضا کارانہ خدمات کے اعتراف میں ڈاکٹر امجد ثاقب کو ملکۂ برطانیہ کی جانب سے اعزاز سے نوازا گیا۔ ورلڈ اکنامک فورم اور شواب فاؤنڈیشن کی طرف سے 2018ء کے ’’انٹر پرائزآف دی ائر ایوارڈ‘‘ کے حق دار قرار پائے۔ صدر پاکستان نے انہیں ستارۂ امتیاز عطا کیا۔ وہ کئی کتب کے مصنف اور مقبول مقرر بھی ہیں۔ زیرِ نظرکتاب اُن کی دردمندی اور گہرے سماجی شعورکا حاصل ہے۔ ان الفاظ میں جہاں عصرِ حاضرکی تصویر نظر آتی ہے وہیں ایک نئی دنیا تعمیرکرنے کی آرزو بھی ہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب اس سے قبل سفرنامہ ’’گوتم کے دیس میں‘‘، قرضِ حسنہ کے سب سے بڑے پروگرام کی کہانی ’’اخوت کا سفر‘‘، دشت ِظلمت میں ایک دِیا ’’اخوت‘‘، چنیوٹ کی قدیم عمارتوں، علمی اور ادبی شخصیات کے بارے میں ’’شہر لبِ دریا‘‘، ’’ایک یادگار مشاعرہ‘‘ اور چنیوٹی شیخ برادری کے کاروباری عروج کی داستان ’’کامیاب لوگ‘‘ تحریر کرچکے ہیں۔ ان کا اندازِ تحریر سادہ، دل نشین اور پُراثر ہے۔ کتاب کے پیش لفظ میں ڈاکٹر امجد ثاقب موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’مولُو مصلی دو الفاظ کا مرکب ہے، مولُو اور مصلی۔ مولُو مولا بخش کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ ہمارے معاشرے میں ناموں کو بگاڑ لینا کوئی نئی بات نہیں۔ کرم علی کو کرملی، غلام محمد کو گاما، یا مختارکو موکھا کہا جاتا ہے۔ اس عمل کی بنیاد محبت سے زیادہ حقارت ہے۔ مصلی بھی مسلم شیخ کا بگاڑ ہے۔ مختلف مذاہب کی نچلی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے جب حلقہ بگوش اسلام ہوئے تو بھی انہیں کوئی بلند سماجی رتبہ نہ مل سکا۔ انہیں مسلم شیخ کہا جانے لگا۔ ان افراد کا تعلق نچلے طبقوں سے تھا، کم مرتبہ اور کم حیثیت۔ اس لیے انہیں پہچان کے لیے دیا گیا لفظ مسلم شیخ بھی بگڑ کرمصلی بن گیا۔ گویا مولُو مصلی، دہری تحقیرکی عکاسی کرتا ہے۔ مولا بخش سے مولُو اور مسلم شیخ سے مصلی۔ مولُو مصلی غربت اور بے بسی کا استعارہ بن چکا ہے۔ سماجی بدحالی اور معاشی ابتری کا شکار ہر شخص مولُو مصلی ہے۔ مولُو مصلی مقتدر طبقے میں نہیں ہوتے۔ یہ ٹوٹے پھوٹے گھروں، کچی بستیوں، پسماندہ دیہات میں رہتے ہیں۔ مولُو مصلی ظلم اور سماجی درجہ بندی کی ایک بدترین تصویر اور اخلاقی طور پر دیوالیہ معاشروں کی نشانی ہے۔ یہ کتاب بھی ایک المیہ ہے۔ لیکن اس کی کوکھ سے ایک آرزو جنم لیتی ہے۔ نئی دنیا اور نیا سماج بنانے کی آرزو۔ کچھ کہانیوں اور خاکوں پہ مشتمل یہ کتاب اُن لوگوں کی کہانی ہے جن کے خواب پورے نہیں ہوتے۔ یہ لوگ پوچھتے ہیں کہ غربت کی زنجیرکب ٹوٹے گی، اُن کا بچہ کب اسکول جائے گا، اُس کے ہاتھ میں کاغذ، قلم اور کتاب کیوں نہیں، اس کی بیمار ماں کو دوا کیوں نہیں ملتی، اس کا باپ سر اٹھا کر کیوں نہیں چلتا، وہ سب کے سب مولُو مصلی کیوں ہیں؟ یہ کتاب اپنے حصے کی شمع روشن کرنے کا نام ہے۔ یہ ایک احتجاج اور بغاوت ہے۔ اس کا نام ’’مولُو مصلی‘‘ اس لیے رکھا گیا تاکہ مولو مصلیوں پر ہونے والے ظلم کی کہانی عام ہو، اور اس لفظ سے وابستہ سماجی رویوں کو مٹایا جاسکے۔‘‘
مشہور کالم نگار ہارون رشید ’’افتادگانِ خاک‘‘ کے زیرِ عنوان کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’دھتکارے ہوئے لوگ… کیا زندگی پر ان کا کوئی حق نہیں؟ صحن فلک پہ کوئی ستارہ جو ان کے لیے چمک اٹھے۔ پیار کی کوئی آواز جو ان کے کانوں میں گھل جائے! ڈاکٹر امجد ثاقب کے قلم سے یہ عام پاکستانیوں کی کہانیاں ہیں۔ دوست محمد موچی، محمد دین اور اللہ دتہ کی۔ سود کے دلدل میں گھری ایک خاتون کی، جیل کے ایک معصوم قیدی کی، اُن بچیوں کی، انتظارکے مہ وسال نے جن کے بالوں میں چاندی اتار دی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب پہلی نظر ہی میں شناسا لگتے ہیں۔ پاس پڑوس کا کوئی آدمی، محلے کی دکان پہ کبھی کبھار جس سے ملاقات ہوتی ہے۔ راہ چلتے کبھی واسطہ پڑتا ہو یا نمازِ جمعہ کا ہنگام۔ ہاں! مگر اللہ نے انہیں ایک نادر خصوصیت عطا کی ہے، درد کی دولت بخشی ہے، ایسا خزانہ کہ دن رات لٹاتے ہیں مگرختم ہونے میں نہیں آتا بلکہ بڑھتا جاتا ہے۔ علم کی طرح ایثار بھی ایک عجیب دولت ہے، جتنی بکھیرو اتنی ہی بڑھتی جاتی ہے، برسات کے پانی میں بھیگے دھان کی طرح لہلہاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب ایسے ہر آدمی کے پڑوسی ہیں، اُن کے دردمند، اُن کے دوست، اُن کے مربی، بلکہ ان کے ہم نفس۔ انہی اجڑے ہوئے لوگوں میں آپ کا جی لگتا ہے اور کیا خوب لگتا ہے۔ اپنے مرحوم عبدالستار ایدھی کی طرح۔ سہل نہیں ہے، ہرگز سہل نہیں ہے۔ وہی لوگ ایسا کرسکتے ہیں، ضبطِ نفس کے مراحل جو طے کرچکے ہوں۔ ریا کاری سے نجات پا چکے ہوں۔ چھوٹے کاروباری قرضوں کی دنیا میں ایسی اختراع انہوں نے کی ہے کہ مالیات کی جدید تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایسی ایجاد کہ نگاہ خیرہ ہوجاتی ہے اور خیرہ ہی رہتی ہے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ معجزہ ہوا کیسے اور مستقل طور پر برپا کیسے ہے! اخبار نویس، ادیب اور افسانہ نگار چونکا دینے والے کرداروںکی کہانیاں لکھتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے عام آدمیوں کی داستانیں کہی ہیں۔ وہ عام لوگ، جو راہ چلتے ہمیں ملتے ہیں، کسی فٹ پاتھ پر،کسی سرکاری دفترکے برآمدے میں، ضلع کچہری کی بے ربط بھیڑ میں، کسی گاؤں کی اداس چوپال میں یا ریل گاڑی کے تیسرے درجے میں۔ بے رنگ، بے بو، بے ذائقہ زندگیاں ہوا میں اُڑتے تنکوں کی طرح۔‘‘
کتاب کا نام پہلی تحریر ’’مولُو مصلی‘‘ پر رکھا گیا ہے جس میں ڈاکٹر امجد ثاقب نے بڑی دردمندی سے عام آدمی اور بڑے لوگوں کے شب و روزکی طرف اشارہ کیا ہے: ’’بہت عرصہ پہلے کی بات ہے ایک بار کچھ پولیس افسران نے ایک گھر کی تلاشی لینا چاہی تو جواب ملا ’’خبردار! یہ چودھریوں کا گھر ہے، کسی مولُو مصلی کا نہیں۔‘‘ اس پر پولیس افسران نے ہاتھ جوڑے، معافی مانگی اور یہ کہہ کر واپس لوٹ آئے کہ ہمیں علم نہ تھا کہ یہ چودھریوں کا گھر ہے۔ مولو مصلی کا گھر ہوتا تو کب کے داخل ہوچکے ہوتے۔ مولُو مصلی، جس کا یہاں ذکر ہوا، کون بدنصیب ہے؟ اس کے گھر اور چودھریوں کے گھر میں کیا فرق ہے؟ کیا اس کی ماں، بہن اور چودھریوں کی ماں، بہنیں برابر نہیں۔ مولو مصلی کے گھر پولیس بلا دریغ گھس سکتی ہے لیکن چودھریوں کے گھر پہ دستک دے تو اُن کے محافظ سینہ تان کے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اس تحقیر آمیز لہجے پہ نہ توکسی نے چودھریوں سے بازپُرس کی اور نہ کسی نے پولیس سے پوچھا کہ ان کے نزدیک چودھری اور مصلی یکساں کیوں نہیں؟ مالک کو مزدور پہ، گورے کوکالے پہ، امیر کو غریب پہ اور چودھری کو مصلی پر یہ فوقیت کیوں حاصل ہے؟ چند الفاظ پر مشتمل یہ محض ایک خبر نہیں بلکہ ایک المیہ ہے جو ہمارے سیاسی اور معاشی نظام اور سماج کی مکمل تصویر پیش کرتا ہے۔ اس خبر میں صدیوں سے جاری اس ظلم کی ایک جھلک ملتی ہے جو آج کروڑوں مولو مصلیوں کا مقدر بن چکا ہے۔ بے چارے مولُو مصلی کے ذکر پہ ہی کیا موقوف، اس کی ماں، بہن کا رتبہ بھی گلیوں کی خاک سے کم تر ہے۔ حوّا کی ان بیٹیوں کی کوئی عزت نہیں۔ وہ تو مٹی کا ایک کھلونا ہیں یا گوشت کا بے جان لوتھڑا، جن کا ذکر حقارت اور حصولِ عیش کے سوا اورکسی انداز میں نہیں ہوتا۔ یہ کم نصیب گھروں، کھیتوں، ملوں اور فیکٹریوں کو آباد کرتی ہیں۔ ان کی محنت اور مشقت صحرا و دمن سے کوچہ و بازار تک، ہر جگہ پھول اُگاتی ہے، لیکن ایک روز کوئی چودھری، کوئی ملک یا کوئی بدمعاش ان کی عزت کو پامال کرکے انہیں دیدۂ عبرت نگاہ بنادیتا ہے۔ نہ ان کا بچپن اپنا، نہ جوانی اپنی، نہ بڑھاپا اپنا۔ قطرہ قطرہ، قریہ قریہ ان کی روح اور جسم نیلام ہوتا ہے۔ یہ نیلامی مکمل ہوتی ہے تو یہ مٹی کی چادر اوڑھ کے ہمیشہ کے لیے سو رہتی ہیں۔‘‘
ذرا دوست محمد موچی کی بات بھی سنیں: ’’میں یہاں کا موچی ہوں۔ آپ کو علم ہے کہ موچی کیا ہوتا ہے۔ جن ہاتھوں سے آپ کتابیں پڑھتے ہیں، روٹی کھاتے ہیں میں ان ہی ہاتھوں سے گندے اور متعفن جوتے سیتا ہوں۔ جوتوں کی گندگی میری جھولی میں گرتی ہے اور میں پھر بھی جوتے سیتا رہتا ہوں۔ یہ گندگی کب تک میرے دامن سے لپٹی رہے گی۔ جوتے سینا کوئی بری بات نہیں، لیکن موچی کو جن نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے وہ نگاہیں بری ہیں۔ میں چاہتا ہوں جوتوں کی یہ گندگی میرے بچوں کا مقدر نہ بنے۔ وہ کوئی اور کام کریں۔ گاؤں کا موچی تو سماج کا سب سے نچلا درجہ ہے۔ میں اُن کے ہاتھوں میں کتاب دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
کتنی سچائی ہے دوست محمد موچی کی باتوں میں۔
ڈاکٹر امجد ثاقب نے معاشرے کے دیگر راندۂ درگاہ لوگوں کے ساتھ خواجہ سراؤں کے مسائل کا بھی بڑی دردمندی سے ذکر کیا ہے۔ خواجہ سراؤں کی شناخت کا مسئلہ بھی سپریم کورٹ کے حکم سے ہی کسی حد تک حل ہوسکا ہے۔ یہ خواجہ سرا کون ہیں؟ کیا زندگی پر ان کا کوئی حق نہیں؟ کوئی ستارا، جو ان کے لیے چمک اٹھے۔ کوئی دِیا، جو ان کے نام پہ جلنے لگے۔ کئی ایسا خواب جس کی تعبیر انہیں پُرسکون کردے۔ یہ تحقیر اور تمسخر کا شکار کیوں ہیں؟
ایک خواجہ سرا نے درد بھرے لہجے میں ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ ’’ہم نے کبھی چوری نہیں کی، ڈکیتی نہیں ڈالی، قتل نہیں کیا، کسی کو اغوا نہیں کیا، کسی مسجد کو نہیں جلایا، کسی گرجا گھر کو آگ نہیں لگائی۔ پھر بھی ہمارے دامن میں کانٹے بکھیرے جاتے ہیں۔ قانون ہمیں انسان نہیں سمجھتا۔ ظلم و حوادث کے یہ تھپیڑے، بے بسی کے یہ بھنور، ہم کہاں پناہ لیں!
گھر سے مار پیٹ کر نکالے گئے ایک خواجہ سرا مٹھو کی کہانی ڈاکٹر امجد ثاقب کی ہی زبانی سنیے۔ لکھتے ہیں کہ ’’گھر سے نکالے جانے پر میرے گرو نے مجھے سہارا دیا۔ آہستہ آہستہ گانے بجانے میں دل لگا لیا۔ میری آواز اچھی تھی اور صورت بھی۔ کام چل نکلا۔ ایک روز میں گرو کے پاؤں دبا رہی تھی کہ مجھے اپنی ماں نظر آئی۔ کہنے لگی: مٹھو تمہاری مدد چاہیے۔ تمہاری چھوٹی بہن کی شادی ہے۔ پانچ لاکھ روپے ہوں تو یہ شادی ہوسکتی ہے، تم ہی مدد کرسکتی ہو۔ اور پھر اگلے دو سال میں گلی کوچوں، شادی بیاہوں، شہروں اور قصبوں میں ناچتی رہی۔ گھنگھرو اور نغمے۔ راتوں کی مشقت اور جنسی تشدد۔ میں اپنی بہن کی ڈولی اٹھتے دیکھنا چاہتی تھی۔ مجھے ماں کا درد بے قرار کر گیا تھا۔ مجھے کتنی اذیتوںکا سامنا کرنا پڑا۔ کہاں کہاں کے دھکے اور کیسے کیسے ظلم۔ دو سال میں چار لاکھ جمع ہوئے، میں نے سارے ماں کے قدموں میں ڈھیرکردیے۔ اس نے منہ پھیر کر کہا: تھوڑے ہیں۔ نہ دعا، نہ شاباش۔ میں سر جھکائے واپس چلی آئی۔ کچھ دنوں بعد مجھے بہن کی شادی کی خبر ملی۔ مجھے یوں لگا جیسے سارے غم دھل گئے ہوں۔ میں تیار ہو کر گھر پہنچی۔ میں بہن کو اپنے ہاتھوں سے رخصت کرنا چاہتی تھی۔ جوں ہی میں نے گھر کی دہلیز عبور کی، مجھے زناٹے دار تھپڑ پڑا۔ بھائی نے کہا: چنڈال، حرافہ! کیا ہمیں بدنام کرنے آئی ہو۔ ماں نے ہاتھ پکڑا اورایک کونے میں لے جاکر کہنے لگی: مٹھو، واپس لوٹ جاؤ، تم نہ گئیں تو تمہاری بہن کی بارات چلی جائے گی۔ تمہارے بارے میں لوگوں کو پتا چلا تو یہ رشتہ قائم نہ رہے گا۔ مجھ پر بجلی سی گر گئی۔ میری دو سال کی ریاضت، قربانی اور ماں سے عشق… وہ چار لاکھ روپے نہیں چار لاکھ کوڑے تھے جو میں نے اپنے بدن پر سہے تھے۔ بھائی نے ایک اور ٹھوکر ماری اور باہر جانے کے لیے دھکا دیا۔ میرا سر دروازے سے ٹکرایا اور خون بہنے لگا۔ پھر بھی کسی نے سہارا نہ دیا۔‘‘ مٹھو کی کہانی ختم ہوئی۔ یوں لگا جیسے کائنات تھم سی گئی ہو۔ وہ میرے گلے لگ کر اس طرح روئی جیسے ساون بھادوں کی جھڑی ہو۔ پھر اس نے میرا ماتھا چوما اور اس کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھنے لگے۔ مجھے لگا، یہی وہ دُعا ہے جو حدِ افلاک چیرتی ہوئی عرشِ بریں پہ جا کے دَم لیتی ہے۔ کاش مجھے ایسی دعا ایک بار پھر مل سکے۔
کس قدر سوز و گداز ہے مٹھو کی اس کہانی میں، اور کس دردمندی سے ڈاکٹر امجد ثاقب نے اسے بیان کیا ہے۔ جس کے لیے ماں کی ممتا بھی ختم ہوگئی ہو، اُس کے لیے محبت کا یہ عالم۔ ’’مولُو مصلی‘‘ چند افراد میں بھی یہ درد جگانے میں کامیاب ہوگئی تو اس کتاب کی کامیابی میں کوئی شبہ نہ ہوگا۔
وہ سورج کب طلوع ہوگا جب غریب کو عزت ملے گی؟ کیا اس ملک کے چھ کروڑ محمد دین اور اللہ دتے کسی اور خدا کی مخلوق ہیں؟ کیا ان کے حقوق حویلیوں میں رہنے والے ’’بڑے لوگوں‘‘ سے کم ہیں؟ یہ سوال بہت پرانا ہے اور ان گنت بار دہرایا گیا ہے۔ لیکن پھر بھی اس کا جواب نہ مل سکا۔ نہ پارلیمنٹ سے، نہ عدالت سے، نہ منبر و محراب سے اور نہ ہی اہلِ دانش اورکوچۂ صحافت سے۔ محمددین اور اللہ دتہ مضمون میں ڈاکٹر صاحب نے یہی سوال ایک مرتبہ پھر اٹھایا ہے: ’’بہت عرصہ پہلے پاکستان کی سپریم کورٹ میں حکومت کی جانب سے کسی مقدمے میں کچھ دستاویزات مقررہ وقت کے بعد پیش کی گئیں۔ ایک فاضل جج نے اس تاخیر پر گہرے غم و غصے کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت حکم عدولی برداشت نہیں کرسکتی۔ ہم نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اب بات بہت آگے پہنچ چکی ہے۔ جج صاحب نے حکومت کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے آپ کو پہلے بھی بتایا تھا کہ یہ محمد دین اور اللہ دتہ کا کیس نہیں ہے، آپ کے مخاطب فاضل چیف جسٹس ہیں۔ گویا فاضل صاحبان خود کہہ رہے ہیں کہ محمد دین اور اللہ دتہ پاکستان کے شہری ہونے کے باوجود عزت یا ان حقوق کے حامل نہیں ہوسکتے جو انہیں حاصل ہیں۔ یہ بے وقعت، کم مایہ اور فروتر، جب کہ ہم اُس اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کے حکم کے خلاف سوچنا بھی گناہ ہے۔ جن کا حُسن خرد کو جنوں اور جنوں کو خرد بنادیتا ہے۔ ہم عالی مرتبت لوگ ہیں۔ عالی مرتبت! ہوائیں ہمارے اشارے پرچلتی ہیں، بہاریں ہم سے پوچھ کے آتی ہیں اور خزائیں ہمارے حکم سے رخصت ہوتی ہیں۔ ہم قانون کی باریکیوں سے آگاہ نہیں اور نہ ہی ہمیں علم ہے کہ توہینِ عدالت کا جرم کہاں سے شروع ہوکر کہاں ختم ہوتا ہے۔ شاید اس تحریرکے بعد ہم بھی کٹہرے میں کھڑے ہوں اور منصف کی نگاہوں کا سامنا کررہے ہوں۔ اس خدشے کے باوجود ہماری فاضل جج صاحبان سے گزارش ہے کہ محمد دین اور اللہ دتہ کا اس طرح تذکرہ کرکے انہیں بے آبرو نہ کیا جائے۔‘‘
ایسی ہی احساس کو جگاتی بہت سی کہانیاں، کئی خاکے اور کئی مضامین مولُو مصلی میں شامل ہیں۔ یہ ہمارے اردگرد موجود عام آدمی کے قصے ہیں۔ غربت، محرومی اور ظلم و ستم کے مارے ہوئے لوگوں کی یہ کہانیاں چند افراد کے دل پر دستک دینے میں بھی کامیاب ہوئیں تو معاشرے میں بہتر تبدیلی آسکتی ہے۔ کتاب پڑھ کر بے اختیار ڈاکٹر امجد ثاقب کے لیے دعا نکلتی ہے اور یہ مصرع لب پرآجاتا ہے ’’شاید کہ اترجائے ترے دل میں مری بات‘‘۔ اس کتاب اور اس کا پیغام گھر گھر پہنچانے کی ضرورت ہے۔

حصہ