بابِ خیبر

932

محمد نفیس دانش
یہ 2015ء کی بات ہے کہ جامعہ عثمانیہ پشاور میں درجہ رابعہ کے امتحانات سے فارغ ہو کر ایک دوست کی دعوت پر بابِ خیبر جیسے تاریخی باب پر حاضری دی۔ باب خیبر جس کا افتتاح جنرل ایوب نے 11 جون 1963ء میں کیا۔ مگر جس تاریخی سڑک پر یہ تعمیر کیا گیا اس کی کہانی صدیوں پر محیط ہے۔اگر تاریخ پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تْو یہ بات ہم پر روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی کہ کبھی اس پر سے آرائیں گزرے تو کبھی منگول برصغیر میں داخل ہوئے۔ یہی وہ تاریخی شاہراہ تھی جس سے عباسی خلافت کا ایک ہیرو اور سلطان محمود غزنوی کئی بار برصغیر کی سرزمین پر بت پرستی کا خاتمہ کرنے آیا۔یہی وہ سڑک تھی جس سے گذر کر احمد شاہ درانی مرہٹہ کے لشکر سے پانی پت کے مقام پر لڑنے آیا تھا جہاں ان کا ہندوستان پر مکمل حکومت کا خواب لشکر سمیت ہمیشہ کے لیے دفن ہوگیا تھا۔
پھر وہ دور بھی آیا جب اس سڑک پر سکھوں نے مسلمانوں کو شکست دے کر پشاور ان سے چھین لیا تھا۔ اگر جمرود کے معرکے میں سکھوں کے جنرل ہری سنگھ کو قتل اور سکھوں کے لشکر کو بھاری نقصان نہ پہنچایا جاتا تو شاید وہ کابل بھی مسلمانوں سے چھیننے کی کوشش کرتے۔ یہی وہ سڑک تھی جہاں سے ولیم کی قیادت میں برطانوی فوج کا لشکر کابل پر قابض ہونے گیا تھا مگر پورے لشکر میں سے صرف ایک ہی انگریز سپاہی زندہ لوٹ سکا تھا۔سویت دور میں اسی سڑک سے دنیا بھر سے آئے رضاکار سویت یونین کے خلاف جہاد کی خاطر افغانستان گئے تھے اور سویت یونین کو شکست دے کر لوٹے۔
افسوس! پھر ہم نے وہ دور بھی دیکھا جب مشرف نے اسی سڑک سے افغانستان پر امریکی قبضے کو مضبوط کیا، اسی سڑک سے نیٹو کی سپلائی لائن گذری اور اسی سڑک سے ہم نے افغانستان کے مسلمانوں کی جانوں کا سودا کیا۔ اپنے علمی سفر کے رفیق کے ساتھ آج اس سڑک پر کھڑے ہوکر میں سوچتا رہا کہ کیا منظر ہوگا جب محمود غزنوی، ابدالی اور درانی کے لشکر نے اللہ کے دین کے لیے یہاں سے سفر کیا ہوگا اور آج ہم اتنے کمزور ہوگئے کہ ہماری موجودگی میں کفار اسی سڑک سے اپنے قبضے کو مستحکم کررہے ہیں۔
اللہ سے دعا ہے کہ مسلمانوں کو خلافت کی صورت میں ان کی کھوئی ہوئی عزت اور طاقت عطا فرمائے تاکہ پھر سے یہاں سے منظم فوجیں روانہ ہوں۔

چیتے کا جگر چاہیے، شاہین کا تجسس
جی سکتے ہیں بے روشن دانش و فرہنگ

حصہ