ہاسٹل میں میرا پہلا دن

206

مناہل جاوید
(جامعۃ المحصنات ٹوبہ ٹیک سنگھ)
میرانام مناہل جاویدہے اورشعبہ حفظ اورمتوسطہ کلاس میں میں نے داخلہ لیا۔میں یہاں اپنی اوراپنے والدین کی خوشی سے آئی تھی ۔گھرمیں سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے گھرمیں سب میرے ساتھ بہت پیارکرتے تھے اورنازنخرے بھی خوب اٹھائے جاتے تھے۔جامعہ میں داخلہ توخوشی سے لے لیا لیکن جب بھائی کوروزانہ لینے کے لیے آنا پڑتاتوبہت مشکل ہوتی خصوصاً سردیوں میں آناجانا بہت مشکل ہوگیا تومیری والدہ نے مجھ سے کہاکہ بیٹاآپ ہاسٹل میں رہ لو،سردیوں کے بعد آپ کو دوبارہ واپس لے آئیں گے ۔والدہ کایہ کہناتھاکہ میںنے زاروقطار روناشروع کردیا،پھرمرتے کیاناکرتے ہاسٹل میں رہنے کی ہامی بھرلی۔سوچاکہ گھرسے پہلی دفعہ امی کے بغیرجارہی ہوں پتانہیں کیسے رہوں گی لیکن ایک بات جس نے مجھے مطمئن کیا وہ یہ کہ ہماری کلاس فیلوزمیں سے جو ہاسٹل میں رہتی تھیں ان میں اورڈے اسکالرزمیں بہت فرق نظرآتاتھا۔میں نے سوچاہاسٹل میں رہ کرمیں بھی ان کی طرح بہت کچھ سیکھوں گی خیرچھٹی کے بعدہاسٹل چلے گئے ،روناتوبہت آیا۔
یونیفارم تبدیل کرنے کے فوراً بعدباجماعت نمازاداکی مجھے بہت اچھالگااوردل کوتسلی بھی ہوئی اس کے بعدکھاناکھایا،کھانابھی گھرکی طرح بہت اچھابناہواتھا دل خوش ہوگیا۔ہاسٹل میں مقیم معلمات بھی بہت اچھی لگیں، ان کااخلاق اوررویہ بھی بہت بہترین تھا۔اس کے بعدہمیں نمازعصرکے لیے اٹھایاگیا۔نمازعصر اداکرنے بعد چائے پی گئی اورپھرمطالعے کاوقت شروع ہوگیا۔مغرب کی نمازسے دس منٹ قبل مطالعے کاوقت ختم ہوگیا،پھرہم کھیلنے کے لیے چھت پرچلے گئے ،خوب کھیلنے کے بعدنمازمغرب کاوقت ہوگیا۔نمازباجماعت کانظام بہت اچھالگا۔مسجدکے ساتھ ہاسٹل میں مائیک لگایاتھا۔نمازمغرب قاری صاحب نے بہت اچھی قرات کے ساتھ پڑھائی جودل میں اترتی جارہی تھی اذکارِ مسنونہ کے بعدہمیں سونے،جاگنے اورکھاناکھانے کے آداب اوردعائیں سکھائی گئیں جو کہ میرے لیے بہت متاثرکرنے والی چیزتھی۔میں نے اس کاایک کلاس میں بہت کچھ سیکھا اورآئندہ مستقل طورپرہاسٹل میں رہ کربہت کچھ سیکھنے کاارادہ کرلیا ہے۔آدابِ زندگی کے بعدکھانے کاوقت اورپھراس کے بعد نمازِ عشاء باجماعت اداکی۔پھر سورہ ملک اورسورہ بقرہ کاآخری رکوع پڑھااور محاسبہ کیا۔جب محاسبہ کے لیے بیٹھے تومیں سوچوں کہ کیابلاہوگی۔محاسبے کے معنیٰ پتاچلے تواندازہ ہواکہ مومنین کی جماعت اسی لیے توراہ راست پررہتی ہے، کیوں کہ وہ ایک دوسرے کوان کی غلطیوں سے آگاہ کرتی ہے اوریہ غلطیاں برائے اصلاح بتائی جاتی ہیں۔خیرخواہی کے ساتھ ایک دوسرے کوان کی غلطیوں پرتوجہ دلائی جاتی تھی اوراصلاح کاطریقہ بھی بتایاجارہاتھا۔اس کے بعدذاتی کام(چائے،دودھ،واش روم) وغیرہ سے فارغ ہوکرسونے کے لیے بستر پردرازہوگئے اورسوتے وقت میں نے آج کے دن اورباقی دنوں کاجائزہ لیاتومجھے محسوس ہواکہ شایدمیری زندگی کایہ پہلادن ہے جومیں نے بامقصد گزاراہوگا۔ہاسٹل میں گھرسے دوروالدین کی عدم موجودگی کے باوجودجامعہ کے ہاسٹل کاپہلادن میرے لیے ایک گوہرِ نایاب محسوس ہوا۔

حصہ