ہاسٹل میں میرا پہلا دن

688

زاہدہ خان
( جامعۃالمحصنات کوئٹہ)
ہاسٹل کا پہلا دن جو میں نے گزارا آج بھی جب یاد آتا ہے تومیری آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں ہیں۔ صبح ۱۰ بجے میں جامعہ پہنچی تو میں بہت خوش تھی کہ کوئٹہ پڑھنے جا رہی ہوں جب جامعہ پہنچی تومس شازیہ ہمیں آفس لے گئی۔ پرنسپل شازیہ اکرم نے کہا کہ جائو ابو سے اللہ حافظ کرو اور کلاس میں آجائوجب میں ابو سے ملنے گئی تو ابو کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر میں بھی رونے لگی اسی طرح روتا ہوا ابو بجھے ادھر اکیلا چھوڑ کر چلے گئے تب مجھے ایسا لگا کہ اب کبھی گھر واپس نہیں جائوں گی پھر مس شازیہ مجھے کلاس میں لے گئی وہاں عائشہ باجی قائدہ پڑھارہی تھیں ۲ بجے سے ہم لوگ ہاسٹل آئے تو لڑکیاں جلدی جلدی کپڑے تبدیل کرکے نماز پڑھنے کے لئے گئی ۔پہلی بارلڑکیوں کو جماعت سے نماز پڑھتے دیکھا تومیں حیران ہوگئی ۔نماز پڑھنے کے بعد پھر میں اوپر روم میں چلی گئی ۔سب لڑکیاں کھانے کے لئے چلی گئیں ۔میں اور فہمیدہ اوپر روم میں بیٹھ کر رونے لگی نہ کھانے کا پتہ تھا اور نہ کسی چیز کا پتہ تھا بس صرف یہ انتظار تھا کہ ابو کب آئیں گے اور ہمیں یہاں سے لے جائیں گے والدین سے دوررہنا کتنا مشکل ہوتا ہے یہ اس وقت پتہ چلا لیکن پھر خود کو سنبھال لیا رات کو عشاء کی نماز کے بعد سورۃالملک سننے بیٹھ گئی یہ بات مجھے بہت اچھی لگی اورپریشان بھی ہوگئہ کہ اس ٹائم کیا پڑھ رہے ہیں ۔اس کہ بعد سب کھانے کے لئے گئے اور میں اور فہمیدہ جاکر سو گئے پتہ بھی نہیں چلا روتے روتے کس ٹائم آنکھ لگ گئی جب مجھے فجر کی نماز کے لئے اٹھایا تو سخت غصہ آیا اور اسی ٹائم مجھے امی ابو دونوں بہت یاد آئے کیونکہ پہلی دفعہ فجر کی نماز کے لئے اٹھی تھی صبح تیار ہوکر کالج گئی اسمبلی دیکھی بہت مزہ بھی آرہا تھا کیوں کہ پہلی بار ایسی اسمبلی دیکھی تھی جس میں دعائیں بھی پڑھی جاتی ہیں مجھے اب بھی یاد ہے وہ ترانہ جو اسمبلی میں پڑھا گیا

اپنے ایمان کی آبیاری کریں
دل پہ اللہ کا خوف طاری کریں

اب کبھی وہ ترانہ ہم پڑھتے ہیںتو مجھے پہلی اسمبلی یاد آتی ہے کیونکہ اس وقت یہ ترانہ سن کر میں اسمبلی میں رو رہی تھی جامعہ کی روٹین دیکھ کر بہت عجیب لگ رہا تھا پھر آہستہ آہستہ مجھے یہ سب کچھ بہت اچھا لگنے لگا عجیب اس لئے لگا کہ میں پہلی بار کسی ہوسٹل میں رہنے آئی تھی اس سے پہلے میں نے کبھی بھی ہاسٹل وغیرہ کے بارے میں نہیں سنا تھا پھر ہم کلاس میں گئے ٹیچر پڑھانے کے لئے آئیں تو میں حیران ہوگئی یہاں کی اتنی زبردست اور دینی تعلیم دیکھ کر کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایسا علم بھی حاصل کرنے کا موقع ملے گا صحیح کہا جاتا کہ علم عمل سے بولتا ہے اگر کوئی عمل کرے تو صحیح ورنہ سر سے ہوکر گزر جاتا ہے اللہ نے مجھے اتنی پیار کرنے والی سہیلیاں دیں میں آج خود کو ایک خوش نصیب لڑکی سمجھتی ہوںکہ اللہ نے مجھے ایسی جگہ پر علم حاصل کرنے کا موقع دیا اور پتہ بھی نہ چلا کہ یہ چھ سال کیسے گزرے اور آج جب اس پہلے دن کے بارے میں سوچتی ہوں تو اپنی حالت زار پر ہنسی بھی آتی ہے اور پھر شکر کے آنسو نکل پڑتے ہیں ۔

حصہ