ہاسٹل میں میرا پہلا دن

503

مصباح نجیب،
(جامعۃ المحصنات ملتان)
طالب علمی کے دورمیں پڑھا اورسناکہ ہاسٹل میں کی زندگی بہت خوب صورت ہوتی ہے۔یہ انسان کونظم وضبط سکھاتی ہے اورمعاشرتی زندگی میں نبھاؤ کرنے کاسلیقہ ہاسٹل کی زندگی گزارنے والے کی شخصیت سے واضح ہوتاہے۔کچھ مواقع پرہماری زندگی میں اچانک ہی دستک دیتے ہیں جن کی آہٹ تک کے بارے میں انسان نے سوچانہیں ہوتا۔کچھ اس طرح میرے ساتھ بھی ہوا۔میں نے آئی سی ایس کیاہی تھا کہ قدرت مجھ پرمہربان ہوگئی۔باقاعدہ طورپر علم سیکھنے کاشوق پیداہوگیا۔تڑپ سچی ہوتواللہ تعالیٰ راہ بھی سجھادیتے ہیں یہ اوربات کہ کبھی پلک جھپکتے ہی سب راہیں کھل کرہموار ہوجاتی ہیں اورکبھی

نالہ ہے بلبلِ شوریدہ تراخام ابھی
اپنے سینے میں اسے اورذراتھام ابھی

والامعاملہ ہوجاتاہے۔میرے ساتھ بھی کچھ ایساہی معاملہ ہوا۔خیر،ایک سال کی دوڑدھوپ کے بعدمجھے جامعۃ المحصنات کاپتاچلا۔میں فوراً ہی اپنے والدین کے ہمراہ معلومات حاصل کرنے کے لیے جامعہ پہنچ گئی۔
جامعہ کی پرنسپل محترمہ فوزیہ سلیمی سے ملاقات ہوئی۔انھوں نے بہت پیارسے معلومات فراہم کیں۔ ان کی تمام باتیں سن کرمیرے دل نے کہاکہ ایسے ادارے ہی کی تومجھے تلاش تھی۔میں نے اسی وقت طے کرلیاکہ میں اسی جامعہ میں تعلیم حاصل کروں گی۔میں نے خاصہ اول میں داخلے کے لیے داخلہ فارم لیا اورگھرواپس چلی گئی۔
گھرجاکر داخلہ فارم پُرکیا،تمام ضروری کاغذات اس کے ساتھ لئے،وہ تمام سامان تیارکیا جوہاسٹل میں دینے کے لیے ضروری تھا اورپھراپنی منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے پُرعزم ہوگئی۔اگلے روزمیں گھر سے ہاسٹل کے لیے روانہ ہوئی۔جہاں ایک طرف گھرسے دورجانے کا غم تھا وہیں دوسری طرف دل میں ایک عجیب سا خوف تھا ۔دماغ سوالات سے بھراہواتھا۔۔۔کہ کیاہوگا؟ کیسے ہوگا؟ اساتذہ کیسے ہوں گے؟ لوگوں کابرتاؤ کیا ہوگا؟ وغیرہ وغیرہ ۔غرض سوالات کاسمندر میرے دماغ میں امڈ اچلاآرہاتھا۔جامعہ پہنچ کر میرے خوف اوراندیشوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔
جامعہ میں آنے پرجس شخصیت سے میری سب سے پہلے ملاقات ہوئی وہ تھیں معلمہ حفصہ۔ان سے مل کر مجھے تھوڑادلی سکون ہوا۔انھوں نے بہت پیار،محبت، خلوص ونرم دلی سے بات کی۔مجھے تمام اصول وضوابط شفقت بھرے لہجے سمجھادیے۔ان کے بعد دیگراساتذہ سے ملاقات ہوئی جن میں ہاسٹل کی وارڈن بھی شامل تھیں۔ان سب نے میرے ساتھ کمال شفقت کامظاہرہ کیا۔ا ن دنوں امتحانات چل رہے تھے اس لیے کسی سے بھی ملاقات نہ ہوئی۔بے چینی نے ابھی تک مجھے گھیررکھاتھا۔دیگرطالبات کے مصروف ہونے کی وجہ سے مجھے ایک علیحدہ کمرے بٹھادیاگیا۔میرے گھروالے واپس چلے گئے۔
میں کمرے میں بیٹھ کراردگرد کاجائزہ لینے لگی۔جامعہ نہایت صاف ستھراتھا۔لہٰذا آنکھوں کوبہت اچھالگ رہاتھا۔پرچے سے فارغ ہوکر جب تمام لڑکیاں واپس آئیں توسب ایک ایک کرکے مجھ سے سلام کرتی اورنہایت ادب وشائستگی سے میرانام پوچھتیں اورمیرے بارے میں مزید دریافت کرتیں ۔ان میں میری سینئر اورجونیئرتمام طالبات شامل تھیں۔ مجھے ان سب سے مل کچھ سکون ملا اوروجودمیں پائی جانے والی بے چینی کچھ دور ہوگئی۔
چھٹی ہونے کے بعد ہم سب نے باجماعت نمازظہراداکی اور اس کے بعد کھانے کے لیے چلے گئے۔ناظمہ طعام نے سب میں کھاناتقسیم کیا۔کیوں کہ میں نئی تھی اس لیے مجھے خودکھانالاکردیاگیا۔میری خوب میزبانی ہوئی۔کچھ دیرقیلولہ کے بعد سب لوگ نمازِ عصر کے بعد پڑھنے کے لیے بیٹھ گئیں۔میں بھی ان کے ٹائم ٹیبل کے مطابق ان کے ساتھ پڑھائی میں مصروف ہوگئی اورساتھ ہی ساتھ ان سے پڑھائی کے متعلق بہت سے سوالات کرتی رہی۔سب لوگ بہت خلوص سے پیش آرہے تھے۔اساتذہ نے بھی خیال رکھا۔باربارآکرپوچھتیں کہ کوئی مسئلہ تونہیں ہے؟ دل تولگ گیا ہے نا؟؟ اورمیں مسکراکرجواب دیتی رہی۔نئی ہونے کی وجہ سے میں سب کی توجہ کامرکز بنی ہوئی تھی۔جلد ہی میں سب میں گھل مل گئی۔تمام بچوں کے ہونٹوں پرایک ہی بات تھی کہ ـلگتا ہی نہیں کہ آج آپ کاپہلادن ہے یہاں۔رات کے وقت دوبارہ جب سب Study Hour کے لیے بیٹھے تومیں بھی ساتھ بیٹھ گئی۔چونکہ سب کے پرچے ہورہے تھے لہٰذا سب پڑھائی میں مصروف ہوگئے۔میں لائبریری سے ـقصص الانبیاء لے کرپڑھنے میں مشغول ہوگئی۔
رات کے کھانے کے لیے بلایا گیا۔ہم سب نے کھاناکھایا اوراللہ کاشکراداکیا۔اس کے بعد عبادتِ الٰہی یعنی نمازِ عشاء قائم کی۔نمازِعشاء باجماعت اداکرکے سب نے سورۃ الملک کی تلاوت سنی اوراپنے بستر پرچلے گئے۔بستر میں لیٹ کرسارے دن میں نے جوکیا،جوسنا،جودیکھا اورجوسیکھا سب میرے دماغ میں چل رہاتھا۔گھروالوں کی یادبھی ساتھ ساتھ تھی مگرسب نے اتناپیاردیاکہ جامعہ گھرسامعلوم ہونے لگا۔
ہاسٹل میں یہ میراپہلادن میری زندگی میں ،میرے دل میں اورآنکھوں میں ہمیشہ جگمگاتا رہے گا۔ بلکہ مشعلِ راہ بھی ہوگا۔

حصہ