ٹک ٹاک ، معاشرے کا ناسور

605

آصف اقبال انصاری
یہ بات کوئی اتنی مشکل نہیں کہ سمجھ کو نہ چھوئے، مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جنہیں آگ سے کھیلنے کا بڑا شوق ہوتا ہے۔ جو بلا وجہ جلتے انگارے کو ہاتھ میں لینا بہادری خیال کرتے ہیں۔ جنہیں اپنے ہی پیر پر کلہاڑی مارنے کی عادت سی ہو جاتی ہے، جو تیراکی نہ جاننے کے باوجود، گہرے سمندر میں کودنا پسند کرتے ہیں۔ نتیجتاً ہوتا کیا ہے؟ بالآخر وہ ہلاکت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور وہ وقت بھی دور نہیں ہوتا کہ وہ ہلاک ہی ہوجاتے ہیں۔
ایسا ہی کچھ حال، ہمارے معاشرے کے نوجوانوں کا ہے، یہی کچھ داستان ہماری نوجوان نسل کی ہے۔ آپ نے یہ کہتے تو سنا ہی ہوگا کہ جدید دور ہے، دنیا جدت پسندی کی طرف مائل ہے، دنیا کا سارا نظام ایک مٹھی میں سما چکا ہے اورمشکل سے مشکل کام چند لمحوں میں نمٹ جاتاہے۔ جدت کی انتہا یہ ہے کہ پاس بیٹھا تو پاس ہے ہی، مگر دنیا کے آخری کونے میں دور بیٹھا بھی اس دور جدید میں قریب آچکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ سب کیسے ہوا؟ تو کہا جائے گا انٹرنیٹ سے، یوں تو انٹرنیٹ کے جتنے فائدے ہیں، تو نقصان کا بھی کوئی احاطہ نہیں۔ پھر مزید یہ کہ سوشل نیٹ ورک جو معاشرے پر منفی اثرات مرتب کیے وہ ان گنت ہیں۔
اب تک فیس بک نے معاشرے کو جس موڑ پر لا کھڑا کیا، اس کے تصور سے بھی خوف آتا ہے، کیا ہوا؟ کئی گھرانے اجڑ گئے۔ نوجوان بیٹیوں اور بہنوں کا سہاگ لٹ گیا۔ گھروں کے گھر تباہ ہوئے۔ سوائے کف افسوس ملنے کے کوئی چارہ نہ رہا۔ نوجوان بیٹے اور بیٹیوں نے چیٹنگ، پوسٹنگ کے ذریعے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے کہ والدین اپنے بچوں کی راہ تکتے رہ گئے۔
گزشتہ چند سالوں میں کئی ایسے واقعات پیش نظر آئے کہ دل خون کے آنسوں رونے پر مجبور ہوا، یہ سب کچھ ہوتا رہا اور ہم اسے جدت پسندی کہتے رہے اور یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ اس سلسلے کی ایک کڑی ’’ٹک ٹاک‘‘ نامی ایپلی کیشن بھی ہے، جس کے وجود میں آتے ہی رہی سہی تھوڑی حیاء بھی اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ سن 2016ء میں اس ایپلی کیشن کو انگریزوں نے لانچ کیا، اس کے لانچ ہوتے ہی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اس کی گرویدہ ہوگئی۔ تقریباً 150 ممالک میں 500+ ملین یوزرز ہوگئے۔ حیرت اس پر نہیں کہ اس کو لانچ کیا گیا، ظاہر ہے دشمن تو روز بہ روز نت نئی تدبیریں اختیار کرہی رہا ہے اور کرے گا بھی مگر کیا ہوا ہم مسلمانوں کو؟ دشمن کے ہر حربے کا شکار بنتے چلے آرہے ہیں؟
وہ اپنے مقصد میں بامراد ہوتا ہے اور ہم اپنے مقصد کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں، دشمن تدبیریں اختیار کرتا ہے اور ہم معاون بنتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اپنا مشن آگے بڑھاتا ہے اور ہم پیچھے سہارا بنتے ہیں، اس طرح کی چیزوں کو وجود دینے کا مقصد صرف یہی ہے کہ مسلمانوں کی ساخت کو کمزور کر دیا جائے۔ ان کی غیرت کو ان کے اپنے ہاتھوں سے بھسم کیا جائے، ان کے کردار کو داغ دار بنادیا جائے، ان کی حیاء کا جنازہ نکالا جائے، انہیں اپنے لباس میں رکھ کر ہی برہنہ کردیا جائے۔ ان کی عزتوں کو گھر کی چار دیواری میں رہتے ہوئے نیلام کردیا جائے، ان کی عصمت کو ان کے اپنے ہاتھوں سے ختم کردیا جائے۔یہی وہ (ٹک، ٹاک) نامی ایپلی کیشن ہے، جس نے بیٹیوں کو بند کمرے میں بھی غیر محفوظ کردیا، جس کے ذریعے ہماری بیٹیاں حسن کے جلوے دکھاتی نظر آتی ہیں۔وہ لباس پہن کر بھی برہنہ ہوتی ہیں اور صرف یہی نہیں بلکہ نوجوان لڑکوں کا نامناسب، غیر اخلاقی اور بے حیائی سے بھر پور فلمی ایکٹنگ نے تو پوری نسل شباب کو سر جھکانے پر مجبور کر دیا ہے۔
لیکن ذرا سوچیں! کیا ہم ان ایکٹنگ کے لیے پیدا کیے گئے؟ کیا یہ جدید دور میں جدت کا صحیح استعمال ہے؟ کیا ان چیزوں کے استعمال سے ہم رب کے غضب کو دعوت نہیں دے رہے؟ خصوصاً بیٹیاں اور بہنیں جو اس دلدل میں گھس کر خود اپنے ہاتھوں سے اپنی عزت خراب کررہی ہیں، کیا یہ حیاء کا تماشہ نہیں، جب کہ حیاء سے متعلق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’حیا ایمان کا حصہ ہے۔‘‘ کیا یہ غیرت مندی کا جنازہ نہیں؟ کیا یہ تعلیمات پیغمبر سے کھلی بغاوت نہیں حالانکہ شریعت ِ اسلامیہ نے عورتوں کو کس حد تک غیروں کی نظروں سے اوجھل رکھا، تمھیں بولنے کی اجازت تو دی، مگر آواز پست رکھنے کا حکم دیا، حتیٰ کہ عبادات میں بھی تمھیں چھپائے رکھا، نماز ہو تو گھر کے کونے میں اور وہ بھی خود کو سمیٹ کر، حج ہے تو تلبیہ پست آواز سے، یہ سب کچھ اس لیے کہ تمھاری عصمت و عزت پر آنچ نہ آئے۔
لگتا یوں ہے کہ ابن آدم اور بنت آدم، رب آدم کے فرمان کو بھلا بیٹھے ہیں، وہ فرماتا ہے ’’یقینا تم پر نگہبان مقرر ہیں، وہ کراما کاتبین ہیں۔‘‘ (سورۃ الانفطار) وہ فرماتا ہے ’’تمھارا کیا خیال ہے کہ ہم نے تمھیں ایسے ہی بے کار پیدا کیا ہے۔‘‘ (سورۃ الحج)کیا اس پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی یاد نہیں،کہ آپ ؐ نے فرمایا ’’آدمی کے لیے اسلام میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ فضول،لایعنی کاموں کو چھوڑ دے۔‘‘ (الحدیث) کیا اللہ کی لعنت سے ڈر نہیں لگتا، کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کہ دیکھنے والے/والی اور دکھانے والے/والیاں، دونوں پر اللہ کی لعنت۔‘‘ (بخاری) حضرت عمران بن حصین کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’میں نے جہنم میں جھانک کر دیکھا وہاں اکثر عورتیں ہیں۔‘‘ (الحدیث)
میری بہنو! کیا تمھیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معراج میں جہنم کا دیکھنا یاد نہیں کہ آپ نے فرمایا،’’میں نے جہنم میں ایک عورت کو دیکھا،اس کا جسم آگ کی قینچی سے کاٹا جارہا تھا،یہ اس عورت کی سزا تھی جو اپنا جسم اور زینت غیر مردوں کو دکھاتی تھی‘‘۔یاد رکھو! انسان کی عزت نفس، دوسروں سے پہلے اپنے ہاتھ میں ہے، انسان دوسروں سے پہلے خود اپنے نفس کا محافظ ہے۔ اگرچے ہم دوسروں کی آنکھوں کو نہ دیکھنے پر مجبور کرنے کی طاقت نہیں رکھتے،لیکن خود کو دوسروں کے سامنے لانے سے روک تو سکتے ہیں۔ دوسروں کی نظروں میں حیاء پیدا نہیں کر سکتے،مگر خود با حیاء تو بن سکتے ہیں،اور حیاء کے بارے میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، ’’حضرت عمر فاروق ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’بے شک حیا اور ایمان دونوں ساتھی ہیں،پس جب ان میں سے کوئی ایک اٹھایا جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے‘‘۔ اس حدیث کے تناظر میں اب ڈرنے کی بات یہ ہے کہ ’’ٹک ٹاک‘‘ اور ان جیسے دوسرے ناسوروں پر، ہماری بے حیائی، ہمیں ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھنے پر مجبور نہ کردے۔اللہ ان فتنوں سے ہم سب کی حفاظت فرمائے، آمین۔

حصہ