والدین کی مشکل حل ہوگئی

405

جماعت اسلامی کراچی کا “پڑھو اور پڑھاؤ تحریک” کے تحت کتب کیمپ کا انعقاد

جویریہ اللہ دتہ

حامد دفتری فائلیں سامنے پھیلائے کہیں اور ہی سوچوں میں گم تھا۔ پاس بیٹھے احمد نے پریشانی بھانپتے ہوئے استفسار کیا تو بولا ’’اس مہنگائی میں گھر چلایا جائے یا بچوں کو پڑھایا جائے؟ اور اب تعلیمی سال کے آغاز پر نئی کتابیں، کاپیاں اور اسکول کی فیس کا اضافی بوجھ… آخر یہ سب کیسے پورا کریں؟‘‘ مشورہ ملا کہ دفتر کے قریب ہی ایک کیمپ کتابوں کا لگا ہے، وہاں معلوم کرو، شاید مسئلہ حل ہوجائے۔ حامد دفتر سے واپسی پر وہاں پہنچا۔ کیمپ میں خوب گہما گہمی تھی، وہاں شہریوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ لوگ آتے، پچھلے کورس کی کتابیں، بیگز اور جوتے جمع کراتے اور اپنی مطلوبہ اشیا وصول کرتے اور دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوجاتے۔ نہ امیر غریب، نہ مسلک کا فرق۔ یہ دیکھ کر حامد کو اطمینان ہوا کہ ہر طبقے اور شعبہ ہائے زندگی کے افراد یہاں آرہے تھے۔ حامد کو بھی نئے تعلیمی سال کے لیے بچوں کا کورس اور بستے بالکل مفت مل گئے۔
یہ مسئلہ صرف ایک گھرانے کا نہیں، ہر سال نئے تعلیمی سیشن کی شروعات اپریل سے ہوتی ہے، اور یہ مہینہ والدین کے لیے کئی اعتبار سے کٹھن ہوتا ہے۔ جہاں بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ہر چیز عوام کی پہنچ سے دور کردی ہے وہیں والدین کے لیے بچوں کی تعلیم کا حصول بھی مشکل بنادیا ہے۔ ایسے میں اگر ایک ہی گھرانے کے کئی بچے تعلیمی مراحل میں ہوں تو سوچیے کیا پریشانیاں لاحق ہوتی ہوں گی! اس بڑھتی ہوئی مہنگائی اور کم ہوتی آمدنی نے متوسط گھرانوں کے لیے معیاری تو کجا عام تعلیم کا حصول بھی ایک ادھورا خواب بنادیا ہے۔ ایسے میں عوام کی مدد کے لیے جماعت اسلامی نے ’پڑھو اور پڑھاؤ تحریک‘ کے ذریعے حل نکالا۔
جماعت اسلامی گزشتہ کئی برس سے نئے تعلیمی سال کے آغاز پر اسکولوں اور کالجوں کی کتابوں کی فراہمی کے مفت کیمپ لگا رہی ہے جس سے ہزاروں والدین اور طلبہ و طالبات استفادہ کررہے ہیں۔
رضوان پارک فیڈرل بی ایریا کیمپ کے منتظم اعظم محی الدین نے بتایا کہ پڑھو اور پڑھاؤ تحریک کا آغاز شہریوں کے تعاون سے آج سے چار سال پہلے ناظم آباد اردو بازار سے کیمپ لگا کر ہوا، اس کیمپ کا مقصد یہ تھا کہ پرائیویٹ اسکولوں کا کورس کم از کم 6000 روپے اور اس سے زیادہ کا ہوتا ہے، اور اگر کسی کے تین یا چار بچے ہوں تو ان کے لیے اتنی بڑی رقم کا بندوبست کرنا مشکل کام ہوتا ہے۔ پہلے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈز کا نصاب پڑھایا جاتا تھا، اب پرائیویٹ اسکول اپنی مرضی کے نصاب پڑھاتے ہیں۔ طبقاتی نظام تعلیم اور مختلف قسم کے نصابات نے نظام تعلیم کو متاثر کیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے فیسوں میں اضافہ، جون جولائی کی یکمشت فیس، سالانہ فیس اور اسٹیشنری سمیت کورس کے لیے اخراجات پورے گھر کا بجٹ متاثر کردیتے ہیں، اسی مقصد کے تحت جماعت اسلامی حلقہ ناظم آباد نے چار سال قبل کیمپ لگانے کا آغاز کیا کہ والدین آئیں، اپنے بچوں کا پچھلی کلاس کا کورس دے کر نئی کلاس کا کورس تبدیل کرکے لے جائیں، اس طرح اُن پر کورس کا مالی بوجھ کم ہوجائے۔
اعظم محی الدین کے مطابق ان کی ٹیم نے پہلے مرحلے میں 25 مارچ سے 31 مارچ تک شہریوں سے کتابیں جمع کیں، اس مقصد کے لیے مختلف مقامات پر قائم کیمپوں میں علاقہ مکینوں نے کتابیں جمع کرائیں، اور پھر 14 اپریل تک یہ کتب شہریوں میں تقسیم کرنے کا عمل شروع ہوا۔ کیمپ کھلتا تو ایک جانب درسی کتب کے حصول کے لیے طلبہ اور والدین کا رش لگ جاتا، دوسری جانب ایسے افراد بھی کم نہ تھے جو اپنے گھروں سے نصابی کتب لاکر یہاں جمع کرا رہے تھے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے والدین نے بچوں کے اسکول بیگ بھی عطیہ کرنا شروع کردیے۔ اِس سال پورے کراچی میں ’پڑھو پڑھاؤ تحریک‘ کے کیمپ لگائے گئے، ان 15 روزہ کیمپوں میں والدین اپنے بچوں کا کورس دے جاتے اور نیا کورس لے جاتے۔ اپنی مدد آپ کے تحت شروع کی گئی اس تحریک میں مخیر حضرات اور پبلشرز نے بھی نئی کتابیں اور بیگ عطیہ کیے تاکہ ایسے والدین جو کتابیں خرید نہیں سکتے اور نہ ان کے پاس پرانا کورس تبدیل کرانے کے لیے ہو، وہ آکر اپنے بچوں کے لیے کتابیں، اسکول بیگ، یونیفارم اور جوتے لے جاتے ہیں۔
’پڑھو اور پڑھائو تحریک‘ سے درسی کتب کی مفت فراہمی سے کتنے ہی افراد کی مشکل آسان ہوتی ہے اور کتنے ہی افراد کی سفید پوشی کا بھرم بھی قائم رہتا ہے۔ امیر جماعت اسلامی زون دستگیر نصرت اللہ شاہ کے مطابق لوگوں نے مسلک کی تفریق سے بالاتر ہوکر تعاون کیا اور ہم نے بھی یہ تاثر دیا ہے کہ یہ کیمپ ضرورت مندوں کے لیے نہیں لگایا گیا، بلکہ یہ کتابوں کا میلہ ہے۔
نصرت اللہ نے کہا کہ موجودہ صورت حال میں جہاں مہنگائی کا دور دورہ ہے، متوسط اور غریب طبقے سے وابستہ افراد اپنے بچوں کو کتابیں دلوانے سے قاصر ہیں، ایسے میں جماعت اسلامی اپنی کاوشوں سے پڑھو پڑھاؤ تحریک کے ذریعے ان کی امداد کرتی ہے۔آج کے اس پُرفتن دور میں تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔
رضوان پارک میں لگائے گئے کیمپ پر نہ صرف درسی کتب بلکہ طلبہ میں یونیفارم، جوتے، اسٹیشنری اور نئے بستے بھی قرعہ اندازی کے ذریعے بالکل مفت تقسیم کیے گئے، جب کہ مخیر حضرات کے تعاون سے طلبہ کو کاپیوں اور پنسلوں پر مشتمل سیٹ بھی دیے گئے۔
پڑھو اور پڑھائو تحریک کے تحت لگائے گئے کیمپوں سے نہ صرف والدین اور بچوں کی تعلیمی اخراجات میں مدد کی گئی، بلکہ طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لیے کیمپوں کی اختتامی تقریب میں امتحانات میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے طلبہ و طالبات کو انعامات سے بھی نوازا گیا۔
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کیمپ کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو تعلیم کی سہولت فراہم کرنا حکومت اور ریاست کی ذمے داری ہے، لیکن حکمرانوں نے ہمیشہ شعبہ تعلیم کو نظرانداز کیا ہے۔ اپنی مدد آپ کے تحت جماعت اسلامی کے کارکنوں کی جانب سے ’پڑھو پڑھائو تحریک‘ قابلِ تحسین عمل ہے جس کے ذریعے تعلیم کے فروغ اور ضرورت مند طلبہ کو سہولت فراہم کی جارہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ عام اور غریب طبقے اور متوسط گھرانوں کے لیے آج اپنے بچوں کو تعلیم دلوانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ حکومت تعلیم کے بجٹ میں اضافہ کرنے پر تیار نہیں ہے۔ ملک کو ہر طرح کی کرپشن سے نجات دلانے کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کو عام کرکے عوامی شعور بیدار کیا جائے۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے طبقاتی نظام تعلیم ختم کرے، ایک نظام، ایک نصاب اور ایک زبان رائج کرے۔
کیمپ کی اختتامی تقریب میں شریک ماہر تعلیم اور سابق چیئرمین انٹر بورڈ پروفیسر انوار احمد زئی نے اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ خاموش تحریکیں ہی قوموں کی تقدیریں بدلتی ہیں۔ دعووں اور وعدوں سے جو تحریکیں چلتی ہیں اُن کے کوئی اثرات نہیں ہوتے۔ لوگوں کی اَنا کو مجروح کیے بغیر بچوں کے لیے کتابیں اور بستے فراہم کرنا قابلِ ستائش ہے۔
پڑھو اور پڑھائو تحریک بلاشبہ خدمت کا ایک بہترین مظاہرہ ہے۔ علم کو پھیلانے، اس کی روشنی کو عام کرنے اور مخصوص این جی اوز سمیت حکومت اور اس کے ساتھ تمام سیاسی، مذہبی، سماجی اور دیگر جماعتوں کے لیے ایک مثال اور مشعل راہ ہے۔ معاشرے میں تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے اور عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے اس طرح کی تحریکیں ازحد ضروری ہیں۔
اس موقع پر والدین نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی کے اس دور میں یہ تحریک ایک احسن قدم ہے، اس کے ذریعے انہیں نہ صرف کتابیں مل جاتی ہیں بلکہ کاپیاں، جوتے اور بستے بھی مل جاتے ہیں جس سے مہنگائی کے اس دور میں وہ اپنے بچوں کی تعلیمی ضروریات کو بآسانی پورا کرلیتے ہیں۔ ایک شہری نے کہا کہ ’پڑھو پڑھائو تحریک‘ سے ہر طبقے کو فائدہ پہنچ رہا ہے، جو کتابیں تبدیل کروانا چاہے وہ تبدیل کرا سکتا ہے، جو ایسا نہیں کرسکتا اسے بھی کتابیں مل رہی ہیں۔ ایک خاتون کا کہنا تھا کہ میرے تین بچے ہیں، اگر تینوں کا کورس خریدا جاتا تو تقریباً25,000 روپے لگ جاتے جبکہ ہمیں یہاں بلامعاوضہ تمام کتابیں مل گئی ہیں۔
جماعت اسلامی کی ’پڑھو اور پڑھائو تحریک‘ بلاشبہ تعلیم کے فروغ کی ایک عمدہ کاوش اور دوسروں کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی قابلِ تقلید سرگرمیوں کو علاقائی سطح پر منظم کیا جائے، کیوں کہ تعلیم عام ہوگی تو معاشرہ ترقی کرے گا، اور معاشرہ ترقی کرے گا تو ملک ترقی کرے گا۔

حصہ