صدیوں کا بیٹا، ایم اے راحت

2339

کوثر اسلام
۔1941 کو پروفیسر راغب سیماجی کے گھر ایک خوبصورت بچے نے جنم لیا۔ بچہ اپنی خوبصورتی کے باعث سب کی آنکھوں کا تارا تھا۔ اسی مناسبت سے ان کا نام سید مرغوب علی رکھا گیا۔ دادا حبیب علی راغب جو تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن تھے بچے کو دیکھ کر پھولے نہیں سما رہے تھے۔ اس وقت کسے خبر تھی کہ یہ بچہ ایم اے راحت کے نام سے ڈائجسٹ رسالوں اور ناول نگاری کے آسمان پر ستارہ بن کے چمکے گا۔
ایم اے راحت نے تعلیم ہندوستان کے علمی شہر علی گڑھ اور دہلی میں حاصل کی۔ اردو میں ماسٹرز کیا۔ 1955 میں ہندوستان سے کراچی آئے دو سال پرائیویٹ ملازمت کے بعد لکھنے کی طرف متوجہ ہوئے اور پھر آخر عمر تک لکھتے رہے۔ آپ کا پہلا ناول ’’گوشت کی چٹان‘‘ کراچی سے شائع ہوا۔ شروع میں آپ نے کچھ تراجم کیے۔ پھر ابن صفی صاحب سے متاثر ہو کر عمران سیریز لکھنی شروع کی۔ 1963 سے 1971 تک آپ مسلسل عمران سیریز لکھتے رہے۔ پھر جب ڈائجسٹ کو شہرت ملی تو آپ اسی کی طرف چلے گئے۔ اس وقت ملک میں کل ستائیس ڈائجسٹ شائع ہوتے تھے آپ ان تمام ڈائجسٹ میں لکھتے تھے۔
قارئین کی دلچسپی اور ڈائجسٹ کی مانگ بڑھانے کے لیے سلسلہ وار کہانیوں کا آغاز ہوا تو آپ سے سلسلہ وار کہانیاں لکھوائی گئیں۔ مختلف ڈائجسٹ میں بیک وقت آپ سات آٹھ سلسلہ وار کہانیاں لکھتے رہے۔ آپ کا لکھنے کا طریقہ کار عام طریقے سے بہت مختلف تھا۔ آپ کسی بھی ڈائجسٹ کو کھول کر اپنی قسط وارکہانی نکالتے، اس پر ایک سرسری نظر ڈالتے، اپنا چھوٹا سا ٹیپ ریکارڈر نکالتے، نئی کیسٹ ڈالتے اور اگلی قسط یوں بولنا شروع کردیتے جیسے کہیں لکھا رہے ہوں۔ یوں چند گھنٹوں میں نئی طویل قسط تیار ہوجاتی۔ ان کے پاس پانچ چھ چھوٹے ریکارڈر ہر وقت تیار رہتے۔ وہ باری باری کئی قسط وار ناول بولتے جاتے۔ ایسا لگتا تھا جیسے ناول اور ان کے کرداروں کی قسمت لکھنا ایم اے راحت کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو۔ ہر کردار کی جزئیات، عادات، گفتگو کا انداز انہیں یوں ازبر تھا کہ کہیں کہانی میں جھول محسوس ہوتا تھا نہ کردار اپنی سرشت سے ہٹ کر کوئی کام کرتے تھے۔ بعدازاں شام کو چند طالب علم آتے اور کیسٹ سن کر سب کچھ کاغذ پر منتقل کر دیتے۔ ان کے ناول نگار ہونے کا فائدہ نہ صرف ڈائجسٹ کے مالکان کو ہوتا بلکہ درجن بھر بچے بھی ان کے ساتھ اپنی روزی روٹی کماتے تھے۔
آپ کے قریبی دوستوں کے مطابق آپ بچوں جیسی معصومیت کے ساتھ باتیں کرتے تھے۔ قہقہے لگانا کھانا پینا اور کہانیاں لکھنا ان کی زندگی تھی۔ بڑے کہانی کار ہونے کا زعم یا گھمنڈ نام کی کوئی چیز آپ میں نہیں تھی۔ آپ اپنی کہانیوں کے متعلق بہت کم بات کرتے تھے۔ کبھی کسی سے نہیں کہا کہ تم نے میری کہانی پڑھی؟
آپ کے ڈائجسٹوں کے مالکان آپ کے لکھے ناولوں کے ذریعے اپنے ڈائجسٹ بیچ بیچ کر ارب پتی بن گئے مگر آپ کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ آپ کے قریبی دوست مرزا یاسین بیگ نے ایک بار آپ سے کہا کہ آپ اپنا ڈائجسٹ نکالیں مگر جواب میں آپ نے کہا کہ میرا کہانی کار ہونا ہی میرا وصف ہے۔ میں کہانیاں لکھ کر ہی شانت رہتا ہوں۔ ’’صدیوں کا بیٹا‘‘ (جو جاسوسی ڈائجسٹ میں سلسلہ وار شائع ہوئی) کو بہت شہرت ملی۔ اس کہانی میں تہذیب اور انسانی تاریخ کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مجاہد جانباز نیل کنٹھ طالوت نروان کی تلاش کالا جادو جیسے شاہکار سلسلہ وار کہانیوں نے آپ کی شہرت کو چار چاند لگا دیے۔ آپ نے تقریبا 1500 کے قریب ناول 8000 کہانیاں 500 کے قریب عمران سیریز اور بچوں کے لیے بے شمار کہانیاں لکھیں۔ سب سے زیادہ لکھنے والوں کا اعزاز بھی آپ کے پاس ہے۔
آپ نے بے شمار قلمی ناموں سے لکھا۔ کئی لوگوں نے آپ سے کہانیاں لکھوا کر اپنے نام سے شائع کیں۔ آپ کے ناولوں کو ہندوستان کے پبلشرز نے ہندی ترجمہ کرکے چھاپا۔ کچھ نے پیسے دیے اور کچھ نے فراڈ کیا۔ آپ کہا کرتے تھے کہ انسان اور کائنات کے بارے میں آپ کے ذہن میں جو بھی تصور آئے اس پر میری کوئی نہ کوئی کتاب یا ناول موجود ہوگا۔
فرعون، آسیب نگری، جادو، کالا جادو، طلسم زادی، شہر وحشت، روپ کنڈ کی روپا نگ نگر کی نگینہ، کھلاڑی، کالی دنیا، کائنات اور جھرنے آپ کے بہترین ناول ہیں۔ ٹیلی ویژن کے لیے آپ نے سولہ سیریل لکھے جو آن ائیر ہو چکے ہیں ان میں مشہور اعتراف، الزام، لگام، تلاش، اجالا، جھونکا، صرف تمہارے لیے وغیرہ ہیں۔ مسلسل لکھنے کی وجہ سے آپ کے سر میں گلٹیاں پیدا ہو گئیں جس سے بعد میں برین ٹیومر ہو گیا۔ ڈاکٹر نے آپ کو لکھنے سے منع کیا مگر آپ مجبوراً لکھتے رہے۔ آپ قلم کے مزدور تھے نہ لکھتے تو کہاں سے کھاتے۔ مرض روز بروز بڑھتا گیا مرض کی شدت کی وجہ سے آپ کومہ میں چلے گئے ایک ہفتے تک کومہ میں رہنے کے بعد آپ 24 اپریل 2017 کو خالق حقیقی سے جاملے۔

حصہ