شکر گزاری اچھی خوبیوں میں سے ایک ہے

822

افروز عنایت
مرحومہ ساس کے ذکر پر عشرت کے آنسو امڈ آئے جنہیں انگلیوں کے پوروں سے صاف کرنے کے بعد کہنے لگی ’’اللہ میاں اماں کو جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے، انہوں نے ماں سے بڑھ کر مجھے پیار دیا، بے شک اللہ نے میرا نصیب لکھا تھا، لیکن اماں کا احسان میں کبھی نہیں بھول سکتی۔‘‘
سعدیہ جو بڑی حیرانی سے عشرت کو دیکھ رہی تھی، کہنے لگی ’’تمہاری ساس کے انتقال کو تقریباً ایک سال ہوگیا ہے، لیکن میں جب بھی تم سے ملتی ہوں تم بڑے احترام اور عزت سے نہ صرف نام لیتی ہو بلکہ دعائوں میں بھی انہیں یاد رکھتی ہو، کیا تعلق تھا تمہارے ساتھ اُن کا‘‘۔ اپنی نئی پڑوسن کی طرف دیکھ کر عشرت مسکرائی اور اپنے ماضی میں کھو گئی۔
٭…٭…٭
ریحانہ ہاجرہ کے گھر میں داخل ہوئی تو گھر کے اندر سے لڑنے اور چیخنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہ وہیں ٹھٹھک گئی۔ یہ اس کی رشتے کی نند کا گھر تھا۔ ہاجرہ کی نظر اس پر پڑی تو گھبرا گئی ’’آئو آئو… کیسی ہو ریحانہ… دراصل…‘‘
ہاجرہ کا شوہر جو تھوڑی دیر پہلے بیوی پر بگڑ رہا تھا، ریحانہ کو سلام کرکے گھر سے باہر نکل گیا۔
ریحانہ: خیریت ہے سب… یہ کیا ہے؟
ہاجرہ: ریحانہ تمہیں تو ہمارے حالات کا اندازہ ہے، تم سے کیا چھپانا، اللہ تمہارا بھلا کرے تمہاری مدد سے ہی یہ دونوں بچیاں اسکول تو جارہی ہیں، اب ان کے ابا نے بڑی کا رشتہ ایک رنڈوے، چار بچوں کے باپ سے کرنے کا سوچا ہے۔
یہ کہہ کر ہاجرہ زارو قطار رونے لگی۔ سامنے بھیگی بلی کی طرح کونے میں دبکی عشرت سسکیاں لے رہی تھی۔ ریحانہ کو اس پر بڑا ترس آیا کہ غربت کی وجہ سے اس کا باپ یہ قدم اٹھانے پر مجبور ہوگیا۔ ریحانہ ایک خداترس عورت تھی، اسے اپنی اس رشتہ دار کی بچی کی بے بسی پر رحم آگیا۔ بچی شکل صورت کی بھولی تھی، اس نے دل میں ارادہ کیا کہ وہ اسے اپنی بہو بنائے گی۔ گھر آکر اس نے تمام ماجرا شوہر کو سنایا اور اپنے ارادے سے بھی آگاہ کیا۔ اس طرح اللہ نے عشرت کے بھاگ جگا دیے، وہ غربت کے اندھیروں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئی۔ ماں نے رخصتی کے وقت بیٹی کو نصیحت کی کہ بیٹی بے شک تیرا نصیب اللہ نے بنایا ہے، لیکن زندگی میں اس عظیم عورت کے احسان کو نہ بھولنا جس نے تجھے کیچڑ سے نکال کر گلے لگایا ہے۔ عشرت نے ماں کی نصیحت کو گرہ میں پختگی سے باندھ لیا۔ اس نے ایک بیٹی کی طرح ساس سسر کی خدمت ہی نہیں کی بلکہ احترام و عزت کا وہ مقام دیا جو سگے ماں باپ کا ہوتا ہے۔ اپنی اولاد کو بھی دادی دادا سے محبت کرنے کی تلقین کی کہ وہ بچے دادا دادی کے گرویدہ ہوگئے۔ اٹھتے بیٹھتے وہ ساس کے اس احسان کا اعتراف کرتی رہتی۔ اس طرح یہ محبتوں بھرا رشتہ ساس سسر کی زندگی تک محدود نہ رہا بلکہ اب جب اس کے اپنے بچے بھی بال بچوں والے ہوگئے تھے، وہ ساس سسر کے احسان کی شکر گزاری کے لیے اُن کی مغفرت و بخشش کی دعا مانگتی۔ اکثر ساس کو یاد کرکے رو پڑتی۔ بچے اکثر کہتے: مما آپ دادو سے اتنا پیار کرتی ہیں، کیا وہ بھی آپ سے پیار کرتی تھیں؟ عشرت ہنس کر کہتی: اس عورت نے مجھے جو عزت و مان دیا میں تو اس کا احسان اتارنے سے قاصر ہوں، اگر اماں مجھ پر یہ احسان نہ کرتیں تو نہ جانے میرا کیا حشر ہوتا۔ بے شک اللہ نے میرا نصیب سنوارا، لیکن جس طرح اماں نے شادی کے بعد بھی مجھے عزت اور پیار سے نوازا، میرے شوہر کو میری طرف توجہ دینے کی تلقین کی، ان کا یہ احسان میں زندگی بھر نہیں بھلا سکتی۔
٭…٭…٭
عشرت کی یہ تربیت اور اعلیٰ ظرفی کہی جا سکتی ہے کہ وہ اپنی ساس کے احسان کو فراموش نہیں کرپائی۔ بے شک جو شخص اللہ کے بندوں کا احسان نہیں مانتا وہ رب کے احسان کا کیا شکر ادا کرتا ہوگا! کسی کا احسان نہ ماننا تکبر کی نشانی ہے۔ بہترین انسان کی یہ نشانی ہے کہ وہ اُس بندے کا ہمیشہ شکر گزار رہتا ہے اور اچھے الفاظ میں اُس کا ذکر کرتا ہے جس نے اس پر تھوڑا سا بھی احسان کیا ہو۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرتا۔‘‘ (ترمذی)
یعنی بھلائی کرنے والوں کا احسان ماننا اور ان کا شکر ادا کرنا بہترین اخلاقی خوبی ہے۔ اس خصلت کے بندے ہر وقت اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہتے ہیں۔ اگر زندگی میں کچھ کمی بیشی رہ جائے پھر بھی زبان سے الحمدللہ ہی کہنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ایک مرتبہ شیخ سعدیؒ کہیں سے گزر رہے تھے۔ ان کے پیروں میں چپل (جوتا) نہیں تھی۔ اوپر دیکھا، اللہ سے شکوہ کیا کہ دیکھ اللہ تیرا بندہ ہوں پائوں میں جوتی نہیں ہے۔ آگے بڑھے تو ایک ایسے شخص پر نظر پڑی جس کے دونوں پائوں نہ تھے۔ شیخ سعدیؒ نے شکر ادا کیا کہ اے اللہ تیرا احسان ہے کہ تُو نے پائوں دیئے۔ بے شک رب العزت کے ہم پر بے شمار احسانات ہیں، جن کا ہم بدلہ تو نہیں دے سکتے لیکن اس کا عبادت اور ذکرِ الٰہی کے ذریعے شکر ادا کرسکتے ہیں۔ اسی طرح بندہ بندوں کے کیے احسان کو دل سے مانے۔ اگر اس احسان کا بدلہ چکانے کے قابل نہیں ہے تو کم از کم ان کا شکر ضرور ادا کرے، اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرے، جیسا کہ اوپر بیان کیے گئے واقعے سے واضح ہے۔ اور اللہ تبارک وتعالیٰ کو بندوں کی یہ عادت پسند ہے۔ جو لوگ ایسا نہیں کرتے یا اُن کی خصلت میں احسان فراموشی پائی جاتی ہے، یا وہ سامنے والے کے احسان اور بھلائی کو یکسر ماننے سے ہی انکار کرتے ہیں وہ دراصل تکبر کرتے ہیں، جو رب العزت کو سخت ناپسند ہے۔ دیکھا جائے تو تکبر اور فخر بہت سی برائیوں کی جڑ ہے۔ شیطان، اللہ کے تمام احسانا تکو بھلا کر انکار کرنے کا موجب بنا، جو دراصل اس کا ’’تکبر‘‘ ہی تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام کے اس واقعے سے واضح ہے کہ تکبر و غرور شیطانی خصلت ہے۔
صحیح بخاری کی حدیث ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ اُس کی طرف قیامت کے دن نظرِ رحمت نہیں کرے گا جو اپنا کپڑا تکبر و غرور سے زمین پر گھسیٹ کر چلتا ہے۔‘‘
اس کے برعکس شکر گزاری اور احسان مندی کے جذبات رکھنے والے لوگ اپنے اردگرد ماحول کو بھی خوشگوار بناتے ہیں، مثلاً جو عورت اپنے شوہر کے حسنِ سلوک اور احسان کا اقرار کرتی اور شکر ادا کرتی ہے نہ صرف وہ اپنے گھر کے ماحول میں خوشگواری کی چاشنی بکھیرتی ہے بلکہ رب العزت کی رضا بھی حاصل کرتی ہے۔ اس کے برعکس شوہر کے احسانات کی منکر اور ناشکری عورت اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا سے بھی محروم ہوجاتی ہے۔ آپؐ کی حدیثِ مبارکہ کے مطابق جہنم ایسی عورتوں سے بھری ہوگی جو شوہر کی ناشکری ہوں گی۔
احادیث سے واضح ہے کہ کسی کے احسان اور بھلائی کو ماننا اور اس کا شکر ادا کرنا بہترین خوبی ہے۔ آج ہمارے چاروں طرف ایسے لوگ موجود ہیں جو لوگوں سے بھلائی کرتے رہتے ہیں، لیکن اُن کی یہ خوبی ہے کہ وہ اسے جتاتے نہیں۔ اور احسان لینے والے جو اپنے محسن کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، دل میں اس کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ خصوصاً علم یا کوئی ہنر سکھائے اُس کا اعتراف کرنا اور اس بندے کی عزت کرنا اخلاقی خوبیوں میں سے ایک ہے۔ لیکن معذرت کے ساتھ، مجھے اپنے چاروں طرف کچھ ایسے نفوس بھی نظر آتے ہیں جو بالکل منکر ہوجاتے ہیں اپنے محسن کے احسان سے۔ خوشگوار تعلقات استوار کرنے کے لیے یہ چھوٹے چھوٹے الفاظ بہترین چیزیں اور خوبیاں ہیں ’’آپ کا شکریہ‘‘، ’’آپ کی مہربانی کہ آپ سے مجھے یہ خوبی حاصل ہوئی‘‘، ’’میں زندگی بھر اپنے استاد محترم کی احسان مند رہوں گی اور ان کے لیے دعاگو رہوں گی جن سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا‘‘۔ ویسے بھی بقول حضرت علیؓ جس نے کسی کو ایک لفظ بھی سکھایا وہ روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے۔ رب العزت ہم سب کو بھی اللہ کے اُن بندوں میں شامل کرے جو اپنے محسنوں کو اچھے الفاظ میں یاد کرتے اور اُن کی عزت کرتے ہیں۔ آمین!

حصہ