شریکِ مطالعہ، ٹنڈو آدم سے کراچی، ایک عام آدمی کی آپ بیتی

393

نعیم الرحمن
(دوسرا اور آخری حصہ)
اسی طرح مسلسل سائیکل چلانے کے مظاہرے کا ذکر بھی ناسٹلجیا کو دعوت دیتا ہے۔ سائیکل چلانے والا پہلے اپنی ہی سائیکل پر خود ہی اعلان کرتا اور سائیکل چلانے کی جگہ اور تاریخ بتاتا۔ پھر سائیکل چلانا شروع کر دیتے۔ سائیکل پر ہی کھانا کھا رہے ہیں، چائے پی رہے ہیں۔ نہانا اور کپڑے تبدیل کرنا بھی سائیکل پر۔ اس کے علاوہ کچھ کرتب وغیرہ بھی دکھا رہے ہیں۔ ایک ہفتے بعد وہ خود تو سائیکل سے اتر نہیں پاتے تھے۔ لوگ انہیں اتارتے اور انعام و اکرام دیا جاتا۔ بہروپیہ بھی ایک فن تھا۔ بہروپیے مختلف سوانگ بدل کر شہر میں گھومتے اورفن کی داد حاصل کرتے تھے۔
اپنے اساتذہ کرام کے مختصر تذکرے میں ڈاکٹر صاحب نے خاکہ نگاری کے فن کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ شمس الدین صاحب کا ذکر یوں ہے کہ ’’کلین شیو، گندمی رنگ، درمیانہ قد، کم گو، با وقار، عمدہ لباس۔ وہ سائیکل پر سوار دو کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے اسکول آتے۔ کوٹ‘ پتلون اور ٹائی اُن کا پسندیدہ لباس، نفیس طبیعت کے مالک تھے۔ شاگردوں سے بے تکلف بھی نہ ہوتے اور شاگرد بھی ان سے خوفزدہ نہ ہوتے۔ ان کا اٹھنا، بیٹھنا، پڑھانے کا انداز، ان کی بات چیت کا انداز، اساتذہ اور شاگردوں سے برتاؤ مثالی تھا۔ مار پیٹ کا کبھی سہارا نہ لیتے نہ کبھی ڈانٹتے ہوئے دیکھا نہ غصہ کرتے ہوئے۔‘‘
کیا اس مختصر تحریر میں ایک عمدہ خاکہ موجود نہیں ہے؟ اپنے دیگر اساتذہ کا ذکر بھی ڈاکٹر صاحب نے اسی دل نیشن انداز میں کیا ہے جس میں اُن کا سراپا طالب علموں کے ساتھ رویہ اور پڑھانے کا انداز اور ذاتی فطرت قاری پر واضح ہو جاتی ہے۔ میٹرک کا رزلٹ آیا تو والدہ نے بچوں کی تعلیم کی خاطر حیدر آباد منتقل ہونے کا فیصلہ کر لیا اور مخالفت کے باوجود اس پر عمل بھی کر گزریں۔
والدین اولاد کے لیے کیا جوکھم اٹھاتے ہیں‘اس کا ادراک کبھی اولاد کو نہیں ہوتا اور ماں کی ہستی کیا ہوتی ہے، ہم اسے بھی نہیں سمجھ پاتے۔ رضوان اللہ صاحب کی والدہ انہیں ڈاکٹربنانے کے لیے ایک عزم وحوصلے کے ساتھ ٹنڈوآدم سے حیدرآباد منتقل ہوئی تھیں۔لیکن موصوف نے فیصلہ کیا اور انٹرکے امتحانات کے لیے محنت ہی نہیں کی کہ نہ نمبرآئیں گے اور نہ میڈیکل میں داخلہ ہوگا۔ لکھتے ہیں کہ ’’آج سوچتا ہوں تو گھن آتی ہے۔ رزلٹ آیا تواٹھاون فیصد نمبر آئے۔ این سی سی کا سرٹیفیکیٹ بھی اسی سازش کے تحت نہیں لیا تھا داخلے کے لیے این سی سی کے بیس نمبر پر بھی گئے۔ اب تو میڈیکل میں داخلہ ناممکن ہے۔ والدہ کہتیں ان شا اللہ داخلہ مل جائے گا۔ کچھ دن بعد میرٹ لسٹ لگی۔ نوٹس بورڈ پر دیکھا۔ ضلع سانگھڑ میں میرا نمبر 52 ہے اورسیٹیں 42 ہیں۔ میں مطمئن ہو کر واپس آگیا۔ والدہ کا اب بھی یہی جواب کہ ہوجائے گا ایڈمیشن ۔ چند دن بعد انٹرویوز ہوئے تو وہی معاملہ تھا۔ انٹرویو تو رسمی ہوتے تھے۔ فیصلہ تومیرٹ لسٹ کے مطابق ہی ہوتا تھا۔ دو ہفتے بعد ایک خط یونیورسٹی کے پتے پر آیا جس میں میڈیکل کالج میں داخلے کی اطلاع اورفیس جمع کرانے کی آخری تاریخ دی گئی تھی۔ میڈیکل کالج کی فائنل لسٹ میں بھی میرانام موجود تھا۔ آفس سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ پہلی لسٹ این سی سی کے بیس نمبر شامل کرکے بنائی گئی تھی اور انٹرویو بھی اسی لسٹ کے مطابق ہوئے تھے۔ لیکن اب گورنمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ این سی سی کے نمبرآئندہ سال سے شامل کیے جائیں گے۔‘‘ یوں رضوان اللہ صاحب کی تمام کاوشیں رائیگاں گئیں اور ان کی والدہ کا یقین اور عزم سرخرو ہوگئے۔
ٹنڈوآدم سے کراچی ایسے بے شمار سبق آموزواقعات سے بھرپور ہے اور کسی وقت بھی قاری کی توجہ ہٹنے نہیں دیتی۔ کتاب کے ہر باب کے اختتام پر ڈاکٹر صاحب نے اس دور میں متعارف ہونے والی اہم شخصیات کے مختصر اور بعض طویل خاکے لکھے ہیں جن میں ایک بھرپور خاکہ نگار نظر آتا ہے اور ایسا نہیں لگتا رضوان اللہ صاحب کی یہ پہلی تحریر ہے۔ وہ مستقبل میں مزید خاکے بھی لکھ سکتے ہیں۔ کتاب کا پانچواں باب ’’چند انمول ہستیاں‘‘ تو ہے ہی مختلف افرادکے خاکوں پر مبنی جن میں اوّلین خاکہ والدہ کے بارے میں ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’’جب وہ بیوہ ہوئیں تو اُن کی عمر تیس سال بھی نہیں تھی۔ انہوں نے کیا کیا نہ سہا اور کیا کیا نہ دیکھا۔ وہ باتیںاب بھی دہرائی جائیں تو ان کو کوفت ہوتی ہے۔ ان کا حال کیا ہوتا ہوگا جب کوئی ان کے سامنے ان کی اولاد کے بٹوارے کی بات کرتا ہوگا۔ لیکن انہوں نے سب کچھ بہت تحمل سے برداشت کیا اور اپنے عمل سے بولنے والوں کی زبان پر تالے ڈال دیے۔ کبھی گھر سے قدم نہ نکالا، بچوں کو تعلیم دلانے کا جو جنون ان کو تھا اس کے لیے انہوں نے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔ خود بے انتہا محنت کی اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد بس اپنی کامیابی پر مسرور اور شاداں ہیں۔ کسی توقع اور صلے کے بغیر۔ بولنا کم اورکام زیادہ اور اللہ کی ذات پر بھروسہ اس جہانِ زندگانی میں ان کے ہتھیار تھے۔ دو باتیں یا خوشیاں ایسی ہیں جو مجھے کوئی اور نہیں دے سکتا۔ ایک یہ کہ ان کی نظر میں‘ میں دنیا کا سب سے اچھا ڈاکٹر ہوں اور وہ صرف مجھ سے علاج کرانا پسند کرتی ہیں اوردوسری یہ کہ میں اُن کے سامنے آج بھی بچہ ہوں۔ مجھے ڈاکٹر بنانے کے لیے کتنے جتن اورکتنی قربانیاں انہوں نے دی ہیں اُن کا شمار ممکن نہیں۔

میرے سا دکھ اور صدمے مجھ سے بڑھ کر سہتی ہے
چاہت کی خوشبو سے اس کی دل کی ندیا بہتی ہے
ایسی بے لوث محبت کس ہستی سے مل سکتی ہے
چلتے وقت دعائیں دے کر مجھ کو رخصت کرتی ہے
مجھ کو بڑھاپے کی سرحدسے کھینچ کے واپس لاتی ہے
بیٹا بیٹا کہہ کر مجھ کو بچپن یاد دلاتی ہے
اس کی دعائیں میری خوش بختی کی نوید بنی ہیں
اس کے تبسم کی کرنیں ظلمت کی تمہید بنی ہیں

ماں کی نعمت کادنیا میں کوئی نعم البدل نہیں اور وہ لوگ خوش قسمت ہیں جنہیں ماں کی دعائیں میسر ہیں اور وہ اس کی قدر بھی جانتے ہیں۔ ڈاکٹر رضوان اللہ نے بھی والدہ کا ذکر کتاب میں بار بار اور بہت محبت سے کیا ہے۔ اس باب میں انہوں نے والدہ کے علاوہ بہن نگہت اور اہلیہ روبینہ کا بھی ذکرِ خیر کیا ہے۔ ڈاکٹر رضوان اللہ کے بھائیوں سے بڑھ کر دوست ڈاکٹر واحد بلوچ تھے۔ اُن کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’میں جذباتی وہ متحل، میں ترش وہ میٹھا، میں شور مچانے والا وہ خاموش، میں غصہ والا وہ خوش دل۔ میرا ہمدم وہ مراز، ہم نوالہ و ہم پیالہ، میرا ساتھ نبھانے والا، میری ہاں میں ہاں ملانے والا۔ میرا دلبر میرا جانی‘ میں آگ وہ پانی۔ یہ آگ اور پانی والی بات میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا ہوں یہ میرے اور ان کے رہنما اور مرشد نے کہی تھی۔ 33 برس کی رفاقت کے بعد وہ وہاں چلا گیا جہاں بالآخر ایک نہ ایک دن سب کو جانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر ہمیں اپنا سر جھکانا ہے۔ وہ بہتر جاننے والا ہے۔1984 میں جس کہانی کا آغاز ہوا وہ 6 جنوری 2018 کو اچانک بظاہر اختتام پذیر ہو گئی۔ دوستی کے بارے میں بہت کچھ پڑھا بھی ہے اور سنا بھی مگر بچپن میں پڑھی ایک کہانی نے میرے ذہن میں دوستی کا معیار قائم کر دیا تھا۔ اس سے کم پر میرا ذہن کبھی تیار ہی نہیں ہوا۔ اسکول، کالج، میڈیکل کالج اور ملازمت کے دوران بے شمار لوگوں سے تعلقات بھی رہے‘ ملنا جلنا بھی رہا‘ ایک دوسرے کے خوشی اور غم میں شریک بھی ہوئے۔ کچھ سے تاحال مراسم قائم ہیں اور کچھ بچھڑ گئے ہیں۔ واحد بلوچ میری دوستی کی کہانی کا مثالی کردارحقیقت کا روپ دھار کر میری زندگی میں داخل ہوا۔ مجھے احساسِ تحفظ مل گیا تھا۔ 34 برس سے زیادہ ہم نے اس طرح شیر و شکر ہو کر گزارا کہ ہم ایک دوسرے کی پہچان بن گئے۔ وہ میرے خاندان کا فرد اور میں اس کے خاندان کا فرد بن گیا۔‘‘
آج کے دور میں ایسے مثالی دوست کا مل جانا بھی ایک بڑی نعمت ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے ایک ایک لفظ سے ڈاکٹر واحد بلوچ کے لیے جو محبت اور وارفتگی عیاں ہے‘ اُس سے مرحوم کی مثالی شخصیت قاری پرواضح ہوجاتی ہے اور یہی ’’ٹنڈو آدم سے کراچی‘‘ کے مصنف کی تحریر کا جادو ہے۔
آخری باب ’’پڑی گوشِ جاں میں عجب نگاہ‘‘ کے بارے میں ڈاکٹر رضوان اللہ کا کہنا ہے کہ ’’اس باب میں کچھ ایسی شخصیتوں کا ذکر ہوگا جو دنیا کی حقیقت کو سمجھ چکے تھے اور جو اپنی جھکی ہوئی نگاہوں میں سارا عالم چھپائے بیٹھے تھے اور جن کی صحبت میں بنا پوچھے مجھے میرے ان سوالوں کے جواب مل گئے جنہوں نے ذہن کی الجھنوں کو سلجھا دیا۔ ایسے واقعات اور مشاہدات ہوئے جنہوں نے مجھے ورطۂ حیرت میں مبتلا کر دیا اور ہو سکتا ہے کہ پڑھنے والے کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو۔ جب میں ان باتوں کو اُن ہستیوں کے ساتھ منسوب کرتا تھا تو وہ مجھے ہمیشہ یہ نصیحت کرتے تھے کہ کرنے والی ذات اس قادرمطلق کی ہے‘ آپ کادھیان اُسی طرف رہنا چاہیے۔ ہم توایک ذریعہ ہیں‘ وہ مالک جس سے چاہے کام لے۔‘‘
ان اہلِ تصوف کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے‘ یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔‘‘ اس باب میں کئی اہل ِ تصوف کا ذکر ِ خیر ہے لیکن اُن میں کرامات کے بجائے عام زندگی کے واقعات ہیں جن میں بعض انسانی فہم سے بالا تر ضرور ہیں تاہم ان کے بیان میں تصرف اور بڑھا چڑھا کرپیش کرنے کا گمان نہیں ہوتا۔ اس باب کا موازنہ اشفاق احمد کی کتاب ’’باباصاحبا‘‘ سے کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر رضوان اللہ خان کو اتنی دل چسپ اور ریڈایبل آپ بیتی لکھنے پر مبارک باد۔ انہوں نے کوئی اور کتاب نہ بھی لکھی تو ’’ٹنڈو آدم سے کراچی‘‘ انہیں اردو ادب میں زندہ رکھے گی۔ راشد اشرف صاحب کو بھی زندہ کتابیں میں اسے شائع کرنے پرخراج تحسین پیش کیاجاناچاہیے۔

غزلیں

ڈاکٹر باقر رضا

فکرِ سخن پَر تول رہی ہے سنیے تو
خاموشی لب کھول رہی ہے سنیے تو
شہر کے ہنگاموں کے پیچھے اک کوئل
کانوں میں رَس گھول رہی ہے سنیے تو
کتنی صدائیں دامنِ دل کو کھینچتی ہیں
دانشِ حاضر بول رہی ہے سنیے تو
جنسِ شعورِ وقت کا کوئی مول نہیں
بات بڑی انمول رہی ہے سنیے تو
ممکن ہوتے امکانوں کی دستک پر
روحِ زمانہ بول رہی ہے سنیے تو
شور ستائش برپا ہے میزانِ ہنر
نقدِ سخن کو تول رہی ہے سنیے تو
کیا یہ ستارے جھلمل جھلمل کہتے ہیں
کیوں یہ کلی لب کھول رہی ہے سنیے تو
یادوں کی طوفانی لہریں گھیرے ہیں
دل کی نیّا ڈول رہی ہے سنیے تو
اہلِ جنوں کے نغمۂ جاں سے یہ دنیا
خوشیوں کا ماحول رہی ہے سنیے تو
جانِ غزل نے سازِ غزل کو چھیڑا ہے
روحِ غزل اب بول رہی ہے سنیے تو
باقرؔ اپنے مرنے اور جینے کی کتھا
درویشی کشکول رہی ہے سنیے تو

نجیب ایوبی

حوصلہ جینے کا یارو کب سبھی میں ہے بہت
یہ ہنر کم ہے کسی میں تو کسی میں ہے بہت
تیرگی میں ہے بہت اس اک دیے کی روشنی
اک دیے کی روشنی اس تیرگی میں ہے بہت
ہے مرا ذہنی خلل یا پھر خیال یار ہے
دونوں کا ہی دخل اس دیوانگی میں ہے بہت
نیند میں چلنے کی عادت نے مجھے رسوا کیا
یہ مگر سچ ہے مزا آوارگی میں ہے بہت
آئنہ خانے میں رکھی ہیں سب اچھی صورتیں
عکس جیسا بھی ہو اس بے چہرگی میں ہے بہت
دیکھیے انجام کیا ہو اس محبت کا نجیبؔ
آنا جانا آج کل اس کی گلی میں ہے بہت

گل افشاں

مجھ کو خالی کمرہ اچھا لگتا ہے
اور اندر سے تالا اچھا لگتا ہے
پیار اگر حساس نہ ہو تو کیا حاصل
دل تو ٹوٹا پھوٹا اچھا لگتا ہے
سگریٹ کی بُو مجھ کو اچھی نہیں لگتی
پر وہ سگریٹ پیتا اچھا لگتا ہے
اُس کی یادیں چاندی سونا جیسی ہیں
لڑکی ہوں سو گہنا اچھا لگتا ہے
سوچتی رہتی ہوں کہ میری سوچوں میں
تیرا آنا جانا اچھا لگتا ہے
جس دن سے میں بڑی ہوئی ہوں گل افشاں
اُس دن سے ہر بچہ اچھا لگتا ہے

حصہ