سوشل میڈیا اور PUBGکی نئی دنیا

860

پاکستان انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے ۔ یہ جملہ آپ نے کئی بار سنا ہوگامگر پاکستان کے سماجی میڈیا پر تو یہ آئے ہفتہ کسی نہ کسی شکل میں وارد رہتا ہے۔ ذرا پی ٹی ایم نے حرکت کی وہاں ملکی سالمیت کو خطرات لاحق ہونا شروع ہو جاتے ہیں ۔ذرا بلاول بھٹو کوئی بیان ، کوئی تیکھا جملہ بول دیں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تو ہر سوہل چل مچ جاتی ہے ۔یکم مئی مزدوروںکے عالمی دن کے طور پر امسال بھی ان کی بے بسی کو ظاہر کرتا اور ایک ایسے طبقے کی جانب سے اس کے حق میں آواز بلند کرتا نظر آیا جو ناقابل بیان ہے۔ہمارے دوست عبد السمیع قائم خانی لکھتے ہیں کہ :’’یوم مزدور پر ان دو خواتین کو ضرور خراج تحسین پیش کریں۔ایک تو وہ جسکا شوہر ریٹائرڈ فوجی، سول سرونٹ اور دو بار ایم این اے رہا لیکن اسکی باہر تو کیا پاکستان میں بھی کوئی پراپرٹی نہیں۔ دوسری وہ جس نے سخت محنت کی بدولت سلائی مشینوں کی کمائی سے نیو جرسی میں فلیٹ خریدے۔‘‘اسی طرح اس ہفتہ وفاقی حکومت میں شامل ایک اہم جماعت ایم کیو ایم نے کراچی میں وہ بھی باغ جناح میں طویل عرصہ بعدمحرومی کا نعرہ لگا کر سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی جس پر صرف یہ خوبصورت تبصرہ ہی کافی ہے: ’’ایم کیو ایم کا اب بھی یہ ہی مسئلہ ہے۔”سب سے مخلص رہنے کے بعد بھی مجھے کبھی سچا پیار نہیں ملا‘‘۔
ویسے اس ہفتہ سیاسی طور پر تو حقیقت میں ہماری پاک افواج ہی سماجی میڈیا کے دائرہ کار پر چھائی رہی۔جنرل آصف کی جانب سے مدارس کنٹرول والا بیان ہو یا پی ٹی ایم کی فنڈنگ پر سوالات کی صورت۔ دکھ کی بات میرے لیے صرف یہ رہی کہ پاک فوج کی جانب سے اٹھائے گئے اہم سوالات کے حق میں بھر پور مہم چلانے والے بھی دلائل کی زبان میں بات کرنے سے گریزاں صرف جذباتی پوسٹنگ ہی کرتے نظر آئے ۔ دوسری جانب سیکولر و لبرل لابی کے تمام نمائندے بھر پور دلائل کے ساتھ میدان میں اُترے رہے ۔ویسے ایک اہم بات یہ نوٹ کی ہے کہ لاپتہ افراد کے حوالے سے یا ان کی بنیاد پر کھڑی ہونے والی پی ٹی ایم کی سپورٹ میں جو لوگ سر فہرست رہتے ہیں وہ اتفاق سے سب ایک ہی ذہن کے لوگ ہیں ، دوسری بات یہ کہ سائبر قوانین کے ہوتے ہوئے بھی ان کے خلاف کبھی کچھ کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔سماجی میڈیا ٹیم کے ذریعہ غداروں پر پابندی کا مطالبہ اپنی جگہ تاہم ایسے افراد کیخلاف کارروائی نہ کرنا خود سوالیہ نشان ہے۔اب آپ اسے پی ٹی ایم کی اہمیت کہیں گے یا ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کی اہمیت کہ وائس اآف امریکہ کو ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں پی ٹی ایم پر لگائے گئے الزامات کا جواب لینے کے لیے نیلوفر مغل نے پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما منظوراحمد پشتین کے ساتھ فیس بک لائیوانٹرویو کیا جس کو کوئی نولاکھ لوگوں نے دو دن میں دیکھااور کوئی نو ہزار کے قریب شیئرنگ ہوئی ۔پھر چیف آف آرمی اسٹاف کا بیان بھی آگیا انہوں نے پی ٹی ایم کو بڑا مسئلہ قرار ہی نہیں دیا۔اس تناظر میں معروف بلاگر کاشف نصیر لکھتے ہیں کہ :’’چوہدری شجاعت حسین کہتے ہیں کہ اکبر بگٹی کے ساتھ مذاکرات میں پیش رفت ہورہی تھی مگر پھر آپ نے اچانک سیاسی لوگوں کو پیچھے کرکے آپریشن شروع کردیا۔ بوڑھا اکبر بگٹی مارا گیا اور اسکے مرتے ہی بلوچستان میں آگ بھڑک اٹھی، جسکی راکھ اب بھی گرم ہے۔لال مسجد گھیراؤ کے آخری دنوں میں سول انتظامیہ، غیرجانبدار علماء اور جامعہ فریدیہ کے ذمہ داروں کے مابین مذاکرات کامیاب ہوگئے تھے مگر آپ نے اچانک دھاوا بول دیا۔ عبدالرشید غازی کو اسکے سیکڑوں ساتھیوں سمیت موت کی وادی میں سلادیا گیا مگر اگلے دس سال قوم تو قوم، آپکی اپنی نیندیں بھی حرام ہوگئیں۔ہماری ریاست کا سب سے بنیادی ستون منظور پشتین کو تکریم کیساتھ اپنے یہاں بلاتا ہے، اسکی بات سنتا ہے اور بات کو آگے بڑھانے کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔ ملک کا وزیراعظم کہتا ہے کہ پی ٹی ایم کے سارے مطالبات بالکل درست ہیں اور پھر آپ کہتے ہیں کہ “اب سب ختم”۔آپ آخر چاہتے کیا ہیں؟اس پورے ایشو میں بلکہ اتفاق سے کچھ پہلے سے جاری معصوم نشویٰ والے معاملے پر بھی جبران نصر انتہائی فعال کردار ادا کرتے نظر آئے ۔شیعہ مسنگ پرسن کے دھرنوں میں وہ ایک کلیدی شخصیت کے طور پر کھڑے رہے اور ان کے سماجی میڈیا پر معتقدین ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔اہم بات یہ تھی کہ نشویٰ کیس فوراً ہی پس پشت چلا گیا جبکہ حسن اتفاق سے نشویٰ کے بعد طبی لاپرواہی کے لگاتار دو کیسز کراچی میں مزید سامنے آئے تھے۔اسی طرح لاڑکانہ کا سنگین واقعہ بھی اس طرح سے موضوع نہیں بنا جس میں ایچ آئی وی کے وائرس کا شکار بچوں کے ڈاکٹر نے مبینہ بدلہ لینے کی خاطر اپنی استعمال شدہ سرنج سے کوئی ستر کے قریب بچوں میں یہ وائرس پھیلا دیا۔اس پر خوب بات ہونی چاہیے تھی کیونکہ سندھ میں صحت کے نظام میں یا وزارت کی جانب سے چیک کے حوالے سے یہ ایک تحریک چلانے کا بہترین موقع تھا۔افسوس کہ موضوع نہیں بن سکا ۔ سیاسی منظر نامہ بدستور چھایا رہا۔ اسی دوران پیٹرول کی قیمتوں میں بڑے اضافے کا اعلان بھی سامنے آیا جس پر حکومت نے عمل درآمد روک دیا۔ عین ممکن ہے کہ رمضان میں یا س کے بعد یہ بڑا بم گرایا جائے گا۔اسی طرح موبائل فون کے لوڈ پر ٹیکس لاگو ہونے کا غم بھی ایک دن کے لیے لوڈ کرنے کے بائیکاٹ کی اپیل کے ساتھ ٹرینڈ کی صورت ابھرا نظرا ٓیا۔ اب اس سے ٹیلی کام کمپنیز کو کیا نقصان ہوا یہ تو قابل تحقیق موضوع ہے۔
صہیب جمال نے پے درپے واقعات کے تناظر میں اپنی فیس بک وال پر دعائیہ اور درخواست کرنے کے انداز میں ملک چلانے والی اہم قوتوں سے کھلی اپیل کر ڈالی :’’مسٹر اسٹیبلشمنٹ۔ کیا ہمیں سمجھ نہیں آتا ؟بالکل سمجھ آتا ہے ، ایک طرف کراچی میں سندھ کی تقسیم دوسری طرف اندرونِ سندھ میں جئے سندھ کا جاگنا علیحدگی کا نعرہ لگانا ، وردی کو گالی دینا ، پختونخواہ میں بھی قوم پرستی کو نئی زندگی ملنا ، بلوچستان میں سخت سیکیورٹی کے باوجود فورسز کے لوگوں کا قتل ، ہزارہ برادری کو نشانہ بنانا۔وہی 85 والی کہانی پھر شروع ہے ، قومی سیاسی پارٹیوں کو صرف بناوٹی کرپشن کے شور میں مصروف رکھنا ، ملک کی سیاست کو غیر اہم بنانا ، پنجاب میں اکثریت پر اقلیت کو فوقیت دینا ، یہ سب گورے کی پرانی چال ہے ، لڑاؤ اور حکومت کرو۔اپنے غلط فیصلوں اور من مانیوں پر چادر نہ ڈالیں ، خدا کے لیے اس ملک اور عوام پر رحم کریں۔آپ ہمیشہ عوام کے مخالف کھڑے ہوتے ہیں خدا کے لیے کبھی عوام کی طرف بھی کھڑے ہو جائیں۔‘‘
فیض اللہ خان نے بھی متوجہ کرتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا پر احساس رمضان، باران رحمت ، شان رمضان جیسے عنوانات کے ساتھ رمضان کے تقدس کی پامالی کی جانب توجہ دلاتے ہوئے لکھا کہ :’’ تمام نشریاتی اداروں میں ” بیچو رمضان ” کی اشتہاری مہم شروع ، ٹھمک ٹھمک کر رمضان ترانے تیار کئِے جارہے ہیں۔ رنگیلے بھڑکیلے کپڑے پہنے ڈسکو نعت خواں ، سال بھر سیکیولر ازم کے پرچارک لال سرخ ریڈ پیلے گلابی کرتے پہنے اینکرز مافیا۔ اپنے اپنے اداروں کی آمدنی گزشتہ رمضان سے بڑھانے اور آگے لیجانے کے ٹاسک کیساتھ تن من دھن سے میدان میں اتر چکے۔نوٹ:دوران رمضان اینکر مافیا ” فتوے ” بھِی جاری کریں گے اور تیسرے درجے کے گھٹیا مولوی مسلکی اختلافات پہ تیل ڈال کر کتے پن کی انتہا ء پہ جائیں گے ریٹنگ میں اضافے اور مسلمانوں کی لعن طعن کا سبب بنیں گے ، اس گند کا سربراہ عامر لیاقت پی ٹی وی سے اسلام بیچے گا۔‘‘
ویسے سماجی میڈیا کی بھی اپنی کئی دنیائیں آبادہیں ہم تو صرف سیاسی و سماجی موضوعات میں ہی گھرے رہتے ہیں ۔ویسے پاکستان میں بنتے ہی ٹرینڈز ایسے ہیں ۔ بہت زیادہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی مشہور ہالی ووڈ فلم جیسے گیم آف تھرونز اس کے کرداروں ، کھیلوں و دیگر موضوعات پر بھی پاکستان میں ٹرینڈ بن جاتے ہیں ۔ بہر حال ٹائٹل کی مناسبت سے میں لیے چلتا ہوں اس وقت دنیا بھر کے والدین کے لیے ایک انتہائی اہم مسئلہ کی جانب جس کا راستہ سماجی میڈیا کی بدولت ہی کھلا ہے۔PUBGکی دنیا۔ نام کی تفصیل یہ ہے Players Unknown Battle Ground ۔ ویسے تو قران مجید نے تمام لغویات پر سختBANلگایا ہے اور لغو کی سادی تعریف مفسرین نے یہ بتائی ہے کہ وہ عمل جو آپ کو فرائض سے غافل کر دے۔ویڈیو گیم ہمارے زمانہ بچپن سے لے کر آج تک لغویات کی جامع تعریف میں مکمل داخل ہیں ۔ ان کی حد یہ ہے کہ انہیں کھیلتے ہوئے انسان نماز ، روزہ تو دورکھانے پینے یہاں تک کہ رفع حاجت کے لیے بھی اٹھ پاتا۔ جی ہاں رفع حاجت۔یہ میں کوئی استعارہ یا مثال نہیں دے رہا۔ یہ بات پورے وثوق اور براہ راست مشاہدات و انٹرویوز کے بعد دے رہا ہوں ۔PUBG تو ویڈیو گیم کی تازہ ترین ایسی انتہا ہے کہ ’اللہ سے پناہ مانگ لی جائے ‘‘۔کہنے کو تو یہ ایک مار دھاڑ سے بھرپور گروپ کی صورت کھیلا جانے والا ایک فائٹنگ گیم ہے ۔کوئی پچاس کے قریب تو سوشل میڈیا اکاؤنٹس کام کر رہے ہیں ۔تیزی سے اس وقت پاکستان میں بھی سرایت کر رہا ہے ۔ کچھ دن قبل اس گیم کے خطرناک ایڈیکشن یعنی’ لت‘ کے حوالے سے ایک ماں نے تشویش کا اظہار کیا کہ ان کا ساتویں جماعت کا طالب علم بیٹا جو کہ حافظ قرآن بھی ہے ، وہ اس گیم کا ایساشکار ہو چکا ہے کہ ہفتہ میں دو دن وہ مکمل اس گیم میں غرق رہتا ہے کیونکہ اس کے علاوہ اسے گھر سے اجازت نہیں ملتی۔ چونکہ گیم موبائل پر کھیلا جاتا ہے جو کہ کسی نہ کسی صورت والدین ہی کی دین ہوتی ہے اس لیے وہ ہر پیر کو اُس گیم کو ان انسٹال کرتے ہیں اور پھر وہ بچہ جمعہ کی شب دوبارہ انسٹال کر کے ہفتہ اتوار اس میں کھو جاتا ہے ۔ یہ کیفیت صرف ان کے بیٹے ہی کی نہیں بلکہ انہوں نے بتایا کہ اس کے ساتھ کھیلنے والے تمام افراد مرد ، عورت، بچوں سب ہی کی ہے۔گیم کا موضوع تو بظاہر بہت سادہ سا ہے جس کے مطابق صرف اپنی ٹیم کے ساتھ دشمنوں کو آتشی اسلحہ سے ختم کرنے کا مشن ہے ۔آپ کہیں گے اس موضوع پر تو لا تعداد گیم بنے ہیں یہ بات تو میں بھی جانتا ہوں لیکن ایسی شدت نہ اس سے پہلے سنی نہ دیکھی گئی ۔اس گیم سے متعلق کئی اور باتیں جو سامنے آئی ہیں ان میں کئی متعلقہ امریکی ویب سائٹس پر اس گیم کے شیطانی ہونے پر یاشیطانی ایجنڈے کے ساتھ ہونے پر بات کی گئی ہے ۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ اس کو کھیلنے کے لیے ہلکا موبائل استعمال نہیں ہوتا اس کے لیے زیادہ میموری والا سیٹ درکار ہوتا ہے۔آپ نیٹ ورکنگ پر اپنی ٹیم بنا کر کھیلتے ہیں جس کے ذریعہ کئی دوست بھی شامل ہو جاتے ہیں۔والدین بتاتے ہیںکہ اس کو کھیلتے ہوئے بچے تنا شامل ہو جاتے ہیںکہ انتہائی ہائپر ہو جاتے ہیں۔اس گیم کے بارے میں کئی ماؤں کا کہنا ہے کہ اس گیم نے بچوں کو سب سے چھین لیا ہے اور اس گیم میں دیگر گیم سے ہٹ کر کوئی الگ بات ضرور ہے ۔ نیو زی لینڈ واقعہ کے مناظر کو بھی اس گیم کے عین مناظر سے مشابہت دکھائی گئی ہے۔
ایک سرخی ملاحظہ ہوبحوالہ:
https://boards.na.leagueoflegends.com
The blatant demonism and satanism in the game is getting out of hand.
چلیں یہ تو ایک رُخ ہے جسے آپ نظر انداز کر سکتے ہیں ۔آئیں ایک اور پہلو دیکھیں :
UAE authorities urged to ban popular online game PUBG
اس سے قبل کی نیپال سے آئی خبر دیکھ لیں :
PlayerUnknown’s Battlegrounds is now banned in Nepal:The government claims PUBG was having a negative mental impact on youth
دنیا بھر کی کیا بات کریں اس وقت مذکورہ گیم ہمارے پڑوس بھارت میں عوام کو اس حد تک مجبور کر چکا ہے کہ وہ پابندی لگانے کی بات کر رہے ہیں ۔کئی بھارتی ریاستیں جن میں حیدرا ٓباد، مہاراشٹر، جموں کشمیر ، گجرات بھی شامل ہیں اس گیم پر پابندی کا سخت مطالبہ کر رہی ہیں۔ان سب کے لیے بظاہر مسئلہ پڑھائی اور ذہنی کیفیت کا ہے ۔
PUBG banned in Gujarat schools; state govt says game affects studies
جگہ کی کمی کی وجہ سے بات کو سمیٹ رہاہوں لیکن اس پر بات اگلے ہفتے مزید جاری رہے گی۔ براہ کرم بدترین انسانی نفسیات کے مطابق اگر گیم نہیں کھیلا ہے تو انسٹال کر کے تجربہ کرنے کی کوشش مت کیجیے گا۔ یہ گیم کی مارکیٹنگ نہیں تھی بلکہ سماجی میڈیا کے ذریعہ پھیلنے والے ایک اور موضوع کی جانب معلومات اور اس کے نقصانات کے لیے آگہی تھی۔

حصہ