رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ

647

پروین رئیس
اللہ کے فضل سے رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ آگیا۔ یہ وہ مہینہ ہے جو ہر مسلمان کے جذبات میں ہلچل مچا دیتا ہے۔ گیارہ ماہ مسلمان کتنی ہی غفلت میں رہیں لیکن اس ماہِ مبارک میں خواہ سردی ہو یا سخت گرمی، روزے کی فرضیت اور فضائل کو سب جانتے ہیں۔ یہ رحمت، برکت اور مغفرت کا مہینہ ہے، گیارہ ماہ کے گناہ بخشوانے کا مہینہ ہے، تقویٰ کے حصول کا ذریعہ ہے۔
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کی آمد سے دو ماہ قبل رجب کا چاند دیکھ کر یہ دعا فرماتے تھے ’’اے اللہ ہمارے رجب اور شعبان کے مہینے میں برکت ڈال دے اور ہمیں رمضان تک پہنچا دے۔‘‘ ہمیں دو چیزوں کو شعارِ زندگی بنا لینا چاہیے، یہ دونوں چیزیں حدیثِ نبویؐ سے ثابت ہیں: (1)صدقہ (2) دُعا۔
ہم جانتے ہیں صدقہ بلائوں اور پریشانیوں کو دور کرتا ہے۔ صدقہ دینی اور دنیاوی کام آسان کرتا ہے، بڑی مصیبت دور کرتا ہے۔ اِس دفعہ رمضان کی آمد سے پہلے صدقہ دیں اور دعا کریں کہ رب العزت اس رمضان کو رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ بنادے اور اسے مسلمانوں کے لیے آسان بنادے، آمین۔ اللہ پاک ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے، وہ ہماری ہر بات سنتا ہے، قبول کرتا ہے۔ ہمیں یقینِ کامل ہونا چاہیے کہ رب تعالیٰ ہماری ہر دعا سنتا ہے۔ یااللہ ہمیں اس ماہ کی برکتیں، رحمتیں سمیٹنے والا بنادے۔ یہ خوش نصیبی کیا کم ہے کہ اس ربِّ کائنات نے یہ رمضان ہمیں عطا کیا۔ کتنے ہی عزیز و اقارب ہیں جو پچھلے سال تھے، اِس سال نہیں ہیں۔ اللہ کے اس کرم کا شکر گزار ہونا چاہیے اور رمضان کی مقصدیت، فرضیت اور اہمیت کو سمجھتے ہوئے تقویٰ، شکر گزاری، ہدایت اور عافیت کا طلب گار ہونا چاہیے، اور اس یقین کے ساتھ روزہ رکھیں کہ اللہ کے روبرو حاضر ہونا ہے۔ عبادات، عقائد اور معاملات کا حساب کتاب دینا ہے۔ پلِ صراط، حشر، قبر، میزان جیسے مراحل سے گزرنا ہے۔ کاش ہمارا احساس بیدار ہوجائے، ہمارے اندر خوفِ خدا موجزن ہوجائے تو تقویٰ پیدا ہوسکتا ہے۔ کاش ہمارے دلوں کی سختی دور ہوجائے، اللہ تعالیٰ دلوں کو نرم کردے، دعا مانگنے کا سلیقہ عطا فرمادے، دل تڑپ اٹھے، آنکھ نم ہوجائے۔ خاص طور پر وہ دعائیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگی تھیں، مانگنی چاہئیں۔ یاد رکھیں کہ رزق حلال ہونا چاہیے ورنہ آہ و زاری بھی قبول نہ ہوگی۔ ہمارا رب ہمارے دلوں کے حال سے واقف ہے۔ اگر ہم زبان سے ایک لفظ بھی نہ کہیں تو بھی وہ دل کی پکار سنتا ہے۔ دعا عبادت کا مغز ہے، دعا نہ مانگنا تکبر ہے۔ حدیث کے مفہوم کے مطابق اس کی تین صورتیں ہیں، حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے (یہ روایات مسند احمد، مشکوٰۃ کتاب الدعوات سے لی گئی ہیں) ’’بے شک تمہارا رب حیا اور کرم والا ہے، جب اس کا کوئی بندہ اس کی جناب میں ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہ ان کو خالی ہاتھ لوٹاتے ہوئے شرماتا ہے۔جو بھی مسلمان ایسی دعا کرتا ہے جس میں گناہ اور قطع رحمی نہ ہو تو رب العزت اس کے بدلے میں تین چیزوں میں سے ایک چیز عطا فرماتا ہے، یا تو اس کی دعا کو جلد قبول کرلیتا ہے، یا آخرت کے لیے ذخیرہ کرلیتا ہے، یا کسی برائی کو اس سے دور کردیتا ہے‘‘۔ صحابہ کرامؓ نے کہا ’’پھر تو ہم زیادہ دعائیں کریں گے‘‘۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا ’’اللہ کا فضل بھی بہت زیادہ ہے، ہمیں دل میں یہ خیال نہیں لانا چاہیے کہ دعا قبول نہیں ہوئی۔‘‘ دعا ان تینوں صورتوں میں سے ایک صورت میں حاصل ہوتی ہے:
-1 بعینہٖ وہی چیز مل جائے جس کی دعا مانگی گئی ہو۔-2 وہ چیز نہ ملے مگر آنے والی مصیبت یا آفت ٹال دی جائے۔-3 مصیبت بھی نہ ٹلے مگر اس دعا کوآخرت میں میزانِ عمل میں ڈالنے کے لیے رکھ دیا جائے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے ’’اے اللہ ہم پر رحمتوں کے دروازے کھول دے، بے شک تُو ہی بہترین دروازے کھولنے والا ہے۔‘‘

حصہ