دادا ابو

780

مریم شہزاد
“افْ فو، یہ دادا ابو بھی نا، ” کاشان نے بیزاری سے کہا تو طلحہ نے حیرت سے اس کو دیکھا۔
“کیا ہوا دادا ابو کو، ایسے کیوں کہ رہے ہو؟ ” اس نے پوچھا ۔
” کچھ نہیں ، بس ایسے ہی ” کاشان نے منہ بنا کر بات ٹالی ۔
” دادا تو بہت پیار کرتے ہیں اور مزے بھی بہت کرواتے ہیں “۔
” ہاں پہلے کبھی جب ہم چھوٹے تھے تب کی بات ہے یہ، ” ۔
” اب کیا ہوا “؟
” کیا بتاوں، اتنے بیمار ہیں نہیں مگر ایک تو ہر وقت گھر پر ہوتے ہیں ،پھر سب یہ ہی کہتے رہتے ہیں کہ شور نہ کرو ،آہستہ بولو، ٹی وی نہیں کھولو، باہر جاکر کھیلو، کوء مزے دار چیز کھانے کو دل چاہے تو چھپ کر کھاؤ ورنہ دادا ابو کا بھی دل چاہے گا اور ڈاکٹر نے ان کو منع کیا ہے ،اور پہلے دادو بھی ہمارے ساتھ مل کر باتیں کرتی تھیں، کہانیاں سناتی تھیں، مزے مزے کی چیزیں بنا کر کھلاتی تھی، ہم بھی ان سے اتنی فرمائشیں کرتے تھے مگر اب تو وہ لفٹ ہی نہیں کراتی ،اب تو بالکل اچھا نہیں لگتا دادا ابو کی وجہ سے سب پریشان ہوگئے ہیں ” ۔
” کتنی بْری بات ہیکاشان، جب پہلے تمہارے لاڈ اٹھتے تھے تو تم کو سب اچھا لگتا تھا اور اب جب تمہاری ضرورت ہے تو تم ایسی باتیں کر رہے ہو ” طلحہ نے دکھ سے کہا۔
” میری ضرورت؟ کیا مطلب ،میں کیا کر سکتا ہوں ” اس نے حیرت سے کہا۔
” تم ہی تو سب کچھ کر سکتے ہو، تم سب سے بڑے پوتے ہو، اور تمہارے دادا سب سے زیادہ پیار بھی تم کو کرتے ہیں، تم بھی اب ان کو ٹائم دیا کرو، جیسے وہ تم کو باہر لے کے جاتے تھے تم بھی ان کو پارک لے جایا کرو، ان کی پسند کی چیزیں ان کے ساتھ مل کرکھاؤ ” ۔
” ارے تم کو معلوم نہیں، وہ کتنے چرچڑے ہوگئے ہیں اور ہر وقت غصہ کرتے ہیں، ان سے کون بات کرے ” کاشان نے منہ بنایا۔
” اچھا جب تم ضد کرتے تھے، بیمار ہوتے تھے تو، وہ بھی تو تمہارا خیال کرتے تھے ،اب تمہاری باری ہے، اور میری امی کہتی ہیں کہ بچہ، بوڑھا برابر ہوتے ہیں ،ان کو بھی بچوں کی طرح توجہ دینی چاہیے “۔
” تو کیا میں ان کو خوش کر سکتا ہوں؟ “۔
” کیوں نہیں ،کوشش تو کرو”۔
اسکول سے آکر وہ شام تک طلحہ کی باتوں پر غور کرتا رہا عصر کی نماز پڑھ کر آیا تو دادا ابو کے کمرے کے پاس سے گزرتے ہوئے وہ رک گیا اس نے چپکے سے دیکھا تو وہ خاموش لیٹے چھت کو دیکھ رہے تھے اس کے کانوں میں طلحہ کی آواز آئی ” تم کوشش تو کرو”۔
کاشان نے ہلکے سے دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر داخل ہو کر سلام کیا “اسلام علیکم، دادا ابو” ۔
انہوں نے سر اوپر کرکے اس کو دیکھا۔
“کیسے فرصت مل گئی آپ کو آج دادا کو سلام کرنے کی ” انہوں نے خفگی سے کہا “وعلیکم اسلام ” اور سلام کا جواب دیا۔
” کیا کر رہے تھے دادا ابو، ”
” جھک مار رہا تھا، وہ غصے سے بولے ” کچھ کر سکتا ہوں میں، نظر نہیں آرہا لیٹا ہوا ہوں بالکل اکیلا “۔
” یہ کیا بات کی آپ نے، کیوں کچھ نہیں کر سکتے، سامنے والے پارک میں تو چل ہی سکتے ہیں ” کاشان نے ایک کوشش اور کی۔
” اکیلے جاؤ،؟ ”
” کیوں اکیلے کیوں ،میں ہوں نا، دونوں چلتے ہیں ” کاشان کی بات سن کر انہوں نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا ۔
” کیا کروں گا جاکر، واک بھی نہیں کر سکتا ” وہ ڈر رہے تھے کہ بہت دن سے باہر نہیں نکلے تھے مگر کاشان کے کہنے سے دل بھی چاہنے لگا تھا۔
” آپ چلیں تو ” اس کو تو آج دوستی کرنی تھی دادا سے۔
” اچھا، تم ضد کرتے ہو تو چل چلتا ہوں، آج بھی بچوں کی طرح ضد کرتے ہو ”
وہ دونوں کمرے سے باہر نکلے تو سب پریشان ہوگئے ۔
” کہاں لے جارہے ہو دادا ابو کو، ان کی طبیعت خراب ہے ” امی نے کہا۔
” نہیں امی دادا ابو بالکل ٹھیک ہیں ،اور میں دادا ابو کو نہیں بلکہ یہ مجھے لے کر جا رہے ہیں پارک، میں چھوٹا ہوں اور آپ بڑے ہیں ” اس نے سمجھداری سے کہا تو امی بھی اس کی بات سمجھ گئیں کہ دادا اس طرح سے راضی ہوئے ہوں گے ورنہ تو وہ اپنے آپ کو بہت زیادہ بیمار سمجھ کر کچھ بھی نہیں کر پا رہے تھے اب کاشان اس قابل تھا کہ ان کو سنبھال سکے دادی نے بھی گھبرا کر کچھ کہنا چاہا تو دادا خود ہی بول اٹھے۔
” خود ہی تو کہتی رہتی ہو کہ اٹھ کر باہر جاؤ اب جارہا ہوں تو سب کو پریشانی ہے ” تو وہ بھی چپ کر گئیں۔
وہ دونوں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے پارک پہنچے تو وہاں ہریالی دیکھ کر طبیعت خوش ہو گئی سامنے ہی دادا ابو کے ایک دوست بنچ پر بیٹھے نظر آگئے تو وہ ان کے ساتھ ہی باتیں کرنے بیٹھ گئے ،کاشان نے کچھ دیر چہل قدمی کی پھر وہیں گھاس پر بیٹھ گیا ۔اس کو سخت بوریت محسوس ہو رہی تھی لیکن اس نے سوچا کہ جب وہ چھوٹا تھا تو میں کھیلتا رہتا تھا اور دادا ابو میرے انتظار میں بیٹھے رہتے تھے اور روز ہی ایسا ہوتا تھا اور میرا تو آج پہلا دن ہے مجھے بھی خوشی خوشی انتظار کرنا ہے دادا اور ان کے دوست باتیں کرتے رہے کہ مغرب کی ازان ہوگء تو کاشان ان کے پاس آیا۔
“اب چلیں ” ۔
“ہاں ہاں چلو ،بلکہ مسجد میں نماز پڑھ کر چلتے ہیں “وہ اپنے آپ کو کافی بہتر محسوس کر رہے تھے۔
” جیسے آپ کی خوشی ۔”
دونوں نماز پڑھ کر گھر آئے تو دادی بہت پریشان تھیں کہ آج تو بہت ہی غصہ کریں گے کہ اتنا تھکا دیا مگر ان کو اچھے موڈ میں دیکھ کر سب ہی خوش ہو گئے آج تو انہوں نے کمرے کے بجائے سب کے ساتھ چائے پی، پھر رات کا کھانا بھی ساتھ ہی کھایا اس کے بعد کاشان ان کو کمرے میں لے آیا کیونکہ وہ تھکن محسوس کرنے لگے تھے ،اس نے دادا ابو سے وعدہ لیا کہ اب وہ اپنے آپ کو بیمار نہیں سمجھیں گے اور ٹھیک ہونے کی کوشش کریں گے۔
کاشان بھی آج بہت خوشی محسوس کر رہا تھا کہ اس کی وجہ سے سب کو اطمینان اور خوشی ملی اوراس نے فون کر کے طلحہ کو بھی بتایا جس نے اس کی مزید حوصلہ افزائی کی۔
اب وہ اکثر دادا کو پارک ہی لے کے نہیں جاتا بلکہ ان کو پورا پورا ٹائم بھی دیتا ہے کبھی ان کی پسند کی کتابیں پڑھ کر سناتا ہے تو کبھی ان سے کتابوں کے بارے میں بحث مباحثہ کرتا ہے کبھی اور بہن بھائیوں کو ملا کر ان کے سا تھ لوڈو تو کبھی کیرم کھیلتا ہے سب کاشان سے بہت خوش ہیں اور دعائیں دیتے ہیں کہ وہ دادا کا اتنا خیال رکھتا ہے مگر اب وہ خود بھی جان چکا ہے کہ بچے اور بوڑھے برابر ہوتے ہیں بزرگوں کو بھی اتنی ہی توجہ اور پیار دینا چاہئے جتنا وہ اپنے بچوں کو دے چکے ہوتے ہیں۔
کیوں ٹھیک ہے نا۔

حصہ