حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ کا دورِ خلافت

338

احمد ذیشان
جب حضرت عمر بن عبدالعزیز نے خلافت کی باگ ڈور سنبھالی تو ملک میں اموی مارشل لاء کا نفاذ تھا۔ لسانی عصبیت، نسلی تفاخر اور مورثی حکومت جیسے بتوں کی پوجا ہو رہی تھی۔ وہ بت جوکہ سید الانبیا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے پاش پاش کر دیے تھے دوبارہ تعمیر ہو چکے تھے۔ بیت المال خلیفہ کی ذاتی ملکیت بن چکا تھا۔ ریاست مدینہ جیسی فلاحی ریاست جسے سید الانبیاصلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا تھا۔ جس میں ہر مسلم غیر مسلم کے جان مال اور عزت محفوظ تھی مگراب اموی شاہوں کہ رحم کرم پر تھی۔ یوں لگ رہا تھا کہ زمانہ جاہلیت پھر سے لوٹ رہا ہے۔ جسے سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جڑ سے اکھاڑ دیا تھا۔ شجر اسلام جسے خلفائے راشدین نے بے شمار قربانیوں سے سینچا تھا۔ جس میں برتری کی بنیاد تقوی پر تھی اس کی جڑیں اکھڑ رہی تھیں۔ خلافت کی جگہ ملوکیت لے چکی تھی۔ خدا کے نام لیواؤں کے گر د زمین تنگ کی جارہی تھی۔ انسانیت خلافت راشدہ کے خاتمے کا سوگ منارہی تھی۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے آتے ہی سب سے پہلے اپنی ساری جائداد سرکاری خزانے میں جمع کروا دی۔ انسانیت کو خلافت راشدہ کی یاد دلا دی۔ ظالم عمال کو معزول کر کے نیک پارسا اور متقی حضرات کو عہدوں پہ بٹھایا۔ اسلام کی پھر سے وہی شان و شوکت اور جاہ و جلال بحال ہو گی۔ بیت المال کو خلیفہ کی ملکیت سے نکال کر عوامی ملکیت میں دے دیا۔ موروثیت کے بجائے قابلیت اور خدا خوفی کو ترجیح دی جانے لگی۔ پوری ریاست میں امن کا بول بالا ہو نے لگا۔ آپ نے زکوۃ کا نظام قائم کیا اور ظالمانہ ٹیکسوں سے عوام کی جان چھڑائی۔ قبل اس سے ہر نو مسلم سے جزیہ لیا جاتا تھا۔ مگر آپ نے اسے غیر اسلامی فعل قرار دے کر منسوخ کر دیا اور ملکی معیشت کو مضبوط بنادیا۔ ملک سے غربت کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ سارا دن زکوۃ لے کے پھرنے کے باوجود کو ئی زکوۃ لینے والا نظر نہیں آتا تھا۔
اپنے دربار کو جسے اموی شاہوں نے قیصر وکسری کی طرز پر ڈھال دیا تھا۔ اسے واپس خلفائے راشدین کی طرز پہ لاکھڑا کیا۔ جہاں ہر ناکس وناتواں کی رسائی ممکن تھی۔ اموی حکومت جو کے فوجی طاقت پر مستحکم تھی۔ اس کی بنیادیں ہلانا اتنا آسان تو نہ تھا۔ کوئی داخلی یا خارجی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی تھی۔ ماضی میں بھی اس سے ٹکرانے کی دو کوششیں ہوچکی تھیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اپنے دلیرانہ اقدام اٹھا چکے تھے۔ مگر اموی حکومت کی ظالمانہ اقدام سے ٹکر لینا ناممکن کو ممکن بنانے کے مترادف تھا۔ انہی اصلاحات کی بدولت کفر جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگا اور جزیہ کم وصول ہو نے لگا تو خزانچی نے اس بات کا ذکر آپ سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ میں تو چاہتا ہوں کہ سارا کفر اسلام میں داخل ہو جائے تو تم کھیتی باڑی کرو۔
غریب عوام کی زمینیں جائیدادیں جو کہ شاہی خاندان نے اپنی ملکیت شامل کر لی تھیں۔ انہیں واگزار کرا کے غریبوں کو واپس کروائیں اور غلام اور لونڈیاں آزاد کروا کے انہیں ان کے وطن واپس بھیجا۔ افسران اور وزراء کو تحائف لینے پہ پابندی عائد کر دی۔ پوری ریاست میں یکساں طور پر قانون کا نفاذ کیا۔ جس امیر غریب کو یکساں طور بے لاگ انصاف ملنے لگا۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون اپنی موت آپ مرچکا تھا۔ خلیفہ اور دیگر عمال کی ایک مزدور کے مساوی تنخواہیں مقرر کیں۔
آج میرے دیس کے حالات بھی اموی شہنشاہیت سے مختلف نہیں ہیں۔ یہاں بھی سیاستی، مذہبی اور لسانی دہشت گردی عروج پہ ہے۔ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلیوں کو کھا کے ڈکار مار جاتی ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ اسلام پسندوں کے گر د ہر طرح کی ریاستی پابندیوں کا نفاذ ہے۔ اسلام کے نام پہ بننے والی ریاست پاکستان میں اسلام کانام لینا ہی سب سے بڑا جرم ہے۔ انصاف کے لیے عدالتوں کا چکر کاٹ کاٹ کر تین نسلیں اپنی عمر گزار دیتی ہیں۔ غریب آدمی کل جمع پونجی لٹا کر بھی انصاف سے محروم رہتا ہے۔ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جاتا ہے۔ یہاں بھی انسانیت بلک بلک کر کسی عمر بن عبدالعزیز کو پکار رہی تھی۔ جو ان کے زخموں پر مرہم رکھ سکے۔

حصہ