حادثہ جلیانوالہ باغ اور علامہ اقبالؒ

1661

پروفیسر محمد اسلم اعوان
جلیانوالہ باغ کوئی سرسبز یا گل و گلزار قطعہ نہیں تھا بلکہ ایک ہموار، کھردری زمین کا مستطیل نما میدان تھا جو شہر امرتسر کی گنجان آبادی کے عین درمیان واقع تھا۔ تین طرف اونچے اونچے مکان تھے اور ایک جانب اونچی دیوار تھی جس نے اس میدان کو شہر کے دوسرے علاقوں سے جدا کر رکھا تھا۔ باغ میں داخل ہونے کا صرف ایک راستہ تھا جو تنگ سی گلی میں واقع تھا۔ اسی راستے سے لوگ اندر جا اور باہر آسکتے تھے۔
مارچ 1919ء میں رولٹ ایکٹ کے خلاف ہندوستان بھر میں ایجی ٹیشن شروع ہوا اور گاندھی جی نے ستہِ گرہ تحریک کا آغاز کیا تو امرتسر میں ڈاکٹر سیف الدین کلچو اس تحریک کے لیڈر تھے۔ 30 مارچ کو رولٹ ایکٹ کے خلاف پورے ملک میں ہڑتال ہوئی اور تمام کاروبار یک لخت بند ہوگیا۔ اس قسم کی ہڑتال پہلے کبھی نہ دیکھی گئی تھی۔ 4 اپریل کو پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر مائیکل اڈوائر نے ڈاکٹر کچلو کی زبان بندی کا حکم دے دیا کہ آئندہ کسی جلسے میں تقریر نہ کریں۔ 8 اپریل کو امرتسر میں پھر ہڑتال ہوئی اور 10 اپریل کو امرتسر کے ڈپٹی کمشنر مائلز اِرونگ (Miles Irving) نے ڈاکٹر کچلو کو اپنے مکان پر بلایا اور طے شدہ اسکیم کے مطابق فوج کی حراست میں لے کر دھرم شالہ (کانگڑہ) بھیج دیا۔
یہ خبر آگ کی طرح شہر میں پھیل گئی۔ دکانیں بند ہوگئیں اور لوگ جگہ جگہ اکٹھے ہونا شروع ہوگئے۔ تیس ہزار انسانوں نے ریلوے پل عبور کرکے سول لائن میں داخل ہونے کی کوشش کی تاکہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کے بنگلوں کے سامنے جاکر واویلا کریں۔ پولیس اور فوج کے چند جوانوں نے آگے بڑھنے کا راستہ روک رکھا تھا۔ ہجوم نے بے تاب ہوکر پتھر پھینکنا شروع کیے تو فوج اور پولیس نے گولی چلا دی۔ چند افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔ ہجوم زخمی شیر کی طرح غصے میں بھرا پلٹ کر شہر پر پل پڑا۔ ٹائون ہال، تار گھر اور ڈاک خانے کو آگ لگا دی گئی۔ نیشنل بینک، الائنس بینک اور چارٹرڈ بینک کو لوٹ لیا گیا۔ نیشنل بینک کی عمارت کو آگ لگا کر اس کے انگریز منیجر اور الائنس بینک کے منیجر کو ہلاک کردیا۔
بجلی گھر کا انگریز منیجر الینڈ اور تار گھر کا افسر رابنسن بھی قتل کردیے گئے۔ ان واقعات کے بعد ہجوم نے دوبارہ پل عبور کرکے سول لائن کی طرف جانے کی کوشش کی۔ اندازہ ہے کہ ہجوم میں چالیس ہزار کے قریب افراد تھے۔ فوج اور پولیس کے گھڑ سواروں نے ڈپٹی کمشنر کے حکم سے پھر گولی چلا دی اور بیس، پچیس آدمی ہلاک ہوئے۔ ہجوم نے لاشیں اٹھائیں اور احتجاج کرتا ہوا شہر کی طرف لوٹ آیا۔
اب صورتِ حال یہ تھی کہ شہر پر عوام کا قبضہ تھا اور سول لائن میں جہاں انگریز افسروں کے چند بنگلے تھے، فرنگی راج کی ٹمٹماتی شمع روشن تھی۔ شہر کے تمام انگریزوں اور اینگلو انڈین لوگوں نے بھاگ کر گوبندھ گڑھ کے قلعے میں پناہ لی۔
11 اپریل رات نو بجے بریگیڈیئر جنرل ڈائر جالندھر چھائونی سے امرتسر پہنچ گیا۔ اس کے ہمراہ 475 انگریز اور 710 ہندوستانی سپاہی تھے۔ اگلے روز ڈپٹی کمشنر نے شہر کا نظم و نسق اس کے حوالے کردیا۔
12 اپریل کا دن گزر گیا، 13 اپریل کو اتوار تھا۔ ڈائر صبح کے وقت ایک چھوٹا سا جلوس بنا کر نکلا۔ آگے آگے شہر کا کوتوال، پیچھے امرتسر کا نائب تحصیل دار ملک فتح خان، اس کے پیچھے ڈائر، امرتسر کا ڈپٹی کمشنر اور کپتان پولیس، اور ان کے پیچھے فوجی دستہ۔
شہر کے مختلف مقامات پر اس جلوس نے منادی کی کہ آج سے امرتسر پر فوج کا راج ہوگیا ہے۔ شہر سے باہر جانے کی کسی کو اجازت نہیں۔ چار سے زیادہ آدمی کہیں جمع نہیں ہوسکتے۔ رات آٹھ بجے کے بعد کسی کو گھر سے باہر قدم رکھنے کی اجازت نہیں، کوئی جلوس نہیں نکل سکتا۔ اگر کسی نے احکام کی خلاف ورزی کی تو فوجی قواعد کے مطابق سزا دی جائے گی۔
اسی روز دوپہر ساڑھے بارہ بجے ڈائر کو معلوم ہوا کہ شہر کے لوگ کہیں جلسہ کرنے کا انتظام کررہے ہیں۔ چار بجے سہ پہر کپتان پولیس ریہل نے اطلاع دی کہ جلیانوالہ باغ میں لوگ جمع ہیں اور جلسہ ہورہا ہے۔ ڈائر اسی وقت دو بکتربند گاڑیاں، جن میں مشین گنیں بھی تھیں اور 90 فوجی جوان لے کر باغ کی طرف روانہ ہوا۔
جلسے کے منتظمین نے کرسیٔ صدارت پر ڈاکٹر سیف الدین کچلو کی تصویر رکھ دی تھی اور ایک شخص ہنس راج کھڑا تقریر کررہا تھا۔ ڈائر تنگ گلی سے ہوتا ہوا جلسہ گاہ کے دروازے پر پہنچا، بکتربند گاڑیاں اندر نہیں جاسکتی تھیں، مجبوراً باہر ہی چھوڑنا پڑیں۔
ڈائر نے پہنچتے ہی گولی چلانے کا حکم دے دیا، اور جب تک سپاہیوں کا بارود ختم نہیں ہوا، گولی چلتی رہی۔ جلیانوالہ باغ میں داخل ہونے اور نکلنے کا ایک ہی راستہ تھا، اس پر ڈائر قابض تھا۔ جب گولیوں کی بارش شروع ہوئی تو خلقت دیوانہ وار اِدھر اُدھر بھاگنے لگی۔ لیکن باہر جانے کا راستہ مسدود ہو چکا تھا۔
400 انسانوں کو مار کر اور 1500 کو زخمی کرکے ڈائر اطمینان سے واپس اپنی قیام گاہ رام باغ چلا گیا۔ کرفیو کی وجہ سے کوئی شخص رات کو آٹھ بجے کے بعد گھر سے نہیں نکل سکتا تھا۔ رات بھر لاشیں وہیں پڑی رہیں اور زخمی چیختے چلاّتے رہے۔
اقبالؒ نے اس حادثۂ خونچکاں سے متاثر ہوکر جلیانوالہ باغ پر جو اشعار آب دار لکھے تھے، افسوس ’’بانگِ درا‘‘ میں جگہ نہ پاسکے:

ہر زائرِ چمن سے یہ کہتی ہے خاکِ باغ
غافل نہ رہ جہان میں گردوں کی چال سے
سینچا گیا ہے خونِ شہیداں سے اس کا تخم
تو آنسوئوں کا بخل نہ کر اس نہال سے

(بحوالہ: ’’چند یادیں، چند تاثرات‘‘ ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی‘ ص: 49۔51)

حصہ