بے زبان پر رحم

396

عائشہ یاسین
علی اپنے محلے کا سب سے شرارتی بچہ تھا۔ ہر وقت کسی نہ کسی کو تنگ کرتا رہتا تھا۔ کلاس میں بھی سب اس سے بہت پریشان رہتے تھے۔ استانی صاحبہ بھی روز اس کو کسی نہ کسی بات پر سزا دیتی تھیں۔ کبھی کرسی پر کھڑا کر دیتی تو کبھی کلاس سے باہر بھیج دیتی اور کبھی کبھی تو مرغا بھی بنا دیا کرتی تھیںلیکن علی اپنی شرارتوں سے باز نہ آتا۔ اسکول سے آتے ہی وہ دن بھر گلی میں آوارہ لڑکوں کے ساتھ گھومتا رہتا۔ کبھی کسی کے گھر کی بیل بجا کے بھاگ جاتا تو کبھی کسی بچے کی چیز چھین لیتا۔
آج جب علی اسکول سے واپس آیا تو کھانا کھاتے ہی باہر کھیلنے چلا گیا۔ آج محلے میں سناٹا ہورہا تھا۔کڑاکے کی سردی ہورہی تھی۔ علی راستے میں اکیلا ادھر ادھر پھر رہا تھا اور راستے میں پتھروں کو ٹھوکر مارتا ادھر ادھرٹہل رہا تھا۔کہ اچانک اس کو ایک گھر کے کونے میں ایک بلی بیٹھی ہوئی نظر آئی۔ علی نے دور سے اس کو ڈرانے کی کوشش کی پر وہ بیچاری ہل بھی نہیں پائی۔ شاید اس کو بہت سردی لگ رہی تھی یا اس کی طبیعت خراب تھی پر علی کو اس پر ذرا بھی ترس نہیں آیا۔ جب اس نے دیکھا کہ بلی ہل بھی نہیں پا رہی تو اس کو ایک شرارت سوجھی۔ اس نے بہت سارے پتھر اپنے جیب میں جمع کئے اور اپنی بوریت دور کرنے کے لئے بلی پر نشانہ بازی کرنے لگا۔ جب بھی بلی درد سے کراہتی تو اس کو اور بھی مزہ آتا اور وہ زور زور سے تالی بجا کر خوش ہوتا اور نعرے لگاتا۔
بیچاری بلی تو بے زبان تھی اور بیمار ہونے کی وجہ سے بھاگ بھی نہیں پا رہی تھی۔ وہ وہیں روتی رہی پر علی کو اس پر رحم نہ آیا۔ کچھ دیر بعد کچھ کتوں کی بھونکنے کی آواز آئی۔ علی نے مڑ کر دیکھا تو کتے اس کی جانب ہی آرہے تھے۔ علی نے آو دیکھا نہ تاؤ جلدی سے دور لگادی۔ وہ دو کتے تھے اور دونوں ہی علی کی طرف دوڑ رہے تھے۔ علی جیسے ہی گھر کے پاس پہنچا تو اس کو ٹھوکر لگی اور وہ زور سے وہ زمین پر گر پڑا۔ درد اور خوف سے وہ زور زور سے رونے لگا۔ ا س کی رونے کی آواز سن کر اس کے ابو باہر آگئے اور کتوں کو بھگایا۔ علی کے گھٹنوں سے بہت خون بہہ رہا تھا۔ علی کے ابو نے اس کو گود میں اٹھایا اور اندر لے جا کے مرہم پٹی کی۔ علی کو بہت تکلیف ہورہی تھی اور وہ روئے جارہا تھا۔ جب ابو نے اس کو دوا لگا دی تو اس سے سارا ماجرہ پوچھا۔ علی نے سب کچھ سچ سچ بتادیا تو اس کے ابو نے کہا ،’’بیٹا کبھی کسی بے زبان جانور کے ساتھ برا سلوک نہیں کرنا چاہیے ورنہ بد دعا لگ جاتی ہے۔ دیکھو اللہ نے تم کو تمہارے کیے کی سزا دی۔ اگر میں وقت پر نہیں آتا تو وہ آوارہ کتے تمہارے ساتھ کیا کرتے؟‘‘یہ سن کر علی اپنے کیے پر بہت شرمندہ ہوااور ڈر کے مارے رونے لگا۔
ابو نے اس کو روتا دیکھ کر کہا ،’’چلو بیٹا ہم اس بلی کو گھر لے آتے ہیں اور اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ جب وہ صحیح ہوجائے گی تو تم کو دعائیں دے گی اور اللہ بھی تم کو معاف کردیں گے‘‘۔یہ سن کر علی بہت خوش ہوا اور ابو کے ساتھ جا کے بلی کو اپنے گھر لے ایا۔ ابو امی نے مل کر اس کو دوا لگائی اور علی فورا دودھ کا کٹورا لے آیا۔ علی دن رات بلی کی دیکھ بھال کرتا اور اس سے معافی مانگتا اور توبہ کرتا۔ آہستہ آہستہ بلی صحت یاب ہوگئی اور علی نے اس کا نام کیٹو رکھا۔ پتا ہے بچوں اب علی اور کیٹو پکے دوست ہیں اور علی نے اب ہر برے کام سے توبہ کرلی ہے۔کلاس میں اب سب اس کے دوست ہیں کیونکہ علی اب نہ کسی کو تنگ کرتا ہے نہ کوئی شرارت کرتا ہے بلکہ وہ سب کا خیال رکھتا ہے۔

مسکرائیے

٭سپاہی(کاروالے سے)گاڑی کے کاغزات دکھائے
کار والا تمہاری سروس کو کتنا عرصہ ہو گیا ہے
سپاہی:دس سال:
کار والا حیرت ہے اتنے عرصہ ہوگیا ابھی تک تم نے گاڑی کے کاغذات نہیں دیکھے۔
٭٭٭
٭چارچوہے درختوں کی شاخ پر بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے۔ گھنے جنگل سے ایک ہاتھی نمودار دار ہوا درخت کے نیچے سے گزرا اچانک ایک چوہے پاؤں پھسلا اور وہ ہاتھی پر جابیٹھا یہ دیکھ کر تین چوہے پر جوش انداز میں چلانے لگے کچل ڈالو کچل ڈالو اس نے ہمارے بہتسارے ساتھی کچلے ہیں ۔
٭٭٭
٭ایک شہری گاؤںپہنچا تواس نے کسان سے پوچھا۔
شہری سامنے جو گائے نظر آرہی ہے اس کے سینگ کیوںنہیں ہیں
سینگ نہ ہونے کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں بعض کے ٹوٹ جاتے ہیں بعض کے ہم خود کاٹ دیتے ہیں باقی رہی وہ سامنے والی گائے تو اس کے سینگ نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ گائے نہیں گھوڑاہے۔
٭٭٭
٭ ایک بیمار بچے کو اس کا باپ ڈاکٹر کے پاس لے گیا ڈاکٹر نے دل کی حالت دیکھنے کے لئے لڑ کے کے سینے پر آلہ لگایا اور کہا: بیٹے ذرا دس تک گنتی گنو‘‘۔ لڑکا گھبرا کر بولا:’’ابا جان! آپ تو کہتے تھے مجھے ہسپتال لے جائیں گے مگر یہ تو اسکول ہے‘‘۔
٭٭٭
٭ایک صاحب اپنے گھر میں اسٹول پر کھڑے برش سے دیوار پر پینٹ کر رہے تھے۔ ان کی بیگم آئیں اور کہا۔ ’’اجی میں نے کہا برش کو مضبوطی سے پکڑ لیجئے۔ میں اسٹول دوسرے کمرے میں لے جا رہی ہوں۔‘‘
٭٭٭

حصہ