بہار کا استقبال

211

فرحی نعیم
’’اور سنائو رمضان کی تیاری ہوگئی؟‘‘
’’رمضان تو بس آنے ہی والے ہیں، خریداری کرلی رمضان کی؟ اور کی شاپنگ؟‘‘
رمضان کی آمد آمد ہے اور اس طرح یا اس سے ملتے جلتے جملے یقینا آپ کو اپنے اردگرد سنائی دے رہے ہوں گے، اور خواتین آپ سے بھی دریافت کررہی ہوں گی۔ رمضان کی تیاری سے مراد عموماً باورچی خانے کے راشن کی تیاری جس میں آلو، بیسن، چنے، گوشت، قیمہ، مختلف اقسام کے مشروبات وغیرہ ہوتے ہیں، یا پھر گھر کے لیے ضروری اشیا کی خریداری ہوتی ہے، اور اسی قسم کے مضامین بھی ہم مختلف اخبارات و رسائل میں پڑھتے ہیں کہ آمدِ رمضان سے قبل اپنی خریداری کرکے رکھیں، یا پھر گھر کی صفائی، مختلف مسالہ جات کی تیاری، رول، سموسے وغیرہ کی پہلے سے تیاری، گھر کے افراد کے ملبوسات اور اس سے متعلقہ چیزوں کی خریداری وغیرہ وغیرہ۔
رمضان کی تیاری دل و دماغ میں ایسے ہی محدود خیالات لاتی ہے، اور یہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں، کیوں کہ ہمارا ماحول ہی کچھ ایسا بن گیا ہے۔ رمضان کی آمد نت نئے کھانوں اور ان کی تراکیب کی مشق، لان کے نئے جوڑے اور گھر کی جھاڑ پونجھ تک ہی سمٹ کر رہ گئی ہے، یہ سوچے بغیر کہ کتنی قیمتی گھڑیاں اور بابرکت لمحے ہم پر سایہ فگن ہورہے ہیں۔ تو پھر اِس دفعہ ہم آمدِ رمضان سے قبل اپنے ضروری کاموں کے علاوہ تیاری بھی کریں کہ ہمیں اس رمضان المبارک میں صرف ناظرہ قرآن پاک ہی نہیں پڑھنا بلکہ ترجمہ بھی پڑھنا ہے۔ روز کتنی تلاوت کرنی ہے، چند نئی سورتوںکو حفظ بھی کرنا ہے، نوافل بھی ادا کیے جائیں گے، کون سی تفسیر یا حدیث ہمارے زیر مطالعہ ہوگی، رمضان کے فیوض و برکات کے حصول کے لیے کون سے اذکار کرنا ہیں، ہماری زکوٰۃ کا مصرف کہاں اور کیا ہوگا؟ راشن کن مستحق لوگوں تک پہنچانا ہے (اگر استطاعت ہے تو) کم از کم کھجور کا ایک ایک پیکٹ تو ضرور اپنے جاننے والوں اور پڑوسیوں کو ہدیتاً بھیجیں۔ اپنے گھر میں کام کرنے والی ملازمہ پرکام کا بوجھ کم کردیں، کیوں کہ یہ بھی ایک حدیث سے ثابت ہے کہ کام کروانے میں صرف اپنی ہی سہولت نہ دیکھیں بلکہ اُس کی سہولت بھی پیش نظر رکھیں۔ ساتھ ساتھ اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے اپنے اندر صبر، برداشت، تحمل، رواداری، سچ اور درگزر جیسے اوصاف پیدا کرنے ہیں اور لغو کاموں سے پرہیز کرنا ہے۔ اپنے نامۂ اعمال سے پچھلے گناہوں کی صفائی اور نیکیوں کی طرف رغبت کرنی ہے تاکہ نہ صرف رمضان بلکہ رمضان کے بعد بھی ایک نیا انسان، ایک نئی شخصیت ہمارے سامنے آئے۔ ہر برائی سے بچنے کی کوشش کرنا اور خدا خوفی کو اختیار کرکے نیکیوں کو اپنے اندر پنپنے کا موقع دینا ہے، کیوں کہ روزے کا اصل مقصد ہی تقویٰ کا حصول ہے۔
ان انمول گھڑیوں کا اجر و ثواب بھی بے حساب ہے جو ہم کو اپنی محنت، لگن اور اخلاص کے ساتھ حاصل کرنا ہے۔ کوئی سُستی، لاپروائی اور غفلت نہیں برتنی، کیوں کہ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ زندگی کا کوئی بھروسا نہیں، وقت اور حالات کل کیا ہوں، کیسے ہوں ہم نہیں جانتے۔ اگر آج فراغت ہے تو اس سے فائدہ اٹھائیں، کیوں کہ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ اگلا رمضان ہماری قسمت میں ہے یا نہیں، لہٰذا اِس رمضان کو اپنی زندگی کا قیمتی تحفہ سمجھ کر وصول کریں اور پھر اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں۔ یہ وہ خاص الخاص مہمان ہیں جو سال میں صرف ایک دفعہ آتے ہیں، اور عقل مند وہی ہے جو مہمانوں کی آمد سے پہلے ہی اُن کے استقبال کی تیاری اُن کے شایانِ شان کرے۔ یاد رہے کہ ہم کو اپنا شمار بھی انہی عقل مندوں میں کرانا ہے۔

حصہ