انجمنِ فروغِ ادب بحرین کا گیارہواں عالمی مشاعرہ

275

احمد امیر پاشا، بحرین
انجمن فروغِ ادب ، بحرین کا گیارہواں عالمی مشاعرہ بیادِ شاہد نجیب آبادی اپنی تمام تر ادبی لطافتوں کیساتھ اختتام پذیر ہوا تو مشاعرے میں شریک شعرائے کرام اور سامعین و حاضرین کے حوصلہ افزا اور تہنیتی تاثرات نے اس کی شعری افادیت کو مزید اجاگر کر دیا۔مملکتِ بحرین کے دارالحکومت منامہ کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں منعقدہ اس مشاعرے کی بنیادی غائت، بحرین و گلف کے ممتاز شاعر اور علمی شخصیت شاہد نجیب آبادی(مرحوم و مغفور) کی جملہ خدمات کو شایانِ شان انداز میں خراج پیش کر نا تھا۔اس سے قبل بھی ۲۰۰۷ء میں کچھ ادب نواز دوست اس حوالے سے جشنِ شاہد کا اہتمام کر چکے ہیں۔اس عالمی مشاعرے کی صدارت، پاک و ہند کے نامور شاعر،ادیب، محقق،معلّم اور تنقید نگار ڈاکٹر پیرزادہ قاسم صدیقی نے کی، مہمانِ خصوصی عزت مآب سفیرِ پاکستان برائے بحرین، افضال محمود تھے جبکہ مہمانِ اعزازناصر علی خان(فرزندِ شاہد نجیب آبادی) تھے۔ یہ عالمی مشاعرہ دو حصوں پر مشتمل تھا، پہلا حصہ صاحبِ مشاعرہ کی تحدیثِ خدمات اور اس حوالے سے اُن کے لئے لکھے گئے مضامین و کلام اور مہمان شعراء کی شعری نگارشات ہر مبنی مجلّے اظہار کی تقریبِ اجراء ، جبکہ دوسرا حصہ مشاعرے سے منسوب تھا۔ابتدائی حصے کی نظامت کے فرائض مجتبیٰ برلاس نے سر انجام دئے۔
انجمن فروغِ ادب کے کنوینر اور بحرین کے معروف شاعر طاہر عظیم نے اپنے استقبالیہ اظہارئے میں معزز شعرائے کرام اور شرکائے مشاعرہ کا شکریہ ادا کرتے ہو کہا کہ ’’ ہماری ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ ہم اپنے مشاعرے ان شخصیات سے منسوب کریں جو واقعی اس کے حقدار ہیں۔آج سے قبل اس سلسلے میں انجمن،بیادِ عطا شاد، عزم بہزاد،قابل اجمیری،سلیم احمد اور بیادِ سعید قیس ، عالمی مشاعرے منعقد کر چکی ہے
،’’انجمن فروغِ ادب، کے گیارہویں عالمی مشاعرے کے انعقاد پر اس مشاعرے کے منتظمین کو میں مجلسِ فخرِ بحرین برائے اُردو کی جانب سے دلی مبارکباد پیش کر تا ہوں، اس عالمی مشاعرے کا منفرد پہلو یہ ہے کہ اس کا انعقاد بحرین میں ادبی سلسلوں اور بحرین ریڈیو کے معمار جناب شاہد نجیب آبادی کی یاد میں کیا جا رہا ہے۔ میرے ذہن میں ہمیشہ ہی ان کی نفیس اور صلح جُو شخصیت کا ایک گہرا تاثر بنا رہا۔وہ اچھے شاعر بھی تھے، اور اس سے بڑھ کر ایک اچھے انسان تھے۔میں فروری ۱۹۷۶ء میں بحرین آیا، پھر ادب اور شعرو شاعری کے حوالے سے ان کے ساتھ ملاقاتیں رہیں۔انہیں شعرو شاعری کی محفلیں منعقد کر نے کا جنون تھا، اس زمانے میں شعرو شاعری کی جتنی بھی محفلیں منعقد ہوتی تھیں، ان کا بندوبست شاہد نجیب آبادی خودکیا کرتے تھے۔اس سلسلے میں وہ نہ صرف ان محافل کے لئے ذرائع مہیا کرتے بلکہ ان نشستوں میں شرکت کے لئے احباب کو آمادہ بھی کرتے تھے۔ان کے ساتھ ان کے معاون کچھ دوست بھی تھے، جن میں سعید قیس صاحب ، نور پٹھان، عزیز ہاشمی، خورشید علیگ اور الطاف رانا قابلِ ذکر ہیں،اس زمانے میں بہت اچھے شعراء بحرین آئے لیکن وہ اب ہم میں نہیں ہیں، ان میں سے ایک محبوب شفق بھی تھے۔اچھے شعر کہتے تھے۔ ،اخلاق احمد (جو وقارؔ تخلّص کرتے تھے)ان ادبی سلسلوں میں کم و بیش یہ سبھی لوگ فعال تھے لیکن ان سلسلوں کے اصل روحِ رواں شاہد نجیب آبادی ہی تھے۔ان کی سوچ بڑی مثبت اور دوستانہ تھی۔وہ کبھی کوئی متنازعہ بات نہیں کر تے تھے۔وہ اپنی ذات اور شاعری میں بڑے حقیقت پسند تھے،
احمدعادل نے جناب شاہدنجیب آبادی کے قریبی دوست نورپٹھان کی یاد داشتوں پر مشتمل تحریر پیش کرتے ہوے کہا’’ سن باسٹھ میں بحرین میں دو چار ہی شاعر ہوتے تھے جیسے شاہد بھاء، جمیل جعفری، عزیز جعفری، شجعی جعفری۔ ان سبکو ساتھ رکھنا اور انکے فن کو زندہ رکھنا یہ شاہد بھاء کا مشن تھا۔ اگر میں یہ کہوں کہ بحرین میں اردو مشاعروں کی داغ بیل شاہد بھاء نے ڈالی تو یہ غلط نہ ہوگا۔شاہد بھائی نے کبھی کسی کو بُرانہیں کہا۔ شاہد بھائی کی عام حو صلہ افزاء کی وجہ سے مشاعرے کا ایک معیار قائم ہو گیا تھا کچھ یاد بھی ہیں جیسے عزیز جعفری کا شعر

کھیل پر اس بچپنے کے، ایک عالم ہے نثار
لفظِ دل لکھئیے زمیں پر اور مٹاتے جائیے۔

مہمانِ خصوصی عزت مآب سفیر پاکستان برائے بحرین افضال محمود نے شرکائے عالمی مشاعرہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ، ’’ میں مشکور ہوں منتظمینِ مشاعرہ کا جنہوں نے مجھے یہاں کھڑا ہو نے کی اجازت دی، اس کے بعد میں بیحد مشکور ہوں ان شعرا کا جو بہت سارا فاصلہ طے کر کے یہاں آئے اور اس مشاعرے کو رونق بخشی۔اس کے علاوہ میں بہت دل کی گہرائیوں سے مشکور ہوں پیرزادہ قاسم کا جنہوں نے اس مشاعرے کو رونق بخشی۔ہم لوگ خوش قسمت ہیں کہ آج یہاں موجود ہیں۔میں بہت زیادہ واقف نہیں تھا شاہد نجیب آبادی صاحب سے لیکن جو خوبصورت باتیں اُن کے حوالے سے ہوئیں، اور جس دل جمعی سے انہوں نے کام کیا، اور اور کلچر کی ترقی کے حوالے سے ہم سب ان کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔

کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تونے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا

میں تو چل رہا ہوں ، اس تلاش میں ہوں ، اس گردوں کی جس سے ہم ٹوٹ کر بکھر گئے،اللہ کی مہربانی ہے کہ اقبال کا ایک شعر سمجھ میں آیا،میں جب تھرڈ ائیر ، فورتھ ائیر میں تھا اقبال کا فارسی کام پڑھا، اس میں اقبال یونیورسیلیٹی کی جانب مائل ہیں۔علامہ اقبال کی ایک فارسی نظم ہے ، اس میںوہ مسلم امہ کو پیغام دیتے ہیں کہ اگر تم ہمت کرو تو منزل دشوار نہیں ہے،
میں ایک مرتبہ پھر اس مشاعرے میں شرکت کیلئے آنے پر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں‘‘۔
اس عالمی تقریب کے ابتدائی حصے کے نا ظم مجتبیٰ برلاس نے مہمانِ اعزاز ، فرزندِ شاہد نجیب آبادی کو اظہارِ خیال کی دعوت دی تو انہوں نے گہرے جذباتِ تشکر کیساتھ اس عالمی مشاعرے کے انعقاد اور اس کے شاندار انتظامات پر طاہر عظیم اور دیگر تمام اراکینِ انجمن کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ’’ بلا شبہ ہمارے والدگرامی اُردواور تاریخِ اسلام سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔آپ کو شعرو ادب اور انسانی خدمت جیسے امور سے جنون کی حد تک لگائو تھا۔وہ بڑے نفیس اور منظم طبیعت کے مالک تھے۔وہ عوامی فلاح کے جذبے سے سرشار تھے۔ ہمیں فخر ہے کہ آج انجمن فروغِ ادب کی جانب سے اُ ن کی خدمات کے اعتراف میں ایسا شاندار عالمی مشاعرہ منعقد کیا جا رہا ہے۔ہمارے والد کتاب و قلم سے عشق کی حد تک پیار کر تے تھے۔انہوں نے عمر بھر علم کی ترقی اور ادبی سلسلوں کی نشوونما کے لئے کام کیا،اللہ ان کو غریقِ رحمت کرے ِ ۔(آمین ث م آمین)ان کے علاوہ ان کے دوسرے دو بھائیوں عارف علی خان اوڈاکٹر آصف علی خان نے بھی شرکائے مشاعرہ سے اہنے مخٹصر خطاب میں انجمن فروغِ ادب کی اپنے والدِ گرامی کوہدیہ سپاس پیش کرنے کی اس کاوش کوسراہا، مہمانِ اعزاز کے خطاب کے بعد شاہد نجیب آبادی کی سوانح اور کلام کے حوالے سے ایک خوؓصور مجلے کا اجراء عمل میں لایا گیا۔ اس مجلّیــ’’ اظہار ‘‘ کی تقریب اجراء، صدرِ مشاعرہ، مہمانِ خصوصی، مہمانِ اعزاز ،پاک و ہند اور بحرین کے شعرائے کرام اور انجمن کے جملہ منتظمین کے ہاتھوں انجام پائی۔اس عالمی مشاعرے کو عمدہ اور نفیس کلام کے حوالے سے مدتوں یاد رکھا جائے گا۔تمام شعراء نے بھر پور انداز میں اپنا کلام پیش کیا اور شرکائے مشاعرہ سے خوب داد وصول کی۔
عدنان افضال

آرزو کا نشان ہی نہ رہا
دل کو اب تیرا دھیان ہی نہ رہا
آ گیا خود میں درمیان اپنے
جب کوئی درمیان ہی نہ رہا

طاہرعظیم

پہلے ہم سوچتے تھے بات کبھی ہوجائے
اب تو ممکن ہے ملاقات کبھی ہوجائے
آج بارش نے بھگویا تو مجھے یاد آیا
اس کی خواہش تھی کہ برسات کبھی ہوجائے

احمد امیر ؔپاشا
احمد امیر پاشا (راقم الحروف)

یوں بھی تو تم پہ وصل کا منظر نہیں کھلا
دل کی جگہ تھا بند دریچہ لکھا ہوا

رخسار ناظم آبادی

یہ زندگی نئے منظر دکھا رہی ہے مجھے
ابتدا کرتا ہوں رب کے نام سے

احمد عادلؔ

اپنی فطرت بدل نہیں سکتے
بے خودی میں سنبھل نہیں سکتے

تعمیرِ ذات ہی میں لگی زندگی تمام
خالق بنا رہا تھا، بنا جا رہا تھا میں

عمرانؔ شمشاد

ڈھونڈئے دن رات ،ہفتوں اور مہینوں کے بٹن
لا مکاں میں کھو گئے ہیں ان مکینوں کے بٹن
درسِ تقویٰ دینے والے کی قبا پر دیکھئے
سونے چاندی اور چمکیلے نگینوں کے بٹن

ڈاکٹر کبیر اطہر

روز و شب یوں نہ گزارے ہوتے
چین آجاتا اگر کھیل کے ہارے ہوتے
کہیں میںسے دیر پہنچوں تو یاد آتا ہے
کہیں میں وقت سے پہلے بھی جایا کرتا تھا

منصورعثمانی

غزل کے شہر میں شاعر ہزار ہیں لیکن
کسی کا میر سے اونچا مقام تھوڑی ہیں

نسیم نازش

ہمیں تیری تمنا نہیں ہے
آنکھ کو ذوق تماشہ نہیں ہے

جوہر ؔ کانپوری

پرانے مسئلے وہ اس طرح دبا دے گا
کہ آج کوئی نیا مسئلہ اٹھا دے گا

فرحت عباس شاہ

بدل گئے مرے موسم تو یار اب آئے
غموں نے چاٹ لیا غم گُسار اب آئے

اسلم بدر

میں کامیاب ہوا ، دائیں ہاتھ میں میرے
کتاب سی تھی کوئی شے ، حساب سا کچھ تھا

پیرزادہ قاسم

ان کے کلام کی جھلک قارئین کی نذر ہے،
ہماری طرح کوئی دوسرا ہوا بھی نہیں
وہ درد دل میں رکھا ہے جو لا دوا بھی نہیں
عجیب طرح سے روشن ہوئی ہے خلوتِ غم
کہ روشنی ہے بہت اور دیا جلا بھی نہی

حصہ