امانت

868

عشرت زاہد
’’یا میرے مالک تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ احسان ہے تیرا میرے رب، تُو نے میرے بیٹے کا گھر آباد کردیا۔ وارث دے دیا اس کو۔ یااللہ تُو نے اس کی سُونی زندگی میں رونق اور بہار دے دی۔
یااللہ یہ جیتی جاگتی گڑیا تُو نے ہمیں عطا کردی۔ یااللہ تیرا لاکھ شکر، تیرا ہی احسان ہے۔ یااللہ اتنے انتظار کے بعد یہ نعمت ملی ہے… بس تُو اس کو صحت کے ساتھ زندگی بھی بخش دے… یااللہ تُو نے اولاد دی ہے تو صحت بھی دے دے میرے مالک…‘‘
وہ کبھی سجدے میں جاتیں اور کبھی ہاتھ اٹھا کر آنکھیں بند کرکے زار و قطار روتے ہوئے، گڑگڑاتے ہوئے بس یہی کچھ کہہ رہی تھیں۔ آنسو تھے کہ تھمتے ہی نہیں تھے اور زبان بھی کلمۂ شکر ادا کرتے نہ تھکتی تھی۔
’’بس کردیں خالہ، کیوں ہلکان ہوئے جارہی ہیں؟ یہ لیں پانی پی لیں۔ اب اٹھ بھی جائیں جاء نماز پر سے۔‘‘
’’ارے میرے بیٹی، اولاد نہیں تھی جب بھی اسی طرح گڑگڑا گڑگڑا کر، رو رو کر اللہ سے مانگتی تھی ناں اولاد۔ اب اس نے دی ہے تو اسی خوشی میں سجدۂ شکر ادا کررہی ہوں، اور یہ خوشی کے آنسو بہہ رہے ہیں۔‘‘
میں نے ان کے پاس بیٹھ کر انہیں اپنے گلے سے لگا لیا۔ ان کی ہچکیاں بند ہی نہیں ہورہی تھیں۔ پانی پی کر کچھ دیر میں خاموش ہوگئی تھیں۔ پھر بھی نہ جانے کیا سوچ کر آنسو بہنے لگے۔
’’اب کیا سوچ رہی ہیں خالہ؟‘‘
’’ارے بیٹا جی، ساری زندگی اس خوش خبری کے لیے ترستی رہی ہوں۔ اس خبر کو سننے کے لیے کان ترس گئے تھے۔‘‘
’’ساری زندگی…! کیا مطلب؟‘‘
’’ہاں بیٹا جی، میں اپنی شادی کے بعد بھی یہ خبر سننے کو ترستی تھی، مجھے بھی اللہ نے تین مرتبہ خوش خبری دی تھی لیکن وہ مکمل ہونے سے پہلے ہی واپس لے لی۔ ایک مرتبہ بیٹا پیدا ہوا مگر دو گھنٹے کے بعد ہی دم توڑ گیا، پھر اولاد کے لیے ترستے میرے وجود کو میرے بھائی نے آسودہ کیا۔ اپنی دوسری اولاد میرے نام کردی۔ اس نے کہا تھا ’’آپا، بیٹا ہو یا بیٹی، یہ اب آپ کی امانت ہے‘‘۔ اُس کی بیوی نے بھی خوشی خوشی اجازت دے دی تھی۔ اللہ اس کو ہمیشہ خوش رکھے، اور اللہ نے اُس سے اُس کی یہ قربانی قبول بھی کرلی تھی۔‘‘
’’آپ کو کیسے پتا چلا کہ قبول ہوگئی؟‘‘
’’اللہ تعالیٰ نے اُس کو اس بار یہ انعام دیا کہ اسے دو جڑواں بیٹوں سے نوازا۔ ایک گورا چٹا بالکل میری بھابھی جیسا، اور دوسرا سانولا سلونا جیسے میرا بیٹا ہو۔ بس میں نے اس کو گود میں لے لیا اور بھائی بھابھی نے بھی خوشی سے اس کو میرے سپرد کردیا۔ عرشی، یہ جو خالد ہے ناں، میرا وہی بیٹا ہے۔‘‘
’’اچھا خالہ، کہیں سے بھی نہیں لگتا کہ خالد بھائی آپ کے سگے بیٹے نہیں ہیں۔ آپ نے تو کمال ہی کردیا‘‘۔ واقعی میں اُن کے ہاتھ کو دباتے ہوئے حیرت سی چیخ پڑی تھی۔
’’خالد میرا ہیرے جیسا اور سعادت مند بیٹا ہے۔ پھر میں نے ہر دھوپ سے، گرم ہوا سے، سردی سے، بارش سے اور زمانے کے سرد وگرم سے بھی اس کو بچایا ہے۔ اس سے کبھی پوچھنا کہ کبھی اس کی کوئی خواہش، کوئی تمنا ادھوری رہی ہے؟ اللہ بخشے تیرے خالو کو، انہوں نے بھی بالکل سگی اولاد کی طرح چاہا تھا اس کو۔ پھر میں نے اس کی بہت اچھی تربیت کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ تم بتائو، کہیں سے کوئی کمی لگتی ہے اس کے اخلاق میں، اس کی عادات میں، تعلیم و تربیت میں، بڑوں کے ادب، چھوٹوں سے شفقت اور اب بیوی سے محبت میں، اپنی ماں کا خیال رکھنے میں، پڑوسی اور رشتہ داروں سے تعلق میں، نماز روزوں میں، عبادت میں، اور فی سبیل اللہ کام کرنے میں، مال خرچ کرنے میں؟ میرا خالد ہر طرح سے کامیاب ہے۔ یااللہ اس کو سدا خوش رکھنا اور اولاد کی خوشیاں دکھانا، آمین۔
عرشی، یہ جو لے پالک اولاد ہوتی ہے ناں، اس کو ایسی اولاد سے سگی ماں سے بھی زیادہ پیار ہوتا ہے۔ کیونکہ سگی ماں کو تو اکثر بن مانگے ہی یہ نعمت مل جاتی ہے۔ اس کو ترسنا نہیں پڑتا۔ اگر کبھی دیر ہو بھی جاتی ہے تو کہیں نہ کہیں یہ آس، امید ہوتی ہے کہ اللہ کی رحمت ہوجائے گی۔
لیکن جب بہت سال گزر جائیں اور آس امید ٹوٹنے لگ جائے، اور پھر ایسے وقت میں گود میں کوئی اولاد آجائے، چاہے وہ دوسرے کی ہی کیوں نہ ہو، اس سے ایسی محبت ہوجاتی ہے کہ پوچھو مت۔ بس پھر یہ ماں، تن من دھن سے اس کی خدمت اور تربیت میں لگ جاتی ہے۔
لیکن اس کو بڑی احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ زمانے بھر کی نظریں اسی کی طرف ہوتی ہیں۔ کبھی کسی غلطی پر اس کو ہلکا سا دھپ لگا دے تو غضب ہوجاتا ہے۔ لوگ طعنے دیتے ہیں: دیکھا… سگی اولاد نہیں ہے ناں، کیسے بے دردی سے مارتی ہے۔ سگی ماں چاہے کتنا بھی دھنک کر رکھ دے اپنی اولاد کو۔ اور اگر خدانخواستہ بچہ بگڑجائے تو بھی لوگ جینے نہیں دیتے۔ بہت لاڈ کرو تب بھی پریشان کرتے ہیں، چین سے نہیں رہنے دیتے۔ اگر ٹھیک سے تربیت نہیں کرنی تھی تو پھر کیوں لیا تھا گود؟ اس طرح کے طعنے ملتے ہیں۔ بہت پھونک پھونک کر قدم اٹھانا پڑتا ہے۔
بیٹے میں نے تو ہر ہر لمحہ محتاط رہ کر گزارا ہے۔ میرے رب نے میری بہت مدد کی۔ ہر قدم پر رہنمائی کی۔ یہ تو میرے پاس امانت تھی اللہ کی۔ اگر اس کو اچھا انسان اور اچھا مسلمان نہیں بناتی تو مجھے تو جواب دہی کرنی پڑتی ناں؟‘‘
’’جی جی خالہ، بے شک آپ نے جو کیا ہے اس کی مثال کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اللہ آپ کی کوشش کو قبول کرے، آمین۔‘‘
’’ہاں میری بھی یہی دعا ہے… اچھا، تم ذرا صائمہ کے پاس جائو، میں منی کو دیکھ کر آتی ہوں۔‘‘
وہ جاء نماز سے اٹھتے ہوئے بولیں۔ یہ ساری گفتگو اسپتال میں نماز کے لیے بنائی گئی چھوٹی سی جگہ پر بیٹھ کر ہو رہی تھی۔ یہ میری امی کی خالہ زاد بہن ہیں۔ میرا گھر اسپتال سے بہت قریب ہے، اس لیے انہوں نے مجھے بلوا لیا تھا کہ ان کی بہو کے پاس بیٹھ جاؤں۔ نوزائیدہ بچی کچھ کمزور تھی، اس لیے اسے دو دن تک نرسری میں رکھنے کے لیے کہا گیا تھا، اور خالہ کا یہ حال تھا کہ کبھی شیشے سے لگ کر بچی کو دیکھتی رہتیں اور کبھی صائمہ کے کمرے میں جاکر اُس کو دیکھتیں کہ کہیں کسی چیز کی ضرورت تو نہیں ہے۔ میں نے ہاتھ پکڑ کر اُن کو اپنے پاس ہی بینچ پر بٹھا لیا ’’کچھ دیر کے لیے بیٹھ جائیں۔ کب سے بھاگ دوڑ میں لگی ہوئی ہیں۔ تھک گئی ہوں گی۔ یہ تھوڑا سوپ آپ بھی پی لیں‘‘۔ لیکن ان کا دل کسی کھانے میں لگ رہا تھا اور نہ لیٹ کر آرام کرنے میں۔
’’اب گھر جاکر ہی آرام کریں گے بیٹا۔ بس میری، مالک سے یہ دعا ہے کہ خیریت کے ساتھ گھر لوٹ جائیں۔‘‘
انہوں نے بڑے مان سے مبشرہ نام تجویز کیا۔ بہو کے چہرے کے زاویے بگڑتے دیکھ کر میں نے کہا ’’خالہ وہ بشریٰ بھی اچھا لگے گا۔ معنی بھی ایک جیسے ہی ہیں۔‘‘
’’ہاں یہ بھی اچھا ہے۔ کیوں صائمہ، تمہیں کیسا لگا؟‘‘
’’بس امی ’بشریٰ‘ ٹھیک ہے، پکارنے میں بھی چھوٹا ہے۔‘‘
’’اللہ تمہیں خوش رکھے۔ اگر تمہارے دل میں کوئی اور نام ہے تو وہ رکھ لینا۔ یہ تو میں نے بہت پہلے سوچا ہوا تھا کہ اگر خالد کی بیٹی ہوئی تو مبشرہ نام رکھوں گی۔ اللہ اس کو لمبی عمر اور صحت و تندرستی دے۔ آمین‘‘
’’امی اگر آپ کو مبشرہ پسند ہے تو وہی رکھ لیتے ہیں۔‘‘ دونوں کی آپس میں محبت اور خلوص دیکھ کر میں سوچنے لگی کہ کیسا خوبصورت تعلق ہے ان دونوں کا آپس میں۔ واقعی خالہ نے بہت محنت اور دعاؤں کے ساتھ بیٹے کی تربیت کی ہے۔ ایک مثالی بیٹا، مثالی ماں اور مثالی بہو۔ بھائی کی اولاد کو گود لے کر انہوں نے اپنی ذمہ داری پوری کی تھی۔ وہ سگی ماں ہوں یا نہ ہوں، مامتا پر تو کسی کی اجارہ داری نہیں ہوتی ہے ناں۔ یہ تو اللہ کی دین ہے، اور اس نعمت کا خالہ نے خوب حق ادا کردیا تھا۔

فجر کی نعمت

افسانہ مہر

ٹھنڈی ٹھنڈی پیاری فضا
دھیمے دھیمے چلی ہوا
چرند، پرند اور اہل ِوفا
اللہ اللہ، ایک صدا
تم کیا جانو فجر ہے کیا؟
فجر کی نعمت سب سے جدا،
فجر میں جاگے خلقِ خدا
پائے برکت نعمت سدا
توفیق ذکر رَب اُولیٰ
توصیفِ آدم جانو ذرا
فجر کی نعمت سب سے جدا
تم کیا جانو فجر ہے کیا…
وقت کی برکت ملتی ہے
شہرت، عظمت ملتی ہے
دستِ ملائک ملتا ہے
جاگو جو تم علی الصبح
فجر کی نعمت سب سے جدا
پھر تم جانو، فجر ہے کیا!
صبح خیزی جِم سے بھلی
تازہ دھوپ صحت بڑی
سُستی ہے بیماری بڑی
جلدی سونا، ہلکی دوا
فجر کی نعمت سب سے جدا
تم کیا جانو، فجر ہے کیا!

حصہ