افغانستان، ایک خودمختار ملک

388

ضیاء اللہ گلگتی
افغانستان وسط ایشیا برصغیر اور چین کے سنگم پر واقع ہے۔ صدیوں سے یہ سرزمین امت مسلمہ کو ایسے صاحب ایمان، بلند ہمت، نڈر اور الوالعزم رجال کا کار مہیا کرتی آرہی ہے، جنہیں بجا طور پر مذکورہ عربی شعر کے مصداق کہا جاسکتا ہے۔ ’’یہ ایسے لوگ ہیں کہ جب دشمن سے ٹکراتے ہیں تو حریف کا اسلحہ ان کی نگاہوں میں گھوڑوں کا گرد وغبار معلوم ہوتا ہے‘‘۔
افغانستان کے باشندوں کی حمیّت ایمانی اور دینی جوش وجذبے کا تذکرہ کرتے ہوئے عالم عرب کے نام ور مورخ ’’امیر شکیب ارسلان‘‘ بے ساختہ کہہ اٹھتے ہیں: ’’میرے رب کی قسم! اگر ساری دنیا میں اسلام کی نبض ڈوب جائے، کہیں بھی اس میں رمق باقی نہ رہے تب بھی کوہ ہمالیہ اور کوہ ہندوکش کے درمیان بسنے والوں میں اسلام زندہ رہے گا اور ان کا عزم جوان رہے گا‘‘۔
افغانستان کو ایشیا کا دل، وسط ایشیا کا دروازہ اور فاتحین کی شاہ راہ بھی کہا جاتا ہے۔ ہزاروں سال سے یہاں قبائلی سیاست راج چلا آرہا ہے۔ اسلام سے قبل یہاں قبائلی سرداری ہر قید وبند سے آزاد تھی۔ اشاعت اسلام کے بعد اس پر اسلامی تہذیب وتمدن کی ایسی گہری چھاپ لگی، جسے آج تک دھندلایا نہیں جا سکا۔ اس کے مشرق میں کوہ ِ سیاہ اور کوہ ِسلیمان، افغان سرحد کو پاکستان سے جدا کرتے ہیں۔ ان ہی پہاڑوں میں درّہ ِخیبر، درّہ ِگومل، درّہ ِ ٹوچی اور درّہ ِ بولان واقع ہیں، جنہیں عبور کر کے بڑے بڑے فاتحین برصغیر پہنچتے رہے ہیں۔ کابل کے شمال میں واقع کوہ ِ ہندوکش ملک کا سب سے بلند پہاڑی سلسلہ ہے، جو شمال مشرق میں پامیر سے شروع ہوکر جنوب مغرب کی طرف پھیلتا چلا گیا ہے۔ اس کوہستانی سلسلے کی بلندی بعض مقامات پر بیس ہزار فٹ جا پہنچتی ہے۔
پامیر کے کہسار اسے چین سے جدا کرتے ہیں۔ وسطی افغانستان کی سرزمین سطح سمندر سے 6ہزار فٹ بلند ہے۔ ملک میں دریا بہت کم ہیں اور جو ہیں وہ زیادہ بڑے نہیں۔ دریائے کابل، کابل شہر کے درمیان سے گزرتا ہے اور جلال آباد کے نزدیک دریائے کنٹر سے مل کر پاکستان کی حدود میں اٹک کے نزدیک دریائے سندھ میں جا گرتا ہے۔ دریائے ہلمند اور دریائے ہری رود ہرات کے گردونواح کو سیراب کرتے ہیں اور سیستان کے صحرا میں ختم ہوجاتے ہیں۔ دریائے آمو ملک کی شمالی سرحد ہے، جو روس اور افغانستان کو الگ کرتا ہے۔ یہ پامیر کی برف پوش چوٹیوں سے نکل کر وسط ایشیاکے بحیرۂ ارل میں جا گرتا ہے۔
یہ ملک معدنی دولت سے مالا مال ہے۔ ہیرے، موتی، کوئلہ، گیس، تانبا، گندھک، ابرق، جست، سرمہ، لوہا، سنگ مرمر اور نمک جیسی قیمتی معدنیات کے بے شمار ذخائر اس کی خاک میں پوشیدہ ہیں۔ سرد آب وہوا کے اس ملک کے مشرقی اور وسطی صوبوں میں موسم سرما برف کی چادر اوڑھ کر آتا ہے۔ کابل، غزنی، فراہ سمیت تمام جنوبی مغربی اضلاع اور دریائے آمو سے متصلہ علاقوں مزار شریف، جلال آباد اور خوست کی گرمی بھی مشہور ہے۔
افغانستان کا کل رقبہ 647500 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے۔ جس میں 2کروڑ 60لاکھ سے زائد افراد بستے ہیں۔ اکثریت حنفی مسلک کی ہے۔ نسلی اور لسانی لحاظ سے یہ لوگ مختلف قبائل ہیں۔ افغانستان میں ایران کی سرحدوں کے ساتھ بلوچ قبائل بھی بستے ہیں۔ جلال آباد کے شمال میں واقع صوبے نورستان کے لوگ زبان اور نسل کے لحاظ سے الگ قوم ہیں۔ یہ ڈیڑھ صدی پہلے تک غیرمسلم تھے اور ان کا علاقہ کافرستان کہلاتا تھا مگر امیر عبدالرحمٰن کے زمانے میں انہوں نے اسلام قبول کرلیا جس کے بعد علاقے کا نام نورستان رکھ دیا گیا۔
2004 کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں پختون 42فی صد، تاجک 27فی صد، ازبک 10فی صد، ہزارہ جات 9فی صد، ترکمان 3فی صد اور بلوچ 2فی صد بستے ہیں۔ باقی چند فی صد نورستانی، بروہی اور پامیری ہیں۔ ملک میں غیرمسلم آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ تاہم، کابل اور دوسرے بڑے شہروں میں کچھ ہندو اور سکھ خاندان مدت سے آباد ہیں۔ ہندو کیمونٹی زیادہ تر تجارت پیشہ ہے۔ افغانوں کی مہمان نوازی مشہور ہے۔ شام کو اگر کوئی مسافر گھر میں آجائے تو عام طور پر اس کی خوب خاطرتواضع کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر ان کا کوئی دشمن بھی ان کی پناہ لینے کے لیے گھر آجائے تو وہ پرانے خونی خاندانی جھگڑے بھول جاتے ہیں۔ افغانوں کی یہ خصلت ان کے اس قانون برداری کا نتیجہ ہے جس کو وہ ’’پختون والی‘‘ کہتے ہیں جسے ہر چھوٹا بڑا افغان مانتا ہے۔ افغانستان ہر لحاظ سے ایک مضبوط اور جفاکش ملک ہے۔ یہاں کے لوگ اسلامی تعلیمات کے حوالے سے بہت معروف ہیں مگر یہاں کی خارجہ پالیسی نہ جانے کیوں آج تک ناکام ہے۔ طالبان اور امریکا کے درمیان جنگ ختم ہونے کے تاحال کچھ آثار نہیں، جس کی بنیادی کمزوری خارجہ پالیسی ہے۔ پاکستان کو ایک برادر ملک ہونے کے ناتے اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اب افغان مسئلے کا حل نکالنا بہت ضروری ہے۔ شاید پاکستان کا امن وامان بھی افغانستان کے امن وامان سے مشروط ہے۔

حصہ