“یہ تو میں بھی کرسکتا ہوں”

648

زاہد عباس
بندو بھائی بھی خوب ہیں، ہر کام کو دیکھ کر کہتے ہیں ’’یہ تو میں بھی کرسکتا ہوں‘‘۔ پچھلے دنوں شارع فیصل پر ون ویلنگ کرتے نوجوانوں کو دیکھ کر حسبِ عادت بولے ’’یہ کون سی بڑی بات ہے! یہ تو میں بھی کرلوں‘‘۔
حنیف بھائی تو جیسے پہلے سے ہی انتظار میں تھے، بائیک کا بریک لگاکر اپنے ساتھ بیٹھے بندو بھائی کو موٹر سائیکل کی چابی دیتے ہوئے بولے ’’بندو بھائی تم ہمیشہ شیخیاں بگھارتے رہتے ہو، چلو آج یہ کرتب کرکے دکھا ہی دو۔‘‘
بس پھر کیا تھا، اس سے پہلے کہ کامیابی بندو بھائی کے قدم چومتی وہ جناح اسپتال کی ایمرجنسی جا پہنچے، جہاں ڈاکٹروں نے کمر میں شدید ضربیں لگنے کے ساتھ ساتھ ٹانگ کی ہڈی میں فریکچر کی بھی تصدیق کردی، لیکن بندو بھائی کو تو جیسے اپنی ہی منوانی تھی، اس حالت میں بھی بولے ’’تمہاری موٹر سائیکل ٹھیک نہیں تھی، ورنہ میرے لیے ون ویلنگ کوئی مسئلہ نہیں، یہ تو میرے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے‘‘۔ یعنی ’’ناچ نہ آئے آنگن ٹیڑھا‘‘۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، آخری اطلاع آنے تک بندو بھائی اسپتال کے چکر ہی کاٹ رہے ہیں۔
ان کی حالت دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجھے۔ فضول باتیں کرنے یا بڑھکیں مارنے سے نقصان اور شرمندگی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ قدرت نے جتنی صلاحیت دی ہے اس کو استعمال کرنے سے ہی کامیابی ملا کرتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں بندو بھائیوں کی کمی نہیں۔ ہر دوسرا شخص اپنی بساط سے بڑھ کر باتیں کرنے کا ہنر جانتا ہے۔ عام آدمی کی بات تو چھوڑئیے، ہمارے ملک کے وزیراعظم کو ہی لے لیجیے، اقتدار میں آنے سے قبل کیا کچھ نہیں کہا! چوری روکنے سے لے کر لوٹی ہوئی دولت واپس لانے تک کے دعووں کو کون بھول سکتا ہے! یہ کردوں گا تو وہ کردوں گا کا راگ، ہزاروں ارب روپے نکلوانے سے لے کر بے روزگاروں کے لیے نوکریاں، کرپشن سے پاک معاشرہ، پیٹرول 50 روپے لیٹر، سستی اشیائے خورونوش کی فراہمی سمیت درجنوں وعدے وعید… اتنا سب کچھ… لیکن اقتدار ملتے ہی سب کچھ بندو کے دعوے ہی ثابت ہوئے۔
نیا پاکستان بنانے والوں نے غریب عوام کا کیا حال کردیا ہے، اس کا اندازہ گرمیِ بازار کو دیکھ کر کیا جاسکتا ہے، جہاں نہ صرف مہنگائی کا ایک طوفان آیا ہوا ہے بلکہ غیر معیاری پھل و سبزیوں اور گوشت کی سپلائی بھی جاری ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق چھوٹا گوشت ایک ہزار روپے سے 1200روپے کلو، جبکہ بڑا گوشت بغیر ہڈی 600 روپے کلو فروخت ہورہاہے۔ دوسری طرف مارکیٹوں اور بازاروں میں آئل، گھی، لیموں، مرغی کا گوشت، خشک دودھ، کھجور، بیسن، دالیں، چینی، پتی سمیت سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ جاری ہے۔ صرف چند دن کے دوران گھی اور آئل کی قیمتوں میں 8 روپے فی کلو تک اضافے سے پانچ کلو کے کارٹن پر کم از کم چالیس روپے کا اضافہ کردیا گیا۔ لیموں 240 روپے کلو فروخت ہورہے ہیں۔ دالوں خصوصاً دال چنا کی قیمت میں بھی اضافہ ہوگیا ہے جو 130روپے فی کلو تک فروخت ہورہی ہے۔ اسی طرح بیسن اور دیگر اشیائے ضروریہ شہریوں کو اوپن مارکیٹ سے مہنگے داموں خریدنا پڑ رہی ہیں۔ شربت کی بوتلوں کی قیمت میں گزشتہ سال کی نسبت پچاس روپے تک اضافہ کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ چائے کی پتی کی قیمت میں بھی دو سو روپے کلو تک اضافہ کرکے وزن بھی ساڑھے 9 سو گرام کردیا گیا ہے۔ سرخ مرچ، ٹوتھ پیسٹ، صابن سمیت برانڈڈ مسالوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے۔
یہاں بتاتا چلوں کہ جب بھی مَیں حکومت کی ناقص پالیسیوں یا ملک میں بڑھتی مہنگائی پر بات کرتا ہوں تو میرے دوست کہتے ہیں کہ تم ہمیشہ ہی حکومت کے خلاف بات کرتے رہتے ہو۔ اب میں انہیں کیا بتاؤں کہ اس مسئلے پر میں اکیلا ہی نہیں بلکہ ہر دردِ دل رکھنے والا شخص پریشان ہے، اور پھر میرا کام مظلوم عوام کی آواز بننا ہی تو ہے، اگر کسی کی نظر میں یہ جرم ہے تو میں یہ جرم کرتا رہوں گا۔ پاکستان کے عوام کو سہانے خواب دکھانے والے حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے معیشت کا جو حال ہوا ہے اُس کی ایک جھلک اِس اخباری رپورٹ میں بھی دیکھ لیجیے:
’’تبدیلی سرکار نے عوام سے جو وعدے کیے وہ انہیں وفا کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ موجودہ حکمرانوں کی بنائی ہوئی پالیسیوں کی وجہ سے عوام کو ریلیف ملنا تو دور کی بات، حکومت کی معاشی پالیسیاں متوقع نتائج دینے میں بھی بری طرح ناکام دکھائی دیتی ہیں۔ تقریباً ہر معاشی اشاریہ خطرے کی گھنٹیاں بجاتا نظر آرہا ہے۔ پی ٹی آئی نے وعدہ کیا تھا کہ ٹیکس سے ہونے والی آمدنی کو دگنا کرے گی، اور کہا تھا کہ جب عوام حکومت میں ’’ایمان دار‘‘ لوگوں کو بیٹھا دیکھیں گے تو ہر شخص ٹیکس دے گا۔ عمران خان کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی کفایت شعاری کی مہم بھی شروع کی تھی تاکہ عوام کو دکھایا جائے کہ ٹیکس دہندگان کا پیسہ ضائع نہیں جائے گا۔ لیکن اس کے باوجود ابتدائی 9 مہینوں کے دوران جمع ہونے والے ٹیکس کے اعداد و شمار میں ریکارڈ 300 ارب روپے کی کمی واقع ہوئی ہے، اور خدشہ ہے کہ رواں مالی سال کے دوران یہ اعداد و شمار 450 سے 500 ارب روپے تک جا پہنچیں گے۔ عمران خان متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ پاکستان پر مجموعی قرضہ جات اور واجبات 30 ہزار ارب روپے تک کے ہیں، اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی کرپشن کی وجہ سے ملک پر قرضوں کا اس قدر بھاری بوجھ ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کے گزشتہ 10 سال کے دوران لیے گئے 24 ہزار ارب روپے کے قرضوں کا فارنسک آڈٹ بھی کرایا جائے گا تاکہ یہ پتا لگایا جاسکے کہ یہ رقم کس کی جیبوں میں گئی۔ لیکن رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ کے دوران حکومت نے صرف اسٹیٹ بینک سے 3300 ارب روپے قرضہ لیا، یہ پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اگر اس رقم میں پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے پاکستان کے دوست ممالک جیسا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین سے لیے گئے قرضوں کی رقم بھی شامل کردی جائے تو یہ 4000 ارب روپے بنتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں لیے گئے قرضے مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں لیے گئے قرضوں سے دو گنا ہیں۔ پی ٹی آئی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اچھی طرزِ حکمرانی اور دیگر انتظامی اقدامات کی مدد سے گردشی قرضوں (سرکلر ڈیٹس) کا معاملہ حل کرے گی۔ لیکن گردشی قرضے تھمنے کے بجائے پی ٹی آئی کی حکومت میں تیزی سے بڑھنے لگے۔ نون لیگ نے جب حکومت چھوڑی تھی اُس وقت گردشی قرضے 1.1 ٹریلین روپے تھے، لیکن اب یہ تقریباً 1.5 ٹریلین روپے تک جا پہنچے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ گردشی قرضوں میں روزانہ 2 ارب روپے کا اضافہ ہورہا ہے۔ پی ٹی آئی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک کروڑ ملازمتیں پیدا کرے گی اور ساتھ ہی 50 لاکھ گھر تعمیر کرے گی، جو صرف اس صورت میں ممکن ہے جب ملک کی شرح نمو میں گزشتہ برسوں کے مقابلے میں زبردست اضافہ ہوجائے۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد سے پی ٹی آئی حکومت کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کی معاشی افزائش ڈرامائی انداز سے کم ہوگئی ہے، اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق مالی سال 2019ء میں شرح نمو میں مزید کمی ہوگی اور یہ 3.9 فیصد تک جا گرے گی۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے آخری چند برسوں کے دوران شرح نمو 5.8 فیصد تھی۔ جب پاکستان تحریک انصاف اپوزیشن میں تھی تو بجلی، گیس اور پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر سخت شور شرابہ کرتی تھی۔ ماضی میں عمران خان کی نظر میں اس طرح کے اضافے عوام کے لیے ’’بم‘‘ تھے، جبکہ اسد عمر نے وعدہ کیا تھا کہ جب پی ٹی آئی حکومت میں آئے گی تو پیٹرول کی قیمت 50 روپے فی لیٹر کردیں گے۔ انہوں نے قومی اسمبلی میں اپنے خطاب میں یہ بھی کہا تھا کہ پاکستان میں گیس کی قیمتیں دنیا بھر کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ تاہم اقتدار میں آتے ہی پی ٹی آئی نے گیس، پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں زبردست اضافہ کردیا۔ یکم جنوری 2018ء کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی جانب سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے پر ٹوئٹر پر عمران خان نے بیان جاری کیا کہ ’’بڑے ہی شرم کی بات ہے، پی ایم ایل ن کی حکومت نے 2018ء کے آغاز پر عوام پر پیٹرول بم گرا دیا ہے۔ ٹیکس اصلاحات لانے اور منی لانڈرنگ کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے حکومت عوام پر بوجھ ڈالتی جا رہی ہے، اور اس مرتبہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھاری اضافہ کرکے یہ کام کیا گیا ہے‘‘۔ صرف15 ماہ بعد ہی یعنی 31 مارچ 2019ء کو عمران خان کی حکومت نے یکم اپریل سے نافذ العمل پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھاری اضافے کا اعلان کیا۔ پاکستان تحریک انصاف ہمیشہ سے ہی یہ کہتی رہی ہے کہ اس کی معاشی پالیسیاں غریب دوست ہوں گی۔ لیکن عملاً دیکھیں تو اس کے اقتدار میں آنے کے بعد مہنگائی کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے اور یہ 9.4 فیصد تک جا پہنچی ہے، جبکہ نون لیگ کی حکومت میں یہ صرف 4 فیصد تک تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہر پاکستانی شہری بشمول غریب عوام کے لیے ضروریات ِزندگی ایک سال قبل کے مقابلے میں تقریباً دگنی مہنگی ہوچکی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 30 فیصد کمی کردی اور اب ایک ڈالر 142 روپے کا ہوچکا ہے۔ پاکستانی روپے کی قدر میں یہ بے مثال کمی اس توقع کے ساتھ کی گئی تھی کہ اس سے ملک کی برآمدات میں تیزی آئے گی، لیکن برآمدات میں صرف 1.8 فیصد بہتری آئی ہے۔ پی ٹی آئی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ پاکستانیوں کے غیر ملکی بینکوں میں موجود 200 ارب ڈالر واپس لائے گی۔ پی ٹی آئی نے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے شروع کی جانے والی ٹیکس معافی (ایمنسٹی) اسکیم کی بھی مخالفت کی تھی اور اسے ٹیکس چوروں، لٹیروں اور خوردبرد کرنے والوں کے لیے فائدہ مند قرار دیا تھا۔ تاہم اقتدار میں آتے ہی حکومت کے پاس غیر ملکی بینکوں سے اربوں ڈالر واپس لینے کے لیے جوش و جذبہ تو تھا لیکن اب اس معاملے میں صرف امیدیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ جو کچھ ماضی کی حکومتیں کرتی رہی ہیں، اب ویسے ہی پی ٹی آئی حکومت نے نئی ایمنسٹی اسکیم لانے کے لیے یوٹرن لیا ہے، اس اسکیم کے ذریعے پاکستان اور پاکستان سے باہر رہنے والے پاکستانیوں کی حوصلہ افزائی کی جائے گی کہ وہ اپنی دولت ظاہر کریں۔ سابقہ وزیر اطلاعات کے مطابق پی ٹی آئی حکومت کی معاشی پالیسیوں کا مقصد ملکی معیشت کے ساتھ بنیادی بگاڑ درست کرنا ہے جس کی وجہ سے معاشی رفتار سست ہے۔ تاہم انہوں نے اصرار کیا کہ آئندہ مالی سال کے دوران صورت حال واضح طور پر بہتر ہوتی نظر آئے گی۔ فواد چودھری کے مطابق مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی نقائص سے پُر پالیسیوں پر عمل کے بجائے پی ٹی آئی حکومت نے ملکی معیشت میں نمایاں تبدیلیاں لانے کے لیے مشکل راستہ اختیار کیا ہے۔ ان تبدیلیوں میں (1) برآمدات کی حوصلہ افزائی اور درآمدات میں کمی، (2) منی لانڈرنگ کی روک تھام، (3) کالے دھن اور غیر اعلانیہ دولت کو دستاویزی شکل دینا ہے۔ فواد چودھری کا کہنا تھا کہ حکومت کی معاشی حکمت عملی کے مطابق آئندہ تین ماہ میں برآمدات میں اضافہ نظر آئے گا۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ وزیر خزانہ اسد عمر سمیت بیشتر وزیروں بشمول فواد چودھری کو بھی اپنی وزارت سے استعفیٰ دینا پڑا۔
تمام سروے اور مرتب کی جانے والی رپورٹیں بتا رہی ہیں کہ ملک میں تبدیلی کی ہوا کچھ زیادہ ہی تیز ہوتی جارہی ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ ہوا طوفان میں تبدیل ہوکر غریبوں کے گھروں کو تہس نہس کرڈالے، حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ ان غریبوں پر رحم کریں اور ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ایسے اقدامات کریں جن سے عوام کو ریلیف مل سکے۔‘‘

حصہ