ہیرا!!۔

577

ہادیہ آمین
“السلام وعلیکم! !کیا حال ہیں منور؟” فضل نے کافی دنوں بعد اپنے پرانے دوست کو فون کیا۔تقریبا کوئی دو مہینے بعد۔۔
“وعلیکم اسلام۔۔ٹھیک ٹھاک اللہ کا شکر،تم سنائو؟” منور نے جواب دیا۔۔”
اللہ کا شکر الحمدللہ! بچے ٹھیک ہیں؟ پوتا پوتی وغیرہ؟ “گھر میں سب خیریت ہے؟ “فضل ہمیشہ کی طرح بات آگے بڑھانا چاہتا مگر جواب میں صرف اتنا ہی جواب ملتا جتنا سوال تھا۔۔ پہلے والی گرم جوشی ایسے غائب ہوئی جیسے تھی ہی نہیں۔۔ رسمی بات چیت کے بعد یہ فون بھی زیادہ سے زیادہ دس منٹ کی بات چیت کے بعد بند ہو گیا۔۔ فون رکھنے کے بعد فضل پھر سوچ رہا تھا۔۔ پچھتاوا تھا کہ ختم ہی نہ ہوتا۔۔ یہ کوئی ماضی بعید کی بات نہ تھی کہ فضل اور منور کی ملاقاتیں روز ہوا کرتی تھیں۔۔ یہی کوئی ڈیڑھ پونے دو سال پہلے کی بات ہوگی۔۔ فضل گزرے وقت کو یاد کرتا۔۔ وہ جانتا تھا کہ یہ فون کال جو ہمیشہ اس ہی کی طرف سے ہوتی تھی، پہلے دس دن بعد، پھر دس دن کا یہ وقفہ لمبا ہو کر پندرہ دن، پھر مہینہ بھر تک لمبا ہوگیا اور وہ جانتا تھا کہ وقفہ لمبا ہوتا ہی رہے گا اور پھر ایک دن یہ رابطہ ختم ہی ہو جائے گا۔۔ صرف ایک معمولی سی غلطی۔۔ یا شاید اپنی غلطی معمولی سی ہی لگتی ہے۔۔ یہ نہیں تھا کہ منور اور فضل اب دوست نہیں تھے۔۔ سب کچھ تھا مگر پہلے والی بات چلی گئی تھی جس سے نقصان فضل کا زیادہ ہوا تھا۔۔ کسی کے ساتھ کیا ہوا برا سلوک سوئی کی طرح چبھتا ہے۔۔ انسان کتنا ہی خود کو مضبوط ظاہر کرے، وہ برا سہہ کے مطمئن رہ سکتا ہے، مگر برا کر کے مطمئن رہنا مشکل ہوتا ہے۔۔ برے سلوک کی تلافی اچھا سلوک ہوتا ہے۔۔ بیشک نیکیاں گناہوں کو دھو دیتی ہیں۔۔ مگر لوگ نہیں سمجھتے۔۔وہ سمجھتے ہیں کہ برا سلوک کرکے اطمینان تب ملے گا جب ہم مزید برا سلوک کرینگے۔۔ کاش لوگ وہ بصیرت حاصل کرلیں جس میں صحیح اور غلط کی پہچان ہوتی ہے۔۔
فضل اور منور بچپن کے دوست تھے۔ ایک دوسرے سے اپنے مسائل پر بات کرنا اور روز مرہ کے احوال بتانا معمول تھا۔۔ اب دونوں ماشاء اللہ بچوں والے تھے۔۔۔ فضل کو اللہ نے دو بیٹیاں اور تین بیٹے دیے تھے جبکہ منور کو اللہ نے چار بیٹوں کی نعمت سے نوازہ تھا۔۔ منور اور فضل دونوں کی بڑی فیکٹریاں تھیں۔۔ منور کی فیکٹری صنعتی علاقے میں تھی جبکہ فضل کی فیکٹری کے پیچھے رہائشی علاقہ تھا۔۔ منور کے بچے بڑے ہوئے تو انہیں بڑے گھر کی ضرورت پڑی۔ گھر ڈھونڈنے کا مسئلہ تھا، منور وہ گھر ڈھونڈنا چاہتے تھے جس میں چاروں بیٹے اپنے اپنے گھرانوں کے ساتھ ایک ساتھ رہیں۔۔ تقریباً پانچ مہینے کی مستقل تگ و دو کے بعد انہیں گھر پسند آیا اور بہت پسند آیا۔۔ وہ حقیقتاً وہی تھا جس کی انہیں تلاش تھی۔۔ ان کے ذہن میں بنائے گئے تصوراتی گھر میں وہ گھر نگینے کی طرح فٹ ہوا تھا۔۔ منور صاحب کا دل باغ باغ ہو گیا۔۔ وہ کسی چھوٹے بچے کی طرح خوش تھے۔۔ یہ گھر فضل کی فیکٹری کے پیچھے رہائشی علاقے میں تھا۔۔ وہ گھر خریدنے ہی والے تھے۔۔ انہوں نے فون کرکے اس گھر کا ذکر فضل سے کیا۔۔ ساری تفصیل بتائی۔۔ اور کہا کہ اس گھر کے متعلق اگر کوئی معلومات مل سکتی ہے۔۔ فضل منور ہی کی طرح خوش تھے۔۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی خوشی میں اسی طرح خوش ہوا کرتے اور ایک دوسرے کے غم میں اسی طرح غمگین۔۔ اور جو ہماری خوشی میں ہماری طرح خوش ہو اس کا رویہ ہمیشہ یاد رہتا ہے…
فضل صاحب نے وہ گھر دیکھا ہوا تو نہ تھا اور نہ ہی اس کے بارے میں کچھ جانتے تھے۔۔ سامنے بیٹھے اپنے سیکرٹری نجم سے کہا کہ اس گھر کے بارے میں جو معلومات مل سکے مجھ کو بتائو۔ نجم اتفاق سے اس گھر کے بارے میں جانتا تھا۔ وہ خود بھی اسی علاقے میں رہتا تھا۔۔”سر وہ گھر اچھا تو بہت ہے مگر…”
“مگر کیا؟” فضل پریشان ہوا۔۔
“سر وہ گھر آپ کے لئے بھی بہت مناسب ہے۔۔آپ کو بھی تو بڑا گھر چاہیے ہوگا۔۔ دوسرا یہ گھر آپ کی فیکٹری سے بھی قریب ہے۔۔آپ کو کافی آسانی ہو جائے گی”
فضل کو غصہ آیا،”پانچ سال ہو گئے نجم تمہیں یہاں پر۔۔ تم جان نہیں سکے کہ منور میرا کتنا قریبی ہے۔۔ مجھے اس کی پسند کی چیز بیچ میں سے اچک کر کیا ملے گا۔۔ کافی افسوس ہوا تمہاری سوچ پر مجھے “فضل صاحب دوست کی محبت میں نجم پر کچھ زیادہ ہی ناراض ہو گئے تھے ۔اس کا افسوس بھی ہوا انہیں گھر جاکر کیونکہ نجم کی کارکردگی سے وہ کافی مطمئن تھے۔۔انہیں پانچ سال میں نجم سے کوئی ایک شکایت بھی نہ ہوئی تھی۔۔ گھر جاکر انہوں نے اس کا ذکر اپنی بیوی سے کیا۔۔
“ہاں تو صحیح تو کہہ رہا ہے نجم!! کیا غلط کہا اس نے۔۔ ویسے بھی منور بھائی کو پتہ ہے کہ آپ اس گھر کے بارے نہیں جانتے۔۔وہ گھر آپ پہلے لے لیں ہاتھ سے نہ نکل جائے۔۔ کہہ دیجئے گا کہ مجھے کیا پتا تھا تمہیں بھی یہی گھر پسند تھا۔۔گھروں میں تو ساری زندگی رہنا ہوتا ہے۔۔ جب اللہ کا دیا آپ کے پاس ہے تو اپنے بچوں کا سوچیں۔۔ کل کو ہمیں بھی تو بڑا گھر چاہیے ہوگا۔۔ مناسب موقع ہے۔۔ نجم کی ناراضگی بھی دور ہو جائے گی۔۔”
فضل کی سمجھ میں بیوی کی بات آگئی۔۔ اپنی اولاد سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔۔ ساری زندگی انسان اولاد کے لیے ہی تو محنت کرتا ہے۔۔ بلآ خر ڈیڑھ دن کے بعد منور صاحب کا پسندیدہ گھر فضل صاحب کی ملکیت میں تھا…
“السلام وعلیکم! یار فضل تم نے گھر کی معلومات کی؟”
تین دن بعد منور کا فون آیا تھا۔۔
“وعلیکم السلام! !نہیں یار،وہ دراصل میں خود اپنے گھر کے سودے میں لگا ہوا تھا۔۔ مجھے تو اچھا مل گیا۔۔ تمہیں بھی مل جائے گا۔۔”فضل نے رکھائی سے جواب دیا۔۔
“اچھا! تم گھر ڈھونڈ رہے تھے۔۔ تم نے ذکر نہیں کیا” منور حیران ہوئے۔۔
“ہاں!ضرورت تو تھی۔۔ نجم کے مشورے سے لیا۔۔ رات کو دکھاتا ہوں تمہیں”
اور پھر گھر دیکھ کر منور کے دل میں فضل کا گھر نہ رہا۔۔ منور نے ماشاء اللہ کہا۔۔ دعائیں دیں۔۔ اور خاموشی سے بچپن کے دوست کو نظروں سے گرتا دیکھتے رہے۔۔ تین ماہ بعد منور کو کسی اور علاقے میں گھر مل گیا۔۔ بہت اچھا تھا۔۔ مگر ہاتھ آئی چیز چلے جانے کا افسوس بھی تھا۔۔ مگر خیر جس کا جو نصیب۔۔ منور نے خود کو سمجھا لیا۔۔ آج فضل کے پاس گھر بہت اچھا ہے مگر وہ ہم راز دوست نہیں کیونکہ جب ہیرے میں خراش آجائے وہ پہلے جیسا نہیں رہتا۔۔ آج فضل کو گزرا وقت بہت یاد آتا ہے کیونکہ برا کرکے، دلوں کو توڑ کے جو چیز سب سے پہلے رخصت ہوتی ہے وہ دل کا سکون ہے…۔

مسکرائیے

٭ رات کا وقت تھا۔ ایک کانسٹیبل گشت پر تھا اسے ’’بچائو بچائو‘‘ کی آوازیں سنائی دیں۔ اس نے جا کر دیکھا تو ایک آدمی کنویں میں گرا ہوا ہے اس نے رسی کے ساتھ اسے اوپر کھینچا۔ جب وہ آدھا
اوپر آیا تو کانسٹیبل نے دیکھا وہ ایس پی صاحب تھے۔
’’سر آپ‘‘ کانسٹیبل نے فوراً رسی چھوڑ کر سلیوٹ کیا۔
٭٭٭
٭ ایک پاگل (دوسرے سے) اگر کوئی ہاتھی درخت پر چڑھ جائے اور اترنا چاہے تو کیسے اترے گا۔
دوسرا پاگل اسے چاہیے کہ ایک پتے پر بیٹھ کر خزاں کا انتظار کرے۔
٭٭٭
٭ پولیس آفیسر تم نے اتنی چوریاں کی ہیں، مگر کسی کو آج تک ساتھی نہیں بنایا۔
ملزم آپ تو جانتے ہیں انسپکٹر صاحب! آج کل ایماندار آدمی ملتے ہی کہاں ہیں۔
٭٭٭
٭ انسپکٹر نے ایک سپاہی کو ایک ملزم کی چھ تصاویر دیتے ہوئے کہا۔
انسپکٹر جائو اس ملزم کو ڈھونڈ کر لائو۔
تیس دن بعد سپاہی واپس آیا انسپکٹر سے فخریہ انداز میں کہا۔ ملزم گرفتار کر لیا ہے۔
سپاہی جناب پانچ ملزم گرفتار ہو چکے ہیں۔ چھٹے کی تلاش جاری ہے۔
٭٭٭
٭استاد: (ندیم سے) تمہارے ساتھی تو گھر کا کام کر کے لائے ہیں تم کیوں نہیں لائے؟ ندیم: ’’جناب! میں گھر میں نہیں۔ ہوسٹل میں رہتا ہوں۔‘‘
٭٭٭
٭ہر پانچ چھ میل بعد کار کا انجن گرم ہو جاتا جس کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ریڈی ایٹر میں پانی ڈالنا پڑتا پانچویں مرتبہ جب مالک نے پانی ڈالنے کے لئے کار روکی تو نوکر سے رہا نہ گیا تو اس نے کہا۔ ’’جناب! دو لاکھ کی گاڑی میں دو سو روپے کا نلکا لگا لیتے تو کیا ہرج تھا‘‘۔

حصہ