چھوٹی چھوٹی نیکیاں لیکن بی خوشیاں

1048

افروز عنایت
اشعر: بابا یہ اتنے سارے کپڑے کس کے لیے لائے ہیں؟
بابا: بیٹا رمضان شروع ہونے والا ہے، پھر عید آئے گی، یہ کپڑے (سوٹ) لوگوں کو دینے کے لیے ہیں۔
اشعر: (حیرانی سے) لوگوں کو دینے کے لیے؟
بابا: ہاں بیٹا، غریب رشتے داروں کے لیے اور کچھ عزیزوں کو ہدیہ دینے کے لیے۔
اشعر: کیوں بابا؟
بابا: بیٹا اللہ نے جو مال دیا ہے اس میں دوسروں کا حصہ بھی ہے جو ہمیں ان تک ضرور پہنچانا ہوتا ہے۔
اشعر: بابا ہمیں تو کوئی نہیں دیتا!
بابا: بیٹا آپ کو تحفے میں آپ کے چاچو، ماموں کچھ نہ کچھ دیتے ہیں، آپ بھی اپنے دوستوں کو تحفے دیا کریں، اس سے اللہ خوش ہوتے ہیں۔
٭…٭…٭
امبر: مما، رمضان میں ایک مہینہ باقی ہے، ابھی تک ہم نے شاپنگ نہیں کی۔
مما: ہاں بیٹا… ہمیں یہ کام نمٹا لینا چاہیے، پھر درزی بھی ٹائم لگاتے ہیں۔
سونیا (نئی بہو): امبر، ابھی تو عید میں بہت وقت ہے، ویسے بھی شاپنگ کا مزہ تو رمضان میں ہی آتا ہے افطار کے بعد… بازاروں کی رونق، پھر دیر سے گھر لوٹنا بلکہ سحری بھی باہر سے کرکے آنا، ڈھائی تین بجے رات کو گھر آکر سوجانا… خوب مزا آتا ہے۔
مما نے حیرانی سے بہو کو دیکھا، لیکن اُس وقت اسے کچھ کہنا مناسب نہ لگا۔
مما: (ایک دو دن کے بعد بہو اور بیٹی کی طرف دیکھتے ہوئے) رجب، شعبان اور رمضان بڑے معتبر مہینے ہیں، اللہ ہم سب کو اس میں نفلی عبادات کرنے کی بھی توفیق عطا کرے۔ کتنا سکون ملتا ہے رمضان میں دلجمعی اور یکسوئی سے اپنے رب کو پکارنے اور عبادت کرنے میں… بیٹا میرا خیال ہے بازار وغیرہ کے کام تو نمٹا ہی لیں۔ بازاروں کو تو ویسے بھی ’’بری جگہ‘‘ کہا گیا ہے۔ ضرورت کے تحت ہی نکلنا چاہیے۔ رمضان تو خاص اللہ کے ذکر کا مہینہ ہے، ایک نیکی کے ستّر درجے… جتنا ہوسکے گناہوں سے بچنا چاہیے۔ افطار کے بعد تراویح و تسبیح، پھر جلدی سونا تاکہ تہجد پر آنکھ کھل جائے۔ سبحان اللہ… مجھے رمضان اس لیے بھی پسند ہے کہ اس ماہ میں تہجد روز ہوجاتی ہے۔ نفلی عبادت میں تہجد کا درجہ بہت بلند ہے، بلکہ رمضان کے کسی لمحے کو ضائع نہیں کرنا چاہیے
امبر کو تھوڑی شرمندگی محسوس ہوئی۔ اس کی فیملی میں تو اکثر رمضان میں شاپنگ اور ہوٹلنگ کے پروگرام بنتے ہیں۔ اب ساس کی بات سنی تو اسے احساس ہوا کہ یہ سب درست نہیں۔
امبر: امی میں بھی خریداری کرلوں؟
مما: ہاں ہاں میری جان، میں تو سب کے لیے کہہ رہی ہوں۔ پھر بیٹا اکٹھے بیٹھ کر زکوٰۃ کے بارے میں بھی سوچیں گے۔
٭…٭…٭
شاہانہ: بابا جانی آپ ہر سال عید پر رشتے داروں کے لیے ایک گرینڈ دعوت کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہماری تو کوئی دعوت نہیں کرتا…
بابا: بیٹا! رشتے داروں کا، خاص طور پر بہنوں کا بڑا حق ہوتا ہے، بڑے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے دسترخوان مہمانوں کے لیے کھلے رہیں، پھر وہ بھی عید کے موقع پر… کسی کو اپنے ساتھ خوشیوں میں شامل کرنا عبادت ہے، اس لیے اس گھر میں ہم عید پر ضرور دعوت رکھتے ہیں۔
٭…٭…٭
دادی: راحیل بیٹا مجھے فون اٹھاکر دو، رمضان کا چاند نظر آگیا ہے، تمام رشتے داروں کو مبارک باد دے دوں، پھر رمضان میں سب عبادات اور ذکرِ الٰہی میں اس قدر مشغول ہوجاتے ہیں کہ بمشکل وقت نکل پاتا ہے۔ پھر چاند رات پر ہی سب کو مبارک باد دینے کے لیے وقت نکلتا ہے۔
راحیل: (ہنستے ہوئے) دادی یہ آپ کا معمول ہے کہ ہر خوشی کے موقع پر یا عید پر رشتے داروں کو وش کرتی ہیں۔
دادی: میری جان، عزیز و اقارب کی خیر خبر معلوم کرنی ہی چاہیے اور وہ بھی ایسے تہواروں پر… حال احوال کے علاوہ ملنے ملانے کا اہتمام بھی رکھنا چاہیے۔
٭…٭…٭
دردانہ: (کچن میں جھانکتے ہوئے) آج پڑوس میں بھی افطاری جائے گی بیٹا، تم دونوں نند بھاوج خیال رکھنا۔
بیٹی: (ہنستے ہوئے) بھابھی اماں کی یہ شروع سے ہی عادت ہے رمضان کیا عام دنوں میں بھی کوئی اچھی چیز پکاتی ہیں تو پڑوس میں کسی ایک گھر میں ضرور بھیجتی ہیں۔
دردانہ: ہاں بیٹا وہ دن اب کہاں۔ پڑوس پڑوس سے ملا ہوتا تھا، سالن کی خوشبو اٹھتی، دوسرے گھر پہنچتی تو خصوصاً پڑوسن ضرور دستک دیتی اور پوچھتی آپا کیا بنا رہی ہیں؟ دوسری پڑوسن خوشی سے سالن کی ایک پلیٹ بھر کر اس کے حوالے کرتی اور دل میں خوش ہوتی کہ اس نے مجھ پر اپنا حق جتایا، یہ اس کی اپنائیت اور محبت ہے۔ اب تو ایسا بہت کم ہوتا ہے۔
٭…٭…٭
رات کے تین بجے تھے۔ عالیہ کچن میں سحری کی تیاری میں لگی ہوئی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ کون ہوسکتا ہے؟ اس نے گھڑی دیکھی۔ پڑوسی ایک دوسرے کو سحری کے لیے اٹھاتے تھے۔ اگر کسی کی لائٹ بند ہوئی تو یہ سوچ کر کہ مکینوں کو سحری میں دیر نہ ہو جائے، اٹھانے ضرور آتے۔ یہ تمام پڑوسیوں کا معمول تھا۔ اس نے دروازہ کھولا تو جمیلہ کی اماں تھیں۔
عالیہ: السلام علیکم آپا، خیریت!
جمیلہ کی اماں: عالیہ دو تین انڈے اور دودھ ہوگا؟ آج تمہارے بھائی رات کو لانا بھول گئے۔ اب چائے بھی نہیں بنا سکتی… انڈے نہ ہوں تو خیر ہے، روٹی اور چائے سے کام چل جائے گا۔
عالیہ: آپا کیسی بات کررہی ہیں آپ! رکیں، میں ابھی آئی۔
عالیہ کچن سے واپس آئی تو ایک پیالی میں بھنا ہوا قیمہ، دو انڈے، اور ایک گلاس دودھ لے کر آئی… یہ لیجیے آپا۔
آپا: جیتی رہو، لیکن یہ اتنا زیادہ ہے جبکہ ہم تین بندے ہی روزہ رکھنے والے ہیں۔
عالیہ: آپا ہم پڑوسی ہیں، کیا آپ نے میرے ساتھ کئی مرتبہ ایسا برتائو نہیں کیا؟ یہ تو آپ کا حق بنتا ہے۔
٭…٭…٭
یہ جو اوپر چند تصاویر میں نے آپ کے روبرو پیش کیں یہ حقیقی ہیں ،گرچہ آج کے دور میں بہت کم ایسا نظر آتا ہے لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں اس کی جھلک نظر آجاتی ہے جو اسلامی معاشرے کی عکاسی ہے۔ ان مبارک مہینوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو اُن کی ہر نیکی کا اجرو ثواب بڑھاکر دیتا ہے۔ یوں سمجھیں کہ نیکیاں سمیٹنے کی سیل لگی ہے، ایک کے ستّر… یعنی عام دنوں میں جس نیکی کا ایک اجر ملے گا، اس ماہِ مبارک میں اس کا ستّر گنا بڑھ جائے گا۔ ہم خواتین جب سنتی ہیں کہ فلاں جگہ سیل لگی ہے، 25۔30 فی صد رعایت پر مال دستیاب ہے تو کس طرح ہم دوڑ پڑتی ہیں۔ اس مبارک مہینے میں بھی یہ سیل ہے۔ ہم دنیا کے مال کی سیل کے تو لالچی بن جاتے ہیں… خاص طور پر اس ماہِ مبارک میں آخرت کے اجر کے لیے بھی لالچی بن جائیں۔ اوپر کی جھلکیوں سے واضح ہے کہ گرچہ یہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں نظر آتی ہیں لیکن بارگاہِ الٰہی میں ان کا بے حد درجہ ہے۔ مومن کی نظر ہمیشہ اپنے رب کی رضا کے حصول پر مرکوز ہوتی ہے، لہٰذا وہ فرائض کے علاوہ حقوق اللہ، حقوق العباد اور نفلی عبادات، ذکر و تسبیح کے لیے بھی کوشاں رہتا ہے، نیکی حاصل کرنے کے لیے کوئی لمحہ ضائع نہیں کرتا۔ ایک دینی محفل میں جب عالمہ نے بیان کیا کہ رجب میں کی جانے والی ایک نیکی کا اجر ہزار گنا ہے تو اسی وقت ہم خواتین نے عہد کیا کہ کم از کم آسانی سے دو رکعت نماز نفل اور استغفار کی تسبیح پڑھ کر یہ اجر حاصل کریں گے۔ یعنی ہمارے دلوں میں اس اجر کو حاصل کرنے کے لیے طمع و لالچ پیدا ہوئی۔ ہاں یہ ضروری امر ہے کہ ہماری نیت خالص ہو۔ پھر رمضان سبحان اللہ… اس مبارک مہینے کو مسلمانوں کے لیے ’’انعام‘‘ کہا گیا ہے، جو اس انعام کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوا وہ خوش نصیب ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینے کی فضیلت کے بارے میں ارشاد فرمایا ’’اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ رمضان کیا چیز ہے تو میری امت یہ تمنا کرے کہ سارا سال رمضان ہی ہوجائے‘‘۔ اسی طرح ماہ رمضان کے اجر و ثواب کے بارے میں حضرت سلمانؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کی آخری تاریخ کو ہم لوگوں کو وعظ فرمایا کہ ’’تمہارے اوپر ایک مہینہ آرہا ہے جو بہت بڑا مہینہ ہے، بہت مبارک مہینہ ہے، اس میں ایک رات ہے (شبِ قدر) جو ہزاروں مہینوں سے بڑھ کر ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کے روزوں کو فرض کیا ہے اور اس کی رات کے قیام (یعنی تراویح) کو ثواب کی چیز بنایا ہے، جو شخص اس مہینے میں کسی نیکی کے ساتھ اللہ کا قرب حاصل کرے وہ ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں فرض ادا کیا، اور جو شخص اس مہینے میں کسی فرض کو ادا کرے وہ ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں ستّر فرض ادا کرے۔ یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ اور یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے۔ اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اس کے لیے گناہوں کے معاف ہونے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہوگا اور روزہ دار کے ثواب کی مانند اس کو ثواب ہوگا مگر اس روزہ دار کے ثواب سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے ہر شخص تو اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے۔ تو آپؐ نے فرمایا کہ ’’(پیٹ بھر کھلانے پر موقوف نہیں) یہ ثواب تو اللہ تعالیٰ ایک کھجور سے افطار کرانے یا ایک گھونٹ پانی پلانے پر بھی مرحمت فرما دیتے ہیں۔ یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ اللہ کی رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے، اور آخری حصہ آگ سے آزادی ہے۔ جو شخص اس مہینے میں ہلکا کردے اپنے غلام (خادم) کے بوجھ کو، حق تعالیٰ اس کی مغفرت فرماتے ہیں اور آگ سے آزادی عطا فرماتے ہیں۔ چار چیزوں کی اس میں کثرت رکھا کرو جن میں سے دو چیزیں اللہ کی رضا کے واسطے، اور دو چیزیں ایسی ہیں کہ جن سے تمہیں چارۂ کار نہیں۔ پہلی دو چیزیں جن سے اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے، اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور آگ سے پناہ مانگو۔ جو شخص کسی روزہ دار کو پانی پلائے، حق تعالیٰ (قیامت کے دن) میرے حوض سے اس کو ایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی‘‘۔
آپؐ کے بیان کیے گئے اس وعظ سے ہم اندازہ لگائیں کہ اس ماہِ مبارک میں کوئی نیکی جو نیک نیتی اور خلوصِ دل سے کی جائے، ضائع نہیں جاتی۔ اوپر بیان کی گئی جھلکیوں سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر ہم بھی اس قسم کی چھوٹی چھوٹی نیکیوں کا سلسلہ اس ماہ مبارک میں جاری رکھیں تو رب العزت کا قرب اور رضا حاصل کرسکتے ہیں۔ اپنی استطاعت اور حیثیت و طاقت کے مطابق ہم جو نیکی انجام دے سکتے ہیں اس سے اپنے آپ کو محروم رکھنا اپنی ذات پر ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ ان معتبر مہینوں میں زبان پر ذکر الٰہی کے ساتھ اللہ کے بندوں کے لیے نیک خیالات رکھنا، ان کی فلاح کے لیے سوچنا اور کچھ کرنا اپنا معمول بنا لیں جس سے ہماری دنیا بلکہ آخرت بھی سنور جائے گی۔ میرے مرحوم والد محترم بہت عبادت گزار نہ تھے، فرائض کے علاوہ ان میں اکثر وہ خوبیاں پائی جاتی تھیں جو میں نے مضمون کی ابتدا میں جھلکیوں میں پیش کیں۔ بابا کو اللہ نے بہت سی نعمتوں سے نوازا… مال، اولاد، صحت وغیرہ۔ 27 رمضان کو ان کی رحلت ہوئی۔ جنازہ جب اٹھایا گیا، سخت کڑی دھوپ میں نہ جانے کہاں سے بادل امڈ آئے اور خوب برسے۔ انجانے لوگ حیران کہ کیا کوئی ولی تھے کہ یہ رتبہ حاصل ہوا (اللہ انہیں جنت میں اعلیٰ مقام و درجات عطاکرے)۔ یقینا بارگاہ الٰہی میں خصوصی طور پر رمضان کے مہینے میں کی گئی بابا کی چھوٹی چھوٹی نیکیاں جو وہ انجام دیتے رہتے تھے، مغفرت اور اجر عظیم کا باعث بنی ہوں گی۔ آئیں ہم سب بھی دل میں یہ عہد کریں کہ اپنا دامن ان چھوٹی چھوٹی نیکیوں سے بھریں گے۔ آمین ثم آمین

حصہ