پھول

2065

صبا احمد
پھولوں کی نمائش میں گئے تو گلاب اور گلِ دائودی کی طرح کے پھول چائنا، جاپان، سری لنکا کے علاوہ بہت سے پردیس سے بھی سدھارے تھے۔ چنبیلی کے پھول بہار میں اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ بڑوں کے ساتھ بچے بھی تھے۔ پھول اور بچے معصومیت، نزاکت، رنگ و بو اور خوب صورتی میں ایک دوسرے سے تشبیہ دیے جاتے ہیں۔ صدیوں سے کہا جارہا ہے: فلاں نے اپنی بیٹی پھولوں کی طرح پالی ہے، کچی کلی انار کی، یہ تو پھولوں جیسی ہلکی و نازک ہے، رنگ اس کا لال گلاب ہے، ہونٹ پھولوں کی پنکھڑی جیسے ہیں۔ پھول کائنات، شاعری میں تازگی، رنگینی، خوشی و صحت اور شگفتگی کا احساس دلاتے ہیں۔ گھروں میں سجاوٹ کے ساتھ مریض کو صحت یابی کی دعا اور زندگی کی لہر دوڑنے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مریض کی عیادت کے لیے جاتے ہیں تو ساتھ لے کر جاتے ہیں، تحفے کے طور پر گل دستے دیتے ہیں۔ موسم بہار ان کے کھلنے کا موسم ہوتا ہے جیسے گرمی، سردی، خزاں اور بہار چار موسم ہیں، تو پھول اور درخت نئے لباس اور رنگ رنگ کے پھولوں اور نئے پتوں سے سج جاتے ہیں۔ یہ ان کا تہوار یا عید سمجھ لی جائے کہ ان کی خوشی کا موسم ہوتا ہے۔ کچھ دنوں، مہینوں اور گھنٹوں کی زندگیوں پر منحصر ان پھولوں کا وجود دنیا کو رنگین اور خوشبودار بنادیتا ہے۔ پھر یہ پھول مرجھا جاتے ہیں، اور کسی کچرے دان میں چلے جاتے ہیں، زمین میں مٹی میں مل جاتے ہیں اور پھر کسی زمین کی مٹی کا حصہ بن کر کسی نئے پودے کی کھاد بن کر اس کو زندگی دے کر نئے پھولوں کے کھلنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ پھر پھولوں کی دکانوں پر پہنچ جاتے ہیں، پھولوں کی چادر کی صورت میں مزاروں اور قبروں پر سج جاتے ہیں۔ شادیوں پر ہاتھوں، گلوں، بالوںکا زیور بن جاتے ہیں، اور کبھی باغ کی رونق ہوتے ہیں۔ کبھی نام بھی رکھے جاتے ہیں: گل لالہ، گل زار، گل محمد، گل زمان۔ جگہوں کے نام: گلِ زار، سبزہ زار، چمن زار۔
فرانس پھولوں سے پرفیوِمز بنانے کے لیے مشہور ہے۔ فیشن کے علاوہ یہاں دنیا کی بہترین خوشبوئیں، پرفیوم اور عطر بنائے جاتے ہیں۔ پھولوں کے عرقیات کھانوں کے لیے، کھانے کے لیے دوائیں، گلاب کی پتیوں اور گیندے کے لال پھول سے پیلا رنگ بنایا جاتا ہے۔ غسل کے لیے شہزادیاں گلاب استعمال کرتی تھیں۔ عرقِ گلاب کو پیا اور چہرے پر لگایا جاتا ہے۔ خوشبو و تازگی کے لیے، خوب صورتی کے لیے یہ قدرتی ٹوٹکے موت اور پیدائش دونوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ یوں کائنات کی ہر شے زوال پذیر ہے۔ یہ دوسروں کی زندگی کے لیے قربانی اور ایثار کا سبق انسان کو پڑھاتے ہیں۔ ہمیشگی کی زندگی تو بس آخرت میں ہی ملے گی، تو اے انسان اس کے لیے تیاری کرلو۔

موت کو سمجھے ہے غافل اختتام زندگی
ہے یہ شامِ زندگی، صبحِ دوامِ زندگی

حصہ