مسجد قرطبہ

453

ایمن طارق
مسجد قرطبہ جو 1236ء میں واپس عیسائیوں کے قبضے میں چلی گئی تھی، اس کی سیر کے دوران دلی تاثرات:
وقتِ رخصت ہے اب مسجد قرطبہ
کیا فسوں ہے، سحر ہے درو بام میں
اک سنہری سے ماضی کی مٹتی جھلک
وہ فضائیں جو تھیں گونجتی ہر گھڑی
لاالٰہ الا اللہ کا نغمہ تھا چاروں طرف
آج خاموش ہیں
تیری عظمت کے چرچے تھے چاروں طرف
آج تعظیم تیری کہیں کھو گئی
یا وہ امت جو شاید کہیں سوگئی
لا الٰہ کی صدائوں کو سننے کی لذت سے محروم ہیں
سنگِ مرمر تیرے
شکوہ کرتے تھے محراب و گنبد تیرے
پوچھتے تھے وہ غازی کہاں کھو گئے
جن کا ذوقِ خدا تھا سب سے جدا
جن کی ہیبت کا چرچا تھا ہر چار سو
مسجد قرطبہ
تیری تعمیر میں
تیری تشکیل میں
کچھ عجب لوگ تھے
جن کے سوزِ جگر نے
یاں کے محراب و منبر در و بام میں
عشق کی داستاں کو
رقم کر دیا
اور کہیں کھو گئے
اُن کے جذبوں کی حدت سے
تپتی ہے مسجد تیری آج بھی
دل نے چاہا بہت ایک سجدہ کریں
تیری تعظیم میں سر ڈھکیں، چپ رہیں
کچھ کہیں، کچھ سنیں رب رحمن سے
مسجد قرطبہ اب یہ ممکن نہیں
اب پلٹتے ہیں ہم
تجھ کو یوں چھوڑ کر
ہر طرف سر ہی سر
شور ہی شور ہے
تیری عظمت سے، حرمت سے ہیں بے خبر
روندتے ہیں قدم تیری تقدیس کو
تیری حرمت سے ناآشنا ہیں یہ لوگ
جو نہیں جانتے، جو نہیں مانتے
ہم توآگئے تھے ایک شوقِ سجدہ لیے دور سے
تجھ کو یوں دیکھنے
تھی نظرمنتظر دل میں بھی شوق تھا
اب مگر واپسی کے سفر میں
اک تڑپتی مچلتی سی ہے آرزو
کاش واپس جو پلٹیں کسی ایک دن
تیری تعظیم واپس تجھے دے سکیں
ان فضائوں میں توحید کی گونج ہو
اور صحنوں میں سجدوں کی بارات ہو
مسجد قرطبہ
ہم پلٹتے ہیں اب
الوداع الوداع…
(6اپریل 2019)

حصہ