مداوا

619

رفعت سلطانہ
کبھی کبھی میں یہ سوچتا تھا کہ میری امی کی آنکھ پتھر کی کیوں ہے، جو مجھے بہت بری لگتی تھی اور مجھے اس سے ڈر بھی لگتا تھا۔
لیکن واقعی ماں جیسی نعمت کا کوئی نعم البدل نہیں ہوسکتا۔ مجھے آج یہ سوچ کر اپنے ہی آپ سے شرمندگی ہورہی تھی اور خود سے مجھے شرم آرہی تھی کہ میں ایسا کیسے سوچ سکتا ہوں!
یہ اُن دنوں کی بات ہے جب میں بارہویں کلاس میں پڑھتا تھا، میں نے اپنے گھر میں کچھ دوستوں کو دعوت پر بلایا تھا۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ہم سب دوست ہلّا گلا کرنے لگے کہ اچانک ایک دوست نے مجھ سے کہا کہ یار تمہاری امی کی ایک آنکھ تو بہت خوف ناک لگتی ہے، تمہاری امی سے مجھے ڈر لگتا ہے۔ تو میں نے بھی اُس کی بات سے اتفاق کیا اور اپنی امی کے بارے میں اسی طرح کی باتیں کرنے لگا۔
اس بات کو کئی مہینے گزر گئے، پھر اچانک ایک دن امی کی آنکھ میں بہت تکلیف ہوئی تو انہوں نے ماموں کو فون کرکے بلایا۔ دراصل جب میں پہلی کلاس میں تھا تو میرے ابو کا انتقال ہوگیا تھا اور میری پرورش میری امی نے اکیلے ہی بڑی محنت و مشقت کرکے کی تھی۔
ایک گھنٹے میں ماموں آگئے، وہ امی کو لے کر اسپتال گئے تو میں بھی اُن کے ساتھ ہو لیا۔ ڈاکٹر نے جب امی کی آنکھ کا معائنہ کیا تو پوچھا کہ ان کی آنکھ کی یہ حالت کب سے ہے؟ اس پر ماموں نے میری طرف اشارہ کرکے بتایا کہ یہ ان کا بیٹا جب تیسری کلاس میں تھا تو اس کی ماں سے اس بچے کی آنکھ میں پینسل کی نوک لگ گئی تھی۔ ڈاکٹر نے ایک دم حیران ہوکر پوچھا کہ ایسے کیسے آنکھ میں پینسل کی نوک لگ گئی؟ تو ماموں نے بتایا کہ یہ بچہ پیچھے سورہا تھا، آگے اس کی امی ٹیوش پڑھا رہی تھیں، بچے شرارتیں کررہے تھے تو اس کی والدہ نے بچوں کو شرارت سے منع کرنے کے لیے پینسل پھینکی، لیکن بدقسمتی سے پینسل کی نوک اس بچے کی آنکھ میں لگی۔ جب بچہ بلبلا کر رویا تو اس کی ماں ڈاکٹر کے پاس لے کر بھاگی، ڈاکٹر نے معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ پینسل کی نوک بچے کی آنکھ کی پُتلی میں جاکر لگی ہے جس کی وجہ سے اس کی اس آنکھ کی بینائی متاثر ہوئی ہے۔ ماموں نے بتایا کہ میری بہن نے اپنے بچے کی آنکھ کا بہت علاج کروایا لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا، آخر میں ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ بچے کی اس آنکھ کا یا تو ٹرانسپلانٹ ہوگا یا پتھر کی آنکھ لگوا لیں۔ آنکھ کے ٹرانسپلانٹ کے لیے بیرون ملک سے آنکھ منگوانے کی ہماری حیثیت نہ تھی، اور پتھر کی آنکھ لگوانے کے لیے اس بچے کی ماں راضی نہیں تھی۔ آخرکار ماں نے اپنی آنکھ اپنے بچے کو عطیہ کردی کہ غلطی مجھ سے ہوئی اور پتھر کی آنکھ یہ لگوائے گا، یہ سوچ کر ماں نے اپنی بینائی اس کو دے دی۔
یہ ساری بات بتانے کے بعد ماموں کی آنکھوں سے آنسو چھلک گئے، ماموں کہہ رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب میری بہن نے بہت تکلیف جھیلی ہے کہ میرے بچے کی بینائی لوٹ آئے۔ الحمدللہ میرے بھانجے کی آنکھ ٹھیک ہوگئی ہے، لیکن چونکہ میری بہن کو شوگر ہے جس کی وجہ سے یہ آج تک تکلیف جھیل رہی ہے۔
ماموں اور ڈاکٹر تو امی کے علاج کے بارے میں بات کرنے لگے لیکن میں نے اپنے آپ کو بہت ضبط کرکے روکے رکھا اور گھر آکر کمرہ بند کرکے پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا کہ میں کتنا بدنصیب بیٹا ہوں جو اپنی ہی ماں کی تکلیف کا باعث بنا اور ان کو اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر برا کہتا، جب کہ میری ماں نے میری وجہ سے تکلیفیں جھیلیں، حالانکہ میری ماں نے مجھے جان بوجھ کر تو نہیں مارا تھا، اور ٹیوشن بھی تو وہ میری پرورش اور ضروریات پوری کرنے کے لیے پڑھاتی تھیں۔
میں نے وضو کیا، دو نفل نمازِ حاجت پڑھی اور اپنے پروردگار سے اپنی ماں کی صحت کے لیے گڑگڑا کر دُعا مانگی اور اپنی سوچ پر اپنے اللہ سے معافی مانگی کہ اے اللہ مجھے معاف کردے اور میری ماں کو صحت مند زندگی عطا کر۔ سب پڑھنے والوں سے بھی درخواست ہے کہ میری ماں کی صحت کے لیے دعا کریں۔

حصہ