عرفان مرتضیٰ کے اعزاز میں تقریب پزیرائی اور مشاعرہ

871

ڈاکٹر نثار احمد نثار
ادارۂ فکرِ نو کراچی کے زیر اہتمام کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے تعاون سے امریکا میں مقیم عرفان مرتضیٰ کے اعزاز میں تقریب پزیرائی اور مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ اردو بستیوں میں شعر و سخن اور مشرقی تہذیب و تمدن کے علمبرداروں میں عرفان مرتضیٰ بھی شامل ہیں جو کہ امریکا میں مقیم ہیں اور زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں مصروف عمل ہیں یہ ایک اچھی روایت ہے کہ اہم انہیں کراچی میں خوش آمدید کہہ رہے ہیں۔ اس تقریب کا سارا کریڈٹ کراچی پریس کلب اور ادارۂ فکر نو کے سر ہے۔ کراچی پریس کلب نے ادبی پروگراموںکے لیے ایک شان دار آڈیٹوریم بنانا ہے میں انہیں مبارک باد دیتا ہوں۔ اس پروگرام میں پروفیسر شاداب احسانی اور سعید الظفر صدیقی مہمانان اعزازی تھے اور مونا شہاب مہمان توقیری تھیں جب کہ رشید خاں رشید نے نظامت کی۔ عاشق شوکی نے تلاوت کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ اختر سعیدی نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ عرفان مرتضیٰ امریکا میں مقیم ہیں اور یہ وہاں اردو کی خدمت کرنے والوں کی خدمت کر رہے ہیں ان کا چوتھا شعری مجموعہ آج ہی آیا ہے جس کی کاپیاں آج کے حاضرین کو تحفتاً پیش کی جائیں گی۔ ڈاکٹر سلیم مغل نے کہا کہ عرفان مرتضیٰ شاعر ہیں‘ مصور ہیں اور جوڈو کراٹے کے ماہر بھی۔ یہ نظم کے بہت عمدہ شاعر ہیں تاہم ان کی غزلیں بھی کمال کی ہیں اور ان کی نثری کتب بھی ادب میں گراں قدر اضافہ ہیں۔ علاء الدین خان زادہ نے کہا کہ کراچی پریس کلب ایک ایسا دارہ ہے جہاں ہر زمانے میں ادبی پروگرام ہوتے رہے ہیں جب اس کراچی میں کوئی بولتا نہیں تھا اُس وقت بھی کراچی پریس کلب میں حق و صداقت کی آوازیں بلند ہوتی تھیں ہمارا نصب العین ہے کہ زبان و ادب کی خدمت ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ عرفان مرتضیٰ ہمہ جہت شخصیت ہیں ان کی کئی کتابیں آچکی ہیں ان کی ترقی کا سفر جاری ہے۔ عرفان مرتضیٰ نے کہا کہ وہ بہت ممنون و شکر گزار ہیں کہ ان کے لیے آج کی محفل سجائی گئی ہے۔ انہوں نے 2013ء میں ایک ادبی تنظیم بنائی ہے جو کہ امریکا میں ادبی پروگرام آرگنائز کررہی ہے۔ ہم نے فیس بک پر بھی ایک ادبی فورم بنایا ہے جس میں ایک لاکھ سے زائد شخصیات شریک ہیں آپ بھی اس میں اپنا حصہ ڈالیے گا۔ سعید الظفر صدیقی نے کہا کہ عرفان مرتضیٰ بے شمار خوبیوں کے مالک ہیں میں انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور ان کی مزید کامیابیوں کے لیے دعا گو ہوں۔ پروفیسر شاداب احسانی نے کہا کہ عرفان مرتضیٰ ہر سطح پر معتبر شخصیت ہیں انہوں نے زندگی کے کئی شعبوں میں بڑی محنت اور مہارت سے اپنی جگہ بنائی ہے میں ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا معترف ہوں اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ زیب اذکار نے کہا کہ کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی کے تحت ہر ہفتے کئی کئی پروگرام ترتیب دیے جا رہے ہیں جب سے کراچی میں امن وامان کی صورت حال بہتر ہوئی ہے ادبی تقریبات کا تسلسل بڑھ گیا ہے ہمیں امید ہے کہ اردو زبان و ادب مزید ترقی کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عرفان مرتضیٰ ایک اچھے شاعر و ادیب ہونے کے علاوہ ایک اچھے انسان بھی ہیں۔ اس موقع پر ادارۂ فکرِ نو کی جانب سے عرفان مرتضیٰ کی خدمت مین اردو زبان و ادب ایوارڈ پیش کیا گیا۔ محمد علی گوہر نے کلمات تشکر ادا کیے اس تقریب کے دوسرے دور میں مشاعرہ ہوا جس میں صاحبِ صدر‘ مہمانان خصوصی‘ مہمان توقیری اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے اپنا کلام نذرِ سامعین کیا ان میں ظفر محمد خان ظفر‘ غلام علی وفا‘ اختر سعیدی‘ سلمان صدیقی‘ انور انصاری‘ سلیم فوز‘ عظمیٰ جون‘ ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی‘ ڈاکٹر عنبرین حسین عنبر‘ محمد علی گوہر‘ شاہد اقبال شاہد‘ سیف الرحمن سیفی‘ سخاوت علی نادر‘ خالد میر‘ سلمان عزمی‘ زیب اذکار‘ شکیل وحید‘ شجاع الزماں خاں‘ عاشق شوکی‘ ہما اعظمی‘ کاشف علی ہاشمی‘ شہلا عمران اور واحد رازی شامل تھے۔

ادارۂ دستک میر پور خاص کی 200 ویں نشست

ادارۂ دستک میرپور خاص ایک ادبی ادارہ ہے جو کہ تسلسل کے ساتھ اردو زبان و ادب کے فروغ میں مصروف عمل ہے۔ اس کی تقریبات میں اندرون سندھ اور کراچی کے قلم کار بھی شرکت کرتے رہتے ہیں یہ غیر سرکاری تنظیم ہے جو اپنی مدد آپ کے اصول پر کاربند ہے۔ گزشتہ روز اس ادارے کی 200 ویں نشست اور تیرہویں سالگرہ کے موقع پر تقسیم نشانِ دستک اور محفلِ مشاعرہ منعقد ہوا۔ پہلے حصے کی صدارت پروفیسر پیر نثار احمد جان سرہندی نے کی جب کہ مہمان خصوصی راجا عبدالحق تھے۔ عدنان قمر نے ادارۂ دستک کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمارے ادارے کے قیام کا مقصد زبان و ادب کی ترویج و اشاعت کے ساتھ قلم کاروں کو متحد کرنا ہے ہم طویل عرصے سے جہالت کے خلاف نبرد آزما ہیں ہم شعر و سخن کی خدمت گزار ہیں۔ رائو عمران نے ادارۂ دستک کے گزشتہ نشست کی کارروائی سے حاضرین کو آگاہ کیا۔ اعجاز بابو خان نے استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے تمام شرکائے محفل کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکلا کر آج کی تقریب میں شرکت کی۔ فیصل خان زئی اور راجا عبدالحق نے ادارۂ دستک کی خدمات کی تعریف کی خاص طور پر پروفیسر نوید سروش کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ تقریب کے پہلے دور کی نظامت نوید سروش نے کی جس میں ادارۂ دستک کی جانب سے حبیب ارشد‘ پروفیسر عتیق جیلانی‘ عارف شفیق‘ حجاب عباسی‘ سحر تاب رومانی‘ صفدر علی انشا‘ سید کامل کاظمی‘ روبینہ راجپوت‘ پروفیسر سلیم اقبال‘ محمد شہزاد خان کو نشانات سپاس (شیلڈز) پیش کیے گئے جب کہ تاج قائم خانی (مرحوم) اور اکبر معصوم (مرحوم) کے ایوارڈز ان کے لواحقین کی خدمت میں پیش کیے گئے اس پروگرام کے بعد مشاعرہ ہوا جس کی مجلس صدارت میں حبیب ارشد‘ عارف شفیق اور ماہر اجمیری شامل تھے۔ پروفیسر عتیق احمد جیلانی‘ حجاب عباسی‘ سحر تاب رومانی مہمانان خصوصی تھے۔ روبینہ راجپوت‘ عبدالمجید امبر‘ صفدر علی انشا مہمانانِ اعزازی تھے۔ پروفیسر اسد شوکت نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ مشاعرے میں حبیب ارشد‘ عارف شفیق‘ ماہر اجمیری‘ پروفیسر عتیق احمد جیلانی‘ حجاب عباسی‘ سحر تاب رومانی‘ روبینہ راجپوت‘ عبدالمجید امبر‘ صفدر علی انشا‘ پرفیسر اسد شوکت‘ یونس عظیم‘ جاوید خان جاوید‘ خیر محمد انجم‘ احمد عمران اویسی‘ نوید سروش‘ مرزا عاصی اختر‘ ڈاکٹر حبیب الرحمن چوہان‘ ڈاکٹر صدیق نوحانی‘ ملک ندیم شاز‘ یوسف چوہان‘ پروفیسر سلیم اقبال‘ لاریب رحمن‘ نعمان سید اور اشعر بیگ نے اپنا کلام نذرِ سامعین کیا اور خوب داد سمیٹی۔ ادارۂ دستک کی سالگرہ کی تقریب آل پرائیویٹ اسکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن میرپور خاص کے زیر اہتمام تھی اس تقریب میں زندگی کے مختلف شعبوں کے چند اہم افراد نے شرکت کی یہ کامیاب پروگرام تھا۔ ادارۂ دستک کے صدچر نوید سروش نے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں شعر و شاعری کی محفلیں سجانا اس لیے بہت ضروری ہو گیا ہے کہ نوید نسل تک ہماری آواز پہنچ جائے انہیں علم ہو سکے کہ مشاعرے ہماری روایات کا حصہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا الیکٹرانک میڈیا زبان و ادب کے فروغ میں مخلص نہیں ہے ہر ٹی وی چینل کمرشل پروگراموں کو ترجیح دیتا ہے ادب کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہے اسی طرح اخبارات میں بھی ادبی خبروں کو اہمیت نہیں دی جارہی یہ افسوس کا مقام ہے اس مسئلے کے حل کے لیے ہمیں سوچنا ہوگا ورنہ اردو کا فروغ تعطل کا شکار ہو جائے گا۔ عارف شفیق نے اپنا کلام سنانے سے قبل ادارۂ دستک کو مبارک باد دی کہ اس نے ایک اچھا پروگرام ترتیب دیا۔ آج بہت اچھا کلام سامنے آیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جو تنظیمیں اردو زبان وا دب کے لیے کام کر رہی ہیں وہ قابل تحسین ہیں فی زمانہ ادب کی خدمت کرنا بہت بڑا کام ہے میرپور خاص کی ادبی فضا بہت خوش گوار ہے کہ یہاں ادبی تقریبات ہوتی رہتی ہیں کراچی میں بھی اس وقت ادبی محافل تواتر سے منعقد ہو رہی ہیں بلکہ ایک دن میں کئی کئی مشاعرے ہو رہے ہیں یہ خوش آئند بات ہے۔

فیض احمد فیض کی یاد میں بزمِ نگارِا دب کا مشاعرہ

یادِ رفتگاں کے سلسلے میں بزم نگارِ ادب پاکستان کے تحت فیض احمد فیض کی یاد میں ایک مشاعرہ ترتیب دیا گیا جس کی صدارت ڈاکٹر جاوید منظر نے کی۔ اختر سعیدی اور منیف اشعر ملیح آبادی مہمانان خصوصی تھے۔ شاعر علی شاعر اور جمیل ادیب سید مہمانان اعزازی تھے۔ تاج علی رانا نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ حافظ سخاوت حسین ناصر نے تلاوتِ کلام مجید کا شرف حاصل کیا جب کہ واحد رازی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ صاحب صدر نے صدارتی خطاب میں کہا کہ فیض احمد فیض قادرالکلام شاعر تھے وہ ایک انقلابی شخصیت تھے ان کی شاعری ہر دور میں زندہ رہے گی جن شعرا نے غزل کو جدید اسلوب سے ہم آہنگ کیا ان میں ایک اہم نام فیض احمد فیض کا ہے۔ منیف اشعر نے سخاوت علی نادر کی ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بزم ادب کی آبیاری کے لیے مصروف عمل ہے یہ تواتر کے ساتھ یادرفتگاں کے حوالے سے پروگرام کر رہے ہیں اس سلسلے کا آج چھٹا پروگرام ہے جو بہت کامیاب ہے۔ یہ گوشہ نشین شعرا کو بھی اسٹیج پر لا رہے ہیں یہ ادارہ مفادات سے بالاتر ہو کر کام کر رہا ہے۔ میں ان کی کامیابیوں کے لیے دعا گو ہوں۔ اس موقع پر صاحب صدر‘ مہمانان خصوصی‘ مہمانان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ جن شعرا نے کلام پیش کیا ان میں فرح دیبا‘ ذوالفقار علی پرواز‘ شگفتہ ناز‘ ساجدہ سلطانہ‘ وسیم احسن‘ نصیرالدین نصیر‘ واحد رازی‘ یاسر سعید صدیقی‘ الحاج یوسف اسماعیل‘ سخاوت علی نادر‘ سخاوت حسین ناصر‘ امتہ الحئی وفا‘ سلمان عزمی‘ فرید خاور‘ زیب النساء زیبی‘ محمد علی زیدی‘ حامد علی سید شامل تھے۔ مشاعرے کے بعد بزمِ نگارِ ادب کی جانب سے صاحبِ صدر‘ مہمانان خصوصی اور مہمان اعزازی کی خدمت میں اجرک پیش کی۔ سخاوت حسین ناصر نے کلمات شکر ادا کیے جب کہ سخاوت علی نادر نے خطبۂ استقبالیہ پیش کیا انہوں نے کہا وہ اپنے ادارے کے تحت ادبی پروگرام کراتے ہیں یہ پروگرام شہر کے مختلف علاقوں میں ہوتے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ شعر و ادب سے استفادہ کرسکیں ہم انتہائی خلوصِ نیت سے کام کر رہے ہیں۔ نظر انداز قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کرنا ہماری تنظیم کے منشور کا حصہ ہے جس پر ہم عمل کر رہے ہیں اور اپنے بزرگوں کو بھی یاد کر رہے ہیں۔

غزل

انجم عثمان

’’کن‘‘ کی تجلیات نے کیا مجھ سے کچھ کہا !
تخلیقِ کائنات نے کیا مجھ سے کچھ کہا !
برہم ہوا سکوتِ تماشائے روز و شب
نیرنگیٔ حیات نے کیا مجھ سے کچھ کہا !
اک ساعتِ سعید رہی میرے رو برو
ہنگامِ بے ثبات نے کیا مجھ سے کچھ کہا !
جذب و جنوں سے گوہرِ حکمت کشید کر
پھر سن ! الہیات نے کیا مجھ سے کچھ کہا !
ہے مجھ سے ہم کلام جنوں خیزیٔ حیات
دانائے کائنات نے کیا مجھ سے کچھ کہا !
’’لا انتہا‘‘ ’’محیط‘‘ سے ہے ماورا تو پھر
وہمِ شماریات نے کیا مجھ سے کچھ کہا !
اے وحدت الوجود! پراگندہ ہے خیال !
الہامِ کیفیات نے کیا مجھ سے کچھ کہا !
اے صبحِ خندہ رو !نہیں دائم ترا وجود
تیری رگِ حیات نے کیا مجھ سے کچھ کہا !
تاروں بھری بساط بچھا کر سرِ فلک
نو آفریدہ رات نے کیا مجھ سے کچھ کہا !
انجم سماعتوں میں ہیں سرگوشیاں سی کیوں ؟
انبوہ خواہشات نے کیا مجھ سے کچھ کہا !

حصہ