شریک مطالعہ، ٹنڈو آدم سے کراچی، ایک عام آدمی کی آپ بیتی

615

نعیم الرحمن
راشد اشرف کی ’’زندہ کتابیں‘‘ کا سلسلہ کامیابی سے جاری ہے۔ ان کے اس قافلے میں ڈاکٹر پرویز حیدر، وسیم رضا، ڈاکٹر ظفریاب قاضی، ڈاکٹر رضوان اللہ خان، ایمن خان اور مریم خان بھی شامل ہوگئے ہیں۔ دوستوں کے تعاون سے اب زندہ کتابیں پیپر بیک کے بجائے عمدہ سفیدکاغذ پر مجلّد شائع ہورہی ہیں، اس کے باوجود ان کتب کی قیمت پیپر بیک سے بھی کم ہے۔ اس سلسلے کی 35 ویں کتاب ’’ٹنڈو آدم سے کراچی ‘‘ ہے۔ 450 صفحات اورکئی تصاویر سے مزین کتاب کی قیمت 450 روپے انتہائی کم ہے۔
’’ٹنڈوآدم سے کراچی‘‘ ڈاکٹر رضوان اللہ خان کی یادداشتیں ہیں، اور یہ زندہ کتابیں کی پہلی نئی کتاب ہے۔ اس سے قبل اردو کی نایاب اور طویل مدت سے عدم دستیاب کتب ہی شائع ہوتی رہی ہیں۔ اس بارے میں راشد اشرف صاحب ’’دو باتیں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’زندہ کتابیں سلسلے کی یہ 35 ویں کتاب ہے۔ یہ سلسلے کی وہ پہلی کتاب ہے جو پہلی مرتبہ شائع ہورہی ہے۔ اس سے قبل اس سلسلے کے تحت پرانی کتابوں کی ازسرنو اشاعت ہی کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔ ڈاکٹر رضوان اللہ خان کتاب لکھنے پر آمادہ نہ تھے۔ مؤدبانہ عرض کیا کہ اس کے پڑھنے سے کسی ایک شخص کی زندگی میں بھی تبدیلی آجائے تو یہ سودا برا نہیں ہے۔ یہ تجربات ایسے ہیں جو پڑھنے والوں کو حوصلہ فراہم کرنے کا سبب بنیں گے۔ آخری باب ایسا ہے کہ شاید کسی قاری کی زندگی کی ڈگر کی تبدیلی کا سبب بن سکے، اور پھر قاری ہی سب سے بڑا منصف ہے۔ کرنے دیجیے اُسے فیصلہ۔ یہ آپ بیتی ایک عام انسان کی داستان ِحیات ہے۔ زندگی پھولوں کی سیج نہیں ہے، بہتوں کے لیے کڑی جدوجہد کا نام ہے۔ میں یہ باتیں ڈاکٹر رضوان اللہ کی زبانی زمانۂ طالب علمی سے سنتا آیا ہوں۔ گزشتہ دس برسوں میں مصنف کے بابا صاحب کی باتیں بھی شامل ہوتی چلی گئیں۔ یہ دنیا جس کا تذکرہ آپ کتاب کے آخری باب میں پڑھیں گے، ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ایک متوازی نظام ہے۔ آپ نہ مانیے تب بھی یہ نظام اپنا کام کرتا رہے گا۔ بابا صاحب کا قصہ طولانی ہے مگر دل چسپ اور ایسا کہ آپ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ بہت سے راز ہائے دروں سے ان کا سینہ لبریز تھا۔ آج تک ان کا فیض جاری ہے، پیغامات پہنچ رہے ہیں، پیامبر مستعدی سے اپنا کام کررہے ہیں اور کتاب کے مصنف تک وہ پیغامات اور احکامات پہنچا رہے ہیں۔ پیغام لانے والا بھی ایک عجیب کردار ہے۔ ممتاز مفتی اور اشفاق احمد مرحوم کو ان شخصیات کا علم ہوتا تو ان کے تذکروں سے متعلق دوحضرات کی کتابوں میں کئی صفحات شامل ہوجاتے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس سے قبل کوئی کتاب تحریر نہیں کی، اس لیے انہوں نے سیدھے سادے انداز میں آخری باب تحریر کیا ہے، زیبِِ داستان والا عنصر اس میں عنقا ہے۔‘‘
ڈاکٹر پرویز حیدر نے ’’ٹنڈو آدم سے کراچی‘‘ کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’میرے لیے یہ آپ بیتی کئی طرح سے دل چسپ ہے، کئی باتوں میں مماثلت بھی ہے۔ میں بھی گورنمنٹ کے محکمۂ صحت سے ستمبر 2017ء میں ریٹائر ہوا اور ڈاکٹر رضوان اللہ خان ایک ماہ بعد اکتوبر میں ریٹائر ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی ایف ایس سی میری طرح 1975ء میںکیا۔ وہ محکمہ صحت سندھ میں، جب کہ مَیں پنجاب میں تھا۔ راشد اشرف کی تحریک پر انہوں نے اتنی جامع اور بہترین آپ بیتی تحریر کی اور اس کے ساتھ انہوں نے کمپیوٹر سیکھ کرکتاب خود کمپوز بھی کی۔ جس طرح ڈاکٹر صاحب ذکر کرتے ہیں کہ ان کی والدہ تیس سال کی عمر میں بیوہ ہوگئی تھیں اور کس قدر ہمت سے انہوں نے اپنے پانچ بچوں کی پرورش نامساعد حالات میں کی اور انہیں تعلیم دلائی۔ معلوم نہیں اُس زمانے کی کم پڑھی لکھی خواتین میں اتنی ہمت کہاں سے آتی تھی کہ وہ خود کو ہر طرح کے حالات میں ڈھال لیتی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب کی والدہ نے ٹنڈوآدم سے حیدرآباد آنے کا فیصلہ کیا تاکہ بچوں کو بہترین تعلیم دلائی جا سکے۔‘‘
کتاب کے بارے میں ان دو تحریروں سے اس کی افادیت کا اندازہ ہوجاتا ہے، اور اس وجہ کا بھی کہ زندہ کتابیں میں نئی کتاب شائع کرنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا۔ یہ ایک انتہائی دل چسپ اور سبق آموز آپ بیتی ہے، جس سے قارئین کو ایک عام انسان کی مشکلات اور مصائب کو جاننے اور اُس کی جدوجہد کا علم ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ انہیں بھی اس طرح ہر قسم کی صورت حال کے سامنے سینہ سپر ہونے کا حوصلہ ملتا ہے۔ مصنف نہ ہونے کے باوجود ڈاکٹر رضوان اللہ خان کا طرزِ تحریر دل چسپ اور پُراثر ہے۔ سیدھے سادے انداز میں بیان کردہ کئی واقعات قاری کے دل میں گھر کرلیتے ہیں، اور جس طرح ان کی والدہ نے شوہر کی وفات کے بعد بچوں کی پرورش کی، اس پر ہر زبان سے بے ساختہ اُن کے لیے دعا نکلتی ہے۔
رضوان اللہ صاحب کتاب کے تعارف میں لکھتے ہیں کہ ’’ریٹائرمنٹ کے بعد عزیزم راشد اشرف سے ملاقات ہوئی جو میری خواہرِ نسبتی کے ہونہار صاحبزادے ہیں۔ پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں لیکن ملازمت کے علاوہ اپنی ساری توانائی اردو ادب کی خدمت میں صرف کرتے ہیں۔ راشد اشرف نے ایک روز اچانک مجھ سے کہا ’’ڈاکٹر صاحب آپ کمپیوٹر پر اردو ٹائپنگ کی پریکٹس شروع کردیں۔‘‘ میں نے پوچھا ’’کیوں بھئی؟‘‘ کہنے لگے ’’آپ اپنی یادداشتیں تحریر کرلیں۔ کتاب کی کمپوزنگ بھی ہوجائے گی۔ اس طرح کتاب چھاپنے میں سہولت اور بچت بھی ہوجائے گی‘‘۔ زندگی بسر کی ہے؟ زندگی بیت گئی ہے؟ یا زندگی گزاری گئی ہے؟ عنوان دینا مشکل ہے۔ پلٹ کر دیکھتا ہوں تو جزوی کامیابیاں ہیں۔ جزوی ناکامیاں ہیں۔ پوری کامیابی بھی شرمندۂ تعبیر نہ ہونے والا خواب، اور پوری ناکامی بھی خارج از امکان۔ نہ حد سے زیادہ مایوسی، نہ حد سے زیادہ پُرامیدی۔ بس متلون کہنا ہی مناسب ہوگا۔ اس زندگی نے ہنسایا بھی ہے تو رلایا بھی ہے۔ جگایا بھی ہے تو سلایا بھی ہے۔ کمایا بھی ہے تو گنوایا بھی ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوا کہ خوب محنت اور پلاننگ کے باوجود گوہرِ مقصود حاصل نہ ہوسکا، اور ایسا بھی ہوا کہ کوشش کے بغیر گوہرِ مقصود جھولی میں آگیا۔ فاقہ مستی سے تنگ دستی، اور خرمستی سے سرمستی سب ہی لذتوں سے آشنا رہا۔ میری 61 سالہ زندگی کے اس سفر میں تین پڑاؤ ہیں۔ پہلاپڑاؤ ٹنڈوآدم، جہاں پیدائش سے میٹرک کا سفر مکمل ہوا۔ اس سفر کا دورانیہ 16 برس ہے۔ دوسرا پڑاؤ حیدرآباد، جہاں کالج سے میڈیکل کالج اور ہاؤس جاب تک کا سفر طے ہوا۔ اس سفر کا دورانیہ گیارہ برس ہے۔ تیسرا پڑاؤ کراچی، اس میں تین سال کا ایک موڑ بھی آیا جو سانگھڑ میں بسر ہوا۔ ملازمت، شادی اور ریٹائرمنٹ کے معاملات ہوئے۔ یہ سفر تاحال جاری ہے جس کا دورانیہ 33 برسوں پر محیط ہے۔ ٹنڈوآدم سے کراچی اسی سفرکی داستان ہے۔‘‘
کتاب کو 6 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ابتدائی تین باب ڈاکٹر رضوان اللہ کے بیان کردہ تین پڑاؤ کے تذکرے پر مشتمل ہیں۔ چوتھا باب ’’بدلا ہوا کراچی‘‘ اور پانچواں ’’چند انمول ہستیاں‘‘ ہے۔ جبکہ چھٹا باب ’’پڑی گوش جاں میں عجب نگاہ‘‘ ڈاکٹر رضوان اللہ کے بابا صاحب کا تذکرہ ہے۔ تصوف کی دنیا کے اس بھرپور اور انتہائی دل چسپ ذکر کا موازنہ قدرت اللہ شہاب کی آپ بیتی ’’شہاب نامہ‘‘ کے آخری باب’’چھوٹا منہ بڑی بات‘‘ سے کیا جا سکتا ہے، اس فرق کے ساتھ کہ رضوان اللہ نے بابا صاحب اور دیگر صاحبِ تصوف افراد کے بعض مافوق الفطرت واقعات بھی بلا کم و کاست سادگی سے بیان کردیے ہیں، جب کہ شہاب نامہ میں قدرت اللہ شہاب ساری زندگی ممتاز مفتی اور اپنے دیگر مریدین کی جن باتوں کی سختی سے تردید کرتے رہے، انہیں بڑھا چڑھا کر اس باب میں پیش کردیا اور خود کو مستند اولیاء میں شامل کرانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ یہی نہیں، شہاب نامہ واحدآپ بیتی ہے جس میں شہاب صاحب کے کسی استاد کا ذکر نہیں، لیکن ان کے والد، والدہ اور اہلیہ بڑے مقام پر فائز نظر آتے ہیں، لیکن ڈاکٹر صاحب نے ایسے کسی دعوے کے بغیر اس دل چسپ تذکرے کو قاری کے فہم پر چھوڑ دیا ہے۔
ہمارے بڑے شہرہی نہیں چھوٹے شہر اور قصبات بھی ماضی میں کتنے صاف ستھرے ہوتے تھے، یہ ذکر ذرا ڈاکٹر صاحب کی زبانی ملاحظہ کریں: ’’ساٹھ کی دہائی میں ٹاؤن پلاننگ اور صفائی ستھرائی کے بہترین نظام کی وجہ سے ٹنڈوآدم کو سندھ کا پیرس کہا جاتا تھا۔ زراعت، صنعت و حرفت، تجارت، تعلیم، صحت، کھیلوں اورہم نصابی سرگرمیوں کی وجہ سے یہ چھوٹا سا شہر نہ صرف اپنے باسیوں کو بلکہ اردگرد کئی کلومیٹر رقبے میں آباد گوٹھوں کے رہائشیوں کو بھی بہترین سہولیات مہیا کررہا تھا۔ گندم، کپاس اور گنے کی فصلیں۔ آم، کیلے، شہتوت اور فالسے کے باغات۔ سبزی منڈی، فروٹ مارکیٹ، ٹیکسٹائل ملیں، کپاس صاف کرنے کے کارخانے، ہاتھ سے کپڑا بنانے والی کھڈیاں جو بعد میں پاور لومز بن گئیں، برف کے کارخانے، قلفیاں بنانے کی فیکٹریاں، دوا ساز کمپنی، گندم اور کپاس کی خرید و فروخت کے مراکز، مال گاڑیوں سے آنے والے سامان کے گودام، ٹرکوں سے آنے والے سامان کے لیے گڈز اسٹیشن شہر کی تجارتی سرگرمیوں کی عکاس تھے۔ سندھ کو صوفیوں کی سرزمین کہا جاتا ہے اور بالکل صحیح کہا جاتا ہے۔ اس شہر میں بھی جمن شاہؒ اور حیدر شاہؒ کے مزار مرجع خلائق تھے۔ مہاجر، سندھی، پنجابی، بلوچ، پٹھان سب یہاں امن، محبت، رواداری اور بھائی چارے کی فضا میں زندگی بسرکررہے تھے۔ سندھی اور غیر سندھی آبادی کا تناسب برابر ہی ہوگا۔ لسانی ہنگاموں میں یہاں چندگھنٹوں کی کشیدگی کے بعد سندھی اور غیر سندھی معززین نے جلد قابو پالیا۔‘‘
ایک چھوٹے سے شہرکا یہ تعارف آج کچھ عجیب سا لگتاہے۔ محبت کی ایسی فضا بقول امجد اسلام امجد:
محبت ایسا دریا ہے کہ بارش روٹھ بھی جائے تو پانی کم نہیں ہوتا
محبت ایسا پودا ہے جو تب بھی سبز رہتا ہے کہ جب موسم نہیں ہوتا
ڈاکٹر رضوان اللہ نے کئی پرانی چیزوں کی یاد بھی دلائی ہے جیسے باورچی خانے میں دو چیزیں اب ناپیدہوگئی ہیں،وہ ہیںپھونکنی اور سل بٹہ ۔ پھونکوںسے چراغ بجھے نہ بجھے لیکن آگ ضرورجلائی جاتی تھی۔ اسی لیے پھونکنی ہر باورچی خانے کا لازمی جزوتھی۔ ایندھن کے طور پرلکڑی استعمال ہوتی، جو آگ پکڑنے میں کچھ وقت لیتی اور شروع میں دھواں بھی بہت دیتی تھی۔ اس دھویں کو کم اورآگ کو تیز کرنے کے لیے پھونکنی بہت ضروری ہوتی تھی۔ سل پتھر کا ایک بڑا ٹکڑا اور بٹہ اس کا چھوٹا ٹکڑا ہوتا تھا۔ اُس زمانے میں پسے ہوئے مسالے عام نہیں تھے، اس لیے ثابت مسالے سل پر بٹے سے پیسے جاتے تھے۔ کوفتے اور کباب اسی سل بٹے پر پیس کر بنائے جاتے تھے۔ اب یہ چیزیں کتنے لوگوں کو یاد ہیں۔ (جاری ہے)

غزل

ڈاکٹرباقر رضا
(اوم کرشن راحت صاحب کی نذر)

کیا خبر تھی ہجرتوں کی داستاں ہو جائیں گے
بے وطن ہو جائیں گے بے آشیاں ہو جائیں گے
راستے پیچیدہ و پُر خار ہیں اے ہم سفر
تم قدم رکھ دو حریر و پرنیاں ہو جائیں گے
وقت اور حالات کی سختی کا کیا شکوہ کریں
تم ہمارے ساتھ ہو تو مہرباں ہو جائیں گے
جانتے ہو پیار کے لمحے ہیں کتنے مختصر
تم اگر چھو لو انہیں تو جاوداں ہوجائیں گے
دل میں تپتے ہیں ہزاروں جو بیاباں ہجر کے
تم اگر پہلو میں آؤ گل ستاں ہو جائیں گے
یوں بیاں کب ہو سکے قصے دلِ پُر درد کے
تم ذرا نظریں ملا لو تو بیاں ہو جائیں گے
راستے سب خاک کے ذروں پہ ہی ہیں مشتمل
تم اگر ہو ہم قدم تو کہکشاں ہو جائیں گے
حسن کی تعریف میں اردو کے سب الفاظ شوق
تم اشارہ تو کرو رطب اللساں ہوجائیں گے
تلخ تر حالات میں ہے شاعری کا مشورہ
تم پہ گر غزلیں لکھیں شیریں بیاں ہو جائیں گے
زندگی تم سے ہے سو اسباب جینے کے لیے
تم جہاں جاؤ وہیں جانِ جہاں ہوجائیں گے
رفعتیں سڈنی کراچی کی فضاؤں میں نہیں
شہر جن میں تم رہو وہ آسماں ہوجائیں گے
نرمیٔ گرفتار کا دھوکا ہے دنیا کے لیے
وقت جب آئے گا ہم شعلہ بجاں ہوجائیں گے
مدرسوں میں نفرتوں کے زہر پر پالا جنہیں
ایک دن آئے گا وہ فتنے جواں ہوجائیں گے
زور گر بڑھتا رہا خوفِ فساد خلق کا
’’دیکھنا اہل زباں بھی بے زباں ہوجائیں گے‘‘
ہے ذرا سی اک میٔ عرفان کے چکھنے کی دیر
دیکھنا پیرِ حرم پیرِ مغاں ہو جائیں گے
اک تجسس چاہیے طبع پریشاں کے لیے
خود بہ خود تسخیر یہ کون و مکاں ہو جائیں گے
شک رضا اس میں نہیں اہلِ یقیں ہم سے اگر
گفتگو کرلیں گے تو اہلِ گماں ہو جائیں گے

حصہ