سیرت النبیؐ مشعل راہ

1205

ناصرمحمود بیگ
آج اکیسویں صدی میں جب کہ دنیا کے سب ہی ممالک تیزی سے ترقی کر رہے ہیں مسلم ممالک مسلسل بحرانوں کا شکار ہیں اور پستی و ذلت کی بڑھتے جار ہے ہیں حالانکہ ایک وقت تھا جب مسلمان تعلیمی، سائنسی، اقتصادی، تہذیبی، دفاعی الغرض ہر شعبہ زندگی میں تمام اقوام عالم سے آگے تھے۔ ان کی لائبریریاں اور تجربہ گاہیں علم و فن کا مرکز ہوا کرتی تھیں۔ ان کی قوت و شوکت کایہ عالم تھا کہ دنیا کی تمام قومیں ان کے آگے سرنگوں ہوتی تھیں۔ مگرآج امت کی حالت اقبال کے بقول کچھ یوں ہے:

تم کو اپنے آباء سے نسبت ہو نہیں سکتی
تم گفتار وہ کردار، تم ثابت وہ سیارہ

اگر ہم اپنے پیارے پیغمبر جناب محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے مکی اور مدنی ادوار کا بغور مطالعہ کریں تو آپؐ کی زندگی بھی مختلف مشکلات اور بحرانوں میں گھری نظر آتی ہے۔ مگر آپؐ ان چیلنجز سے جس طرح نبر د آزما ہوئے یہ موجودہ حالات کے تناظر میں امت کے لیے ایک روشن راستہ ہے۔ جس پر چل کر آج بھی یہ امت اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرسکتی ہے۔ سیر تِ طیبہ کے چند روشن پہلو پیش خدمت ہیں جن کوہم بحیثیت امت مشعلِ راہ بنا کران مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔
نبیؐ بحیثیت معلم انسانیت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ’’بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیاہے‘‘۔ اگر ہم آپ ؐ کی سیر ت طیبہ کا مطالعہ کریں تو آپؐ نے پانچ بنیادی اقدار کی تعلیم دی۔ اخلاص: دل کی پاکیزگی اور مثبت، تعمیری سوچ۔ صدق: انسان کا قول وفعل میں سچاہونا۔ امانت: معاملات ِزندگی میں دیانت داری۔ ایثار: قربانی دینے کا جذبہ۔ شکر: اپنے رب اور دوسرے انسانوں کا شکر گزار ہونا۔ اسلامی معاشروں کے زوال کا کا ایک سبب ان اخلاقی اقدارکی پامالی بھی ہے اقوام ِعالم نے ہمارے نبیؐ کی انہی تعلیمات پر عمل کرکے عروج حاصل کیا۔
نبیؐ بحیثیت ماہر ِمعاشیات:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ سے قبل یہی وہ یثرب تھا جس کی معیشت پر یہود چھائے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پالیسیوںںکی برکت سے یہود کی معیشت رفتہ رفتہ کمزور ہوتی چلی گئی حتیٰ کہ وہ یہیں سے نکال دیے گئے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان پالیسیوں کا مختصر جائزہ ملا حظہ فرمائیں جن کو اپنا کر امت محمد یہؐ آج بھی معاشی مسائل حل کرسکتی ہے۔ مہاجرین اور انصار کے مابین بھائی چارہ قائم کرکے آپؐ نے رنگ، نسل اور وطن کی قید سے آزادمعاشی نظام کی راہ دکھائی۔ 2 ہجری میں زکوٰۃ اور صدقات کا نظام قائم کیا اور دولت صرف امیروں تک محدود نہ رہی بلکہ غریبوں اور مساکین وغیرہ میں تقسیم ہونے لگی۔ اس دوران آپؐ نے مسلمانوں کو صداقت، امانت و دیانت کے اسباق کے ساتھ کاروبار کے وہ گر سکھائے جس میں کسی کی حق تلفی نہ ہو۔
نبیؐ بحیثیت حکمران:
تاجدارمدینہؐ نے اپنے دور حکمرانی میں چند اصول و ضوابط وضع کیے جن پرعمل کرکے ہمارے حکمران آج بھی امت مسلمہ کے زخموں پر مرہم رکھ سکتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا، ’’میری امت کے کسی بھی معاملے کا جو نگران ہے اگر عوام پر وہ سختی کرے تو اے اللہ تو بھی اس پر سختی کر اور اگر وہ عوام پر نرمی کرے تو اللہ تو بھی اس پر نرمی فرما‘‘۔ (بخاری:2804) غزوہ احزاب کے موقع پر اپنے ہاتھوں سے خندق کھودکر آپؐ نے اربابِ اختیار کو سبق دیا کہ مشکلات میں اسباب کو اختیا رکرنا، حکمت عملی کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرنا اورحو صلہ بلند رکھنا شیوہ پیغمبری ہے۔ آپؐ نے اپنے دور حکومت کے آغاز میں ہی سفارتی ادارے کو منظم کیا اور روم و فارس جیسی عظیم سپرپا ورز کے بادشاہوں تک اسلام کا پیغام پہنچایا جو کہ آج مسلم ممالک کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہونا چاہیے۔ (سیرت النبیؐ: از شبلی نعمانی)
نبیؐ بحیثیت داعی و مبلغ: اللہ کریم نے اپنے محبوبؐ سے فرمایا، ’’(اے نبیؐ) اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور ان سے بحث کرو اس طریقہ سے جو بہترین ہو۔ (النمل:125) اور پھر جس خوبصورت انداز میں آپؐ نے دین حق کی دعوت اقوام عالم کے سامنے رکھی اس کو اپنا کر آج بھی داعیانِ اسلام اپنے دین کا بہتر تشخص دنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔
نبیؐ بحیثیت رہبر و رہنما:
اعلان نبوت سے پہلے حجرا سود کی تنصیب پر مکہ کے مختلف قبائل کے درمیان کشمکش اور تصادم کی فضاپیدا ہوگئی۔ ایسے نازک وقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سیاسی قائد بن کر دانش مندانہ فیصلہ کیا اور ایک چادر میں حجراسودر کھ کر تمام قبائل کے سرداروں سے وہ چادر اٹھوائی اور اس طرح وہ بحران ٹل گیا۔ اب زخموں سے چور اور ٹکڑوں میں بٹی امت کے سیاسی اورمذہبی قائدین کواس حسن کردار کو اپنا نے کی ضرورت ہے۔
نبیؐ بحیثیت سپہ سالار:
ایک جنگی معرکے میں اسامہ بن زیدؓ نے ایک ایسے شخص کو قتل کردیا جس نے آخری وقت میں کلمہ پڑھ لیا تھا۔ اس پر آپؐ غصے میں آگئے اور فرمایا ’’کیا تم نے اس کا دل چیرکر دیکھ لیا تھا کہ اس نے اخلاص سے کلمہ پڑھا تھا یا اپنی جان بچانے کے لیے پڑھا تھا‘‘۔ (بخاری :4019) ایک طرف پیارے آقاؐ کی کلمہ گو مسلمان کے بارے اتنی احتیاط اوردوسری طرف ہم آج کے مسلمان کسی قدر دلیر ہوگئے ہیں کہ بہت جلد مسلمانوں کواسلام سے خارج کرکے تہہ تیغ کر نے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ ہمیں ان رویوں کو بدلنا ہوگا۔
آج امتِ مسلمہ جن مسائل سے دو چار ہے ان کے حل کے لیے سرور کونینؐ کی سیرت مبارکہ کے علمی، اخلاقی، ابلاغی، معاشی، سیاسی اور عسکری پہلوئوں سے رہنمائی لینے کی ضرورت ہے وگرنہ اسلامی انقلاب کی تمام ترکوششیں مجلسوں، احتجاجوں، ریلیوں، کانفرنسوں اور تحریروں تک ہی محدود رہیں گی اورآنے والا ہر نیا سال اس امت کو زوال کی طرف ہانک رہا ہوگا۔

حصہ