روزہ اور تزکیہ نفس

1607

شافعہ افضل
سیّدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا، ’’روزہ عذابِ الٰہی کے لیے ڈھال ہے۔ پس روزے دار کو چاہیے کہ فحش بات نہ کرے اور جہالت کی باتیں مثلاً مذاق ، جھوٹ ، چیخنا ، چلّانا اور شور و غل مچانا وغیرہ بھی نہ کرے اور اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اسے چاہیے کہ دو مرتبہ کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ قسم اس ذات کی کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ روزہ دار کی منہ کی خوشبو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ عمدہ ہے‘‘۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ’’روزہ دار اپنا کھانا پینا اور اپنی خواہش و شہوت میرے لیے چھوڑ دیتا ہے تو روزہ میرے ہی لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ ہر نیکی کا ثواب دس گناہ ملتا ہے لیکن روزے کا ثواب اس سے کہیں زیادہ ملے گا‘‘۔ (صحیح بخاری)
روزے کا مقصد انسان کے اندر صبر، برداشت اور تحمل پیدا کرنا ہے۔ اس کو غریب اور نادار لوگوں کے دکھ، درد، تکلیف، بھوک اور پیاس کا احساس دلانا ہے۔ اس کے اندر یہ احساس پیدا کرنا ہے کہ اللہ پاک نے ہمیں جو بھی نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان میں دوسروں کا بھی حصہ ہے۔ روزے کے بے شمار اخلاقی اور روحانی فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ہمارے اندر تزکیہ نفس کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
تزکیہ نفس کیا ہے؟ تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ انسان صحیح اور غلط کے درمیان فرق کر سکے اور غلط کاموں سے خود کو روکنے کی طاقت اپنے اندر پیدا کر سکے۔ اپنے نفس کو جو اکثر ہمیں غلط راستے پر چلنے کی ترغیب دیتا ہے اسے قابو میں کر سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان کا اپنے جسم پر مکمل کنٹرل ہو اور نفس کی خواہشات اور جذبات پر اس کی گرفت اتنی مضبوط ہو کہ وہ اس کے فیصلوں کے تابع ہو کر رہیں نہ کہ وہ اپنے نفس کا غلام بن کر رہ جائے۔
اسلام جس تزکیہ نفس کا قائل ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنے خالق کے آگے سر تسلیم خم کرے۔ اس کی رضا کا متلاشی ہو اور اس کی اطاعت کو اپنی زندگی کا شعار اور مقصد بنا لے۔ خود کو اس کے سامنے ہر عمل کا جواب دہ سمجھے۔
اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ روزہ کس طرح انسان کے اندر تزکیہ نفس کی طاقت پیدا کرتا ہے۔ اگر آپ نفس و جسم کے مطالبات کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ان میں تین مطالبے اصل اور بنیاد کا درجہ رکھتے ہیں اور انتہائی طاقتور مطالبے بھی یہی ہیں۔ ایک غذا کا مطالبہ جس پر ہماری زندگی کی بقا کا انحصار ہے۔ دوسرا جنسی مطالبہ جو بقائے نوع کا ذریعہ ہے۔ تیسرا آرام کا مطالبہ جو کارکردگی بحال رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
یہ تینوں مطالبے اگر اپنی حد کے اندر رہیں تو فطرت کا تقاضہ ہیں لیکن اگر اپنی جائز حد سے تجاوز کر جائیں تو انسان کی خودی اور نفس کو اپنا غلام بنا لیتے ہیں اور پھر وہ چاہ کر بھی ان کی قید سے آزادی حاصل نہیں کر پاتا۔ اس صورت میں انسان اپنے اصول اور ضمیر کی آواز کو بھول کر بس اس کے تقاضے پورے کرنے میں مصروف رہتا ہے اور اپنی زندگی کا مقصد بھول جاتا ہے۔ اس کا کام بس یہ رہ جاتا ہے کہ وہ جائز اور ناجائز طریقے سے اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کرے۔
روزہ نفس کی خواہشات کو اپنے ضابطے اور قوانین کی گرفت میں لیتا ہے اور خودی کو ان پر قابو پانے کی مشق کراتا ہے۔ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ صبح صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک ہمارے لیے حلال طریقے سے بھی ان نفسانی خواہشات کو پورا کرنا حرام ہے۔ عام دنوں سے زیادہ عبادت کرنی ہے، نماز کا اہتمام کرنا ہے۔ اللہ کی رحمت اپنی مغفرت اور جہنم سے نجات حاصل کرنا ہے۔
یہ ساری مشق محض اس لیے نہیں ہے کہ ہم اپنی بھوک، پیاس، شہوت اور آرام طلبی پر قابو رکھیں۔ نفس اور جسم پر قابو محض ایک مہینے کے لیے نہیں ہے دراصل اس کا مقصد یہ ہے کہ نفس کے زور دار حربوں کا مقابلہ کر کے ناجائز جذبات اور خواہشات پر قابو پایا جائے بلکہ ہمیشہ کے لیے ان سے نجات حاصل کر لی جائے۔ ہمارے اندر اتنی طاقت پیدا ہو جائے کہ رمضان کے علاوہ بھی گیارہ مہینے ہم صحیح اور غلط کا فرق کر سکیں، خود کو ناجائز کاموں سے روک کر بھلائی کے کاموں میں مشغول رکھیں اور اللہ کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ ان تمام برائیوں سے خود کو روکیں جو اللہ پاک کو ناپسند ہیں اور ان حدود کی پابندی کریں جو اس نے مقرر کی ہیں۔ ہماری باگیں اپنے نفس کے قبضے میں نہیں ہونی چاہیے بلکہ اپنے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ انسان کے نفس پر اس کا قابو ایسے ہونا چاہیے جیسے کسی حاکم کا اپنی مملکت پر ہوتا ہے جو اپنے عملے سے ہر وقت اپنے حسبِ منشا کام لے سکے۔ یہی طاقت پیدا کرنا روزے کا اصل مقصد ہے۔ جس شخص نے روزے سے یہ طاقت حاصل نہیں کی اس نے بلاوجہ خود کو بھوک، پیاس اور رت جگے کی تکلیف دی۔
قرآن اور حدیث دونوں میں اس بات کو واضح کر دیا گیا ہے۔ قرآن میں فرمایا گیا کہ، ’’روزے تم پر اس لیے فرض کیے گئے ہیں کہ تمھارے اندر تقویٰ کی صفت پیدا ہو‘‘۔ (سورۃ البقرہ) حدیثِ نبویؐ ہے کہ ’’جس نے جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا اس کا پانی اور کھانا چھڑوا دینے کی اللّٰہ پاک کو کوئی حاجت نہیں۔ بہت سے روزے دار ایسے ہیں جو روزے سے بھوک پیاس کے سوا کچھ نہیں پاتے‘‘۔ (صحیح بخاری)
اگر دیکھا جائے تو رمضان کا مہینہ ہمارے لیے نہ صرف عبادت کرنے اور اپنے اندر صبر اور برداشت کی صفت پیدا کرنے کا بہترین موقع ہے بلکہ اپنے نفس کو قابو کرنے اور اس کو اللہ پاک کی رضا کے مطابق چلانے کا بھی موقع ہے۔ ہم اس مقدس مہینے میں اپنی تمام بری عادتوں سے چھٹکارا حاصل کر کے خود کو ایک اچھا انسان بنا سکتے ہیں۔ اللّٰہ پاک اس مہینے میں ہمیں توبہ کرنے اور اپنی رحمت سے مستفید ہونے کے بے شمارمواقع دیتا ہے۔ جو شخص ان سے فائدہ حاصل کرلے وہ کامیاب ہے اور جو محروم رہ جائے وہ ناکام ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو اس رمضان میں تزکیہ نفس اور اپنی برائیوں سے نجات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین۔

حصہ