خلا

611

سیدہ عنبرین عالم
مجھے لگا کہ میں ملکِ شام میں ہوں اور ابھی ابھی گورے بم باری کرکے گئے ہیں۔ مگر نہیں، میں تو آرام باغ پر تھی۔ کراچی کے مشہور بازار جامع کلاتھ، بولٹن مارکیٹ، آرام باغ، اردو بازار… گویا ایم اے جناح روڈ پر آپ آئیں تو ممکن ہی نہیں کہ آپ کو اپنی ضرورت کی چیز نہ ملے۔ جو بھی ضرورت ہو، جیسی بھی ضرورت ہو۔ آہ! مگر وہ وقت نہیں رہا اب، سب تہس نہس ہوگیا۔ بربادی…!!
یہاں جگہ جگہ روتے ہوئے دکان دار موجود تھے۔ ابھی تازہ تازہ بربادی تھی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پیٹ بھرے لوگوں کی نظر میں مجرم ہیں، کیوں کہ انہوں نے اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے زمینوں پر قبضے کیے تھے۔ یہ نہ ملک ریاض تھے، نہ انہوں نے بحریہ ٹائون بنایا تھا کہ ان کے قبضے کو ’’معاف‘‘ کردیا جاتا۔ دس منٹ اور بیس منٹ کے نوٹس پر ان کی دکانوں پر بلڈوزر چلائے گئے، سامان اٹھانے کی مہلت تک نہ دی گئی۔ ایسا تو اسرائیل نے بھی فلسطینیوں کے ساتھ نہ کیا ہوگا۔ کچھ دکان داروں سے بات کرنے کا اتفاق ہوا، پوچھا کہ بھائی آپ لوگوں نے قبضہ کیا ہی کیوں تھا؟ نہ کرتے تو ایسا نہ ہوتا… ہر دکان دار نے ایک ہی بات کی کہ ہم نے KMC کو چار لاکھ، چھ لاکھ، یا دس لاکھ روپے دے کر یہ جگہ خریدی ہے، مفت میں بھلا وہ کیسے ہمیں دکان کھولنے دیتے! میں نے پوچھا: کچھ لکھت پڑھت بھی کی تھی ادائیگی کے وقت؟ جواب ملا: آدھے کراچی کی کچی بستیاں بغیر کاغذ اور بغیر لکھت پڑھت قائم ہیں، ہم نے سرکاری ادارے سے ادائیگی کی رسید تک نہیں لی، بس بھروسے پر بیس سال سے بیٹھے ہیں۔ دو دکان داروں نے بتایا کہ وہ ہر مہینے کے ایم سی کے وصولی پر آنے والے افسروں کو دس سے پندرہ ہزار روپے دیتے رہے ہیں اور دیگر بھتہ خوروں بشمول ایم کیو ایم کو ہر وصولی پر ہزار دو ہزار الگ دیتے رہے۔ ان کو شکوہ تھا کہ جب یہ ناجائز تعمیرات ہورہی تھیں اور کے ایم سی کے افسران لاکھوں روپے وصول کررہے تھے اُس وقت کیوں نہیں پکڑا؟ اب بھی ان افسروں کی کوئی پکڑ نہیں ہے۔ میئر کراچی وسیم اختر تو چائنا کٹنگ کے بادشاہ رہ چکے ہیں، جگہوں پر قبضے کرنے اور منہ مانگے داموں بیچ دینے کا ہنر اُن سے بہتر کون جانتا ہے! آج یہی شخص تجاوزات کے خلاف عَلم لے کر اٹھا ہے۔ اسے کہتے ہیں ’’نو سو چوہے کھا کے بلی چلی حج کو…‘‘
یہی وسیم اختر تھے کہ کراچی کوڑا خانہ بن گیا اور اُن سے کچرا اٹھانے کو کہا جاتا تو وسائل کی عدم دستیابی پر آنسو بہاتے تھے۔ اب سارے کراچی کو کھنڈر بنانے کے وسائل کہاں سے آگئے؟ کہا جارہا ہے کہ کراچی کو خوب صورت بنارہے ہیں۔ اگر کراچی کی اتنی فکر ہے تو کراچی کا سارا پانی بحریہ ٹائون کی طرف کیوں جا رہا ہے؟ کیا بحریہ ٹائون ناجائز طریقے سے حاصل کی ہوئی زمین پر نہیں بنایا گیا؟ کیا بنی گالا میں عمران خان کا گھر غیر قانونی نہیں ہے؟ اسے بھی گرائو اور صرف دس منٹ کے نوٹس پر گرائو جیسے غریبوں کے ٹھیلوں پر قانون کی حکمرانی قائم کی جارہی ہے۔
فیس بُک پر بھی اس مسئلے پر مسلسل بحث ہورہی ہے۔ ایک طبقے کا کہنا ہے کہ یہ غریب سرمایہ کار اصل میں ریاست کے مجرم ہیں، کیوں کہ انہوں نے ریاست کی زمین پر قبضہ کیا ہے۔ ٹھیک ہے تو ریاست انہیں مناسب روزگار دے دیتی، یہ لوگ قبضہ نہ کرتے۔ جب آپ روزگار فراہم نہیں کرسکتے تو جس کی جو سمجھ میں آئے گا، پیٹ بھرنے کے لیے کرے گا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی قحط کے زمانے میں ہاتھ کاٹنے کی سزا معطل کردی تھی۔ جب ریاست اپنی ذمے داری پوری نہیں کررہی تو اُسے کیا حق ہے کہ لوگوں کے منہ سے نوالہ چھینے! کیا ریاست صرف ٹیکس لینے کے لیے ہے عوام کو کچھ بھی فراہم کیے بغیر؟ نہ بجلی، نہ پانی، نہ روزگار، نہ تعلیم، نہ صحت… مکان بھی صرف دور دراز علاقوں میں بن رہے ہیں جو صرف عمران خان کے قریبی تعلق داروں میں بانٹے جائیں گے جیسے وزارتیں بانٹنے میں صرف دوستی دیکھی گئی، اہلیت نہیں۔ ہم کراچی والے تو کسی گنتی میں ہی نہیں، پہلے بھی ہمیں حقوق سے محروم کیا جاتا رہا اور اب کپتان صاحب، جو سچ پوچھیں تو مجھے نفسیاتی مریض لگتے ہیں، خواب میں بھی انہیں میاں صاحبان نظر آتے ہیں، اگر کرپشن کے خلاف جنگ ہے تو کیا پاناما لیکس میں صرف میاں صاحبان کا نام تھا؟ میں نون لیگ کو پسند نہیں کرتی، مگر زیادتی صاف نظر آرہی ہے۔ اس قدر خوف کپتان صاحب کے سر پر سوار ہے کہ بیرونِ ملک دوروں میں بھی ملکی مفاد کے بجائے سیاسی مخالفین کے خلاف بات کرتے ہیں۔
فیس بُک پر ہی ایک صاحب سے بحث ہوئی، فرمانے لگے کہ اگر غریب بھی ہیں تو ملک کی خوب صورتی کی خاطر غریب لوگوں کو اپنے کاروبار کی قربانی دینی چاہیے… ماشاء اللہ ایسی باتیں جدّی پشتی رئیس ہی کرسکتے ہیں۔ جب پیٹ بھرا ہوا ہو تب ہی خوب صورتی کے رموز و اسرار سمجھ میں آتے ہیں، ورنہ بھوکے پیٹ تو چاند بھی روٹی نظر آتا ہے۔ فرمانے لگے کہ غریب لوگوں کو اللہ سے دعا کرنی چاہیے کہ اللہ روزگار دے، تو اللہ کوئی سبب پیدا کردے گا۔ میں نے کہا: پھر حکومت استعفیٰ دے، ہم اللہ سے دعا مانگ مانگ کر سارے کام چلا لیں گے۔ بجلی، پانی، نوکری سب اللہ دے تو یہ کس بات کی تنخواہ لے رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ تمام اسپتال بند کردو، اللہ سے دعا مانگ کر صحت یاب ہوجائو۔
اگر حکومت کو یہ کرنا ہی تھا تو کم از کم ایک پلازہ بناتی ہر علاقے میں، اور سارے پتھارے داروں یا چھوٹی دکان والوں کو اس میں دکانیں دے دیتی۔ امریکا میں بھی پتھارے دار ہوتے ہیں جو ہاٹ ڈاگ، آئس کریم، ڈونٹس وغیرہ سڑکوں کے کنارے بیچتے ہیں اور روزی کماتے ہیں، وہاں بے روزگاری الائونس بھی دیا جاتا ہے اور شیلٹر ہومز بھی ہیں۔ پھر بھی سپر پاور کو خیال نہیں آیا کہ ان غریب ٹھیلے والوں کے اوپر بلڈوزر چلا کر اپنی عظیم الشان طاقت کا مظاہرہ کرے۔ انگریزی فلموں میں آپ کو بہ کثرت ایسے ٹھیلے والے نظر آئیں گے، ان کی محنت کو سلام کیا جاتا ہے، انہیں محنت کشوں کی فہرست سے نکال کر بھکاریوں اور ڈاکوئوں کی فہرست میں داخل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی… یہ کون سا مدینے کی ریاست ہے؟ یہ کون سا اسلام ہے؟
سچ کہوں تو مجھے اس تمام قصے میں کوئی سازش نظر آرہی ہے، ورنہ کراچی کا کچرا اور کراچی کے لیے پانی زیادہ اہم مسئلے تھے۔ اگر کوئی مخلص حکمران ہوتا تو وہ پہلے ان مسائل کی طرف توجہ دیتا، انہیں حل کرتا۔ پورے کراچی میں ملبے اور کچرے کے ڈھیر پڑے ہیں۔ خوب صورت دکانوں کے شیڈ، نام کے بورڈ اور دیگر آرائش اتاری جا چکی ہیں۔ کیا یہ ہے وہ خوب صورتی جس کے نام پر کراچی پر بلڈوزر چلا دیے گئے؟ اگر یہ سب سپریم کورٹ کے حکم پر ہورہا ہے تو سپریم کورٹ نے تو کراچی کا کچرا اٹھانے کا حکم بھی مہینوں پہلے دیا تھا، اُس وقت تو ایسی پھرتی اور تابعداری نظر نہیں آئی۔ اصل میں وسیم اختر اینڈ کمپنی بھارت کے اسلحہ کے بڑے استعمال کرنے والے رہ چکے ہیں۔ بھارت کے اشارے پر کئی بار کراچی کو شعلوں کی نذر کردیا گیا۔ ان لوگوں کو کراچی کی تباہ حالی دیکھ کر خوشی ہوتی ہے، یہ کراچی کو دبئی بنتے نہیں دیکھ سکتے۔ رہ گئی حکومتِ سندھ، تو اسے کراچی سے کوئی دلچسپی نہیں، اس کے لیے کراچی صرف نوٹ بنانے کی مشین ہے۔
اب میں آپ کو بتاتی ہوں کون سے کاروبار ختم کرنے چاہئیں۔ ’’خلائی کاروبار‘‘۔ جی ہاں وہ کاروبار جن کی کوئی بنیاد نہیں ہے، جیسے بینک۔ یہاں کچھ لوگ پیسے رکھتے ہیں، کچھ قرضہ لیتے ہیں، بینک کی اپنی نہ کوئی انویسٹمنٹ ہے اور نہ کوئی Risk۔ دوسروں کا پیسہ، دوسروں کو دیا اور خوب نفع کمایا۔ اسی طرح انشورنس کا کاروبار۔ دوسروں کا پیسہ دوسروں کو دیا اوراس پر نفع کمایا۔ اسٹیٹ ایجنسی میں بھی ایسا ہی ہے، کوئی سرمایہ کاری ہے نہ کوئی خطرہ، دونوں طرف سے صرف پیسہ لیا جاتا ہے۔ اسی طرح اسٹاک ایکس چینج جو سراسر جوا ہے، یہ کاروبار بھی خلائی کاروبار ہے کہ کسانوں سے اجناس خریدیں اور شہر لاکر بیچ دیں، بیچ میں سے اپنا نفع نکال لیا۔ یہ میں نے مثالیں بیان کی ہیں، اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ خلائی کاروبار کون کون سے ہیں۔ یہ وہ کاروبار ہیں جو مہنگائی کے اصل ذمے دار ہیں، جن کی کوئی بنیاد نہیں۔ خلا میں کاروبار چل رہا ہوتا ہے۔ سچ بتایئے کیا آپ کو کبھی سمجھ میں آیا کہ جو ملک ہمیں قرضے دیتے ہیں وہ کب ہمارے پاس پہنچتے ہیں؟ کبھی آپ نے نوٹوں کی بوریاں جہازوں سے اترتے دیکھی ہیں کیا؟ یہ صرف اعداد و شمار کا گورکھ دھندا ہے، کسی کے ہاتھ میں ایک روپیہ بھی نہیں آتا اور قرض پہ قرض چڑھتا رہتا ہے۔ میں یقین سے کہتی ہوں کہ جو لوگ اسٹاک ایکس چینج میں کام کرتے ہیں، اُن کو بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کے شیئرز کی قیمت کیسے بڑھی اور گھٹی۔ یہ خلائی کاروبار شیطانی چکر ہیں۔ خلا میں کھڑی معیشت کبھی بھی زمین بوس ہوسکتی ہے اور لمحوں میں پورا ملک دیوالیہ ہوجاتا ہے اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔
اس کا حل کیا ہے؟ فلاحی مملکت۔ حکومت کو اپنا کردار ادا کرنا پڑے گا۔ حکومت کے بینک ہوں جو عوام کے پیسے کی حفاظت کریں اور اس پیسے سے کاروبار کرکے منافع بھی کمائیں اور روزگار بھی فراہم کریں۔ آپ یقین کیجیے کہ یہ ماڈل اپنا لیا جائے تو کسی ملک سے کوئی قرضہ نہیں لینا پڑے گا، تمام بینک سرکاری ہوں گے تو عوام کا سارا پیسہ حکومت کی تحویل میں ہوگا۔ اس سے منافع بخش کاروبار کریں، منافع کی مناسبت سے عوام کو بھی حصہ دیں، اور جو کاروبار شروع ہوں گے وہ نہ صرف روزگار فراہم کریں گے بلکہ ملکی معیشت کو بھی ٹھوس بنیاد فراہم کریں گے۔ اسی طرح انشورنس بھی سرکاری ہوگی، اس کے لیے ہم پریمیم نہیں دیں گے بلکہ جب عوام کا بڑا حصہ حکومتی ملازم ہے تو منافع میں سے ہی ایک حصہ حادثات پر لوگوں کی مدد کے لیے مختص کردیا جائے گا اور ایک حصہ یتیموں، بیماروں اور بوڑھوں کے لیے مخصوص کیا جائے گا۔ ایک عام آدمی جتنا بھی بڑا کاروبار کرلے، وہ محدود ہی ہوگا، جب کہ اگر حکومت کاروبار کرے تو وہ بین الاقوامی سطح پر ہوسکتا ہے جس سے لامحدود منافع بھی کمایا جاسکتا ہے۔ اس لیے ایک فلاحی مملکت کا خاکہ یہ ہے کہ وہ Risk خود اٹھائے اور عوام کو سہولیات بغیر شرائط کے فراہم کرے، یعنی ایک حکومتی ملازم کو تنخواہ لازمی ملے گی، کاروبار کی اونچ نیچ حکومت برداشت کرے گی۔
کسانوں کو سہولیات دینا، پھر اُن سے اجناس خریدنا، گھر سرکاری طور پر عہدے کے حساب سے فراہم کرنا اور دیگر کاروباروں میں بھی خلا نہ پیدا ہونے دینا حکومت کے کام ہیں… ایسا خلا جس میں بیٹھ کر کوئی منافع خور اپنا ناجائز حصہ بٹورے اور معیشت میں عدم استحکام پیدا ہو۔ یہ ہیں وہ ٹھوس اقدامات جو کسی ملک کو ترقی کی جانب لے جاتے ہیں۔ خلائی معیشت جہاں وزیراعظم تک کو سمجھ میں نہ آرہا ہو کہ ڈالر کی قیمت کیسے بڑھ گئی اور کون بیچ میں منافع کھا رہا ہے، صرف تباہی ہے۔
معیشت کی ترقی کی بہترین شکل وہ تھی جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رائج کی۔ اس سے زیادہ یا اس سے کم دونوں شیطانی چکر ہوں گے۔ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کرنسی سونے یا چاندی کے سکّے تھے جو ہمیشہ ایک قدر پر قائم رہتے تھے۔ کسی یہودی کا شیطانی ذہن کسی ملک کی کرنسی کی قدر گراکر اس کی بربادی کا سامان نہیں کرسکتا تھا۔ آپ خود سوچیے، کاغذ کے چیتھڑے کی کیا حیثیت ہے! آپ دس لاکھ روپے جمع کریں، دوسرے دن روپے کی قدر گر جائے تو رکھے رکھے آپ کے دس لاکھ کی قدر آٹھ لاکھ رہ گئی، یہ بھی خلائی کرنسی ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں۔ ذرا سوچیں تو سہی کہ یہودی آخر اتنا سونا کیوں جمع کررہے ہیں؟ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں ٹنوں کے حساب سے یہودیوں کا سونا جمع ہے، کیوں کہ انہیں معلوم ہے کہ اوّل وآخر سونا ہی اصل کرنسی ہے، جب بھی وقت کا پہیہ گھوما اور لوگ اس خلائی معیشت کی اصل جان کر اس سے چھٹکارا حاصل کر گئے تو نہ ڈالر چلے گا، نہ ریال۔ صرف اور صرف سونا چاندی ہی خریدوفروخت کی ضمانت ہوں گے۔
اسلامی معیشت کا بنیادی اصول جو قرآن میں بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جو ضرورت سے زائد ہو وہ اللہ کی راہ میں خرچ کردو۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے کلیجے میں خنجر گھونپنے والا قانون ہے، یعنی حد مقرر ہوگئی، یہ نہیں کہ ایک شخص پاکستان میں 100 بنگلے بنانے کے بعد دبئی اور امریکا میں بھی جائدادیں خریدے، اور دوسرا شخص فٹ پاتھ پر سوئے۔ بلکہ جو ضرورت سے زائد ہے وہ اللہ کی راہ میں جائے گا تاکہ فٹ پاتھ پر سونے والے کو بھی گھر ملے۔ یہی اسلامی معیشت ہے، یہی وہ نظام ہے جس میں کوئی بھوکا نہیں سوتا اور کوئی بغیر علاج نہیں مرتا، جس میں لالچ نہیں رہتا، کیوں کہ معلوم ہوتا ہے کہ جتنی بھی بے ایمانی سے پیسہ کما لیں، ایک حد سے زیادہ رکھ ہی نہیں سکتے تو لالچ کا فائدہ؟ اور خلیفۂ وقت ہر علاقے کی معیشت کے حساب سے حد مقرر کرسکتا ہے۔ اللہ نے اس کا کوئی لازمی قانون نہیں بنایا۔
یہ ہیں بنیادی اقدامات جو ایک ملک کے حکمران کو سوچنے چاہئیں۔ مگر ہمارے حکمران سطحی سوچ رکھتے ہیں اور نمائشی اقدامات سے اپنے نمبر بڑھانا چاہتے ہیں۔ جب تم روزگار دے نہیں سکتے تو روزگار چھیننے کا حق تمہیں کس نے دیا؟ جو حکمران ہیں وہ دین کے علم اور حکمت سے محروم، اور جن کے پاس دین کا علم اور حکمت ہے انہیں بدمعاشی نہیں آتی کہ حکومت حاصل کرسکیں۔ یعنی دونوں صورتوں میں خسارہ ہی خسارہ ہے دنیا کا بھی اور آخرت کا بھی۔ اللہ رحم کرے۔ قیادت کا بھی خلا ہے، اور خلا میں تو منافع خور گھس ہی جاتے ہیں۔

حصہ