تعلیم میں امیر غریب کی تفریق نہیں ہونی چاہیے،احمد سایہ

583

فائزہ مشتاق
اساتذہ کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی اہمیت رکھتے ہیں۔ بچوں کی شخصیت کو نکھارنے میں والدین کے بعد اساتذہ کا کلیدی کردار ہوتا ہے‘ ان کی رہنمائی میں طلباء اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ پاتے ہیں۔ زندگی کی راہ پر جب ایک بچہ گامزن ہوتا ہے تو والدین کے بعد استاد ہی ہے جو اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں ہٹانے کے لیے قدم بہ قدم کوشاں رہتا ہے۔ استاد کی اہمیت ایک باپ کی طرح کی ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے بہت سے اساتذہ ہیں جو اپنی ذمے داری بخوبی نبھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اور اپنے فرائض کو خوش اسلوبی سے انجام دیتے ہیں۔ احمد سایہ کا شمار بھی ایسے ہی استادوں میں ہوتا ہے جنہوں نے جنوری 2019ء میں دنیا کے ’’بہترین استاد‘‘ کا اعزاز اپنے نام کرکے پاکستان کا مثبت تاثر پوری دنیا میں پیش کیا جو ہمارے لیے قابلِ فخر بات ہے۔ انہوں نے یہ کامیابیاں کیسے حاصل کیں؟ اس کے بارے میں جاننے کے لیے ہم نے ان سے رابطہ کیا اور ان سے گفتگو کی جو کہ قارئین لیے پیش خدمت ہے:
جسارت میگزین: آپ کو ’’بہترین استاد‘‘ کا اعزاز ملا‘ سب سے پہلے اس کے بارے میں کچھ بتایئے؟
احمد سایہ: اس سال کیمبرج یونیورسٹی پریس ایجوکیشن کی جانب سے پہلی مرتبہ ’’ڈیڈیکیٹڈ ٹیچرز ایوارڈ‘‘ کا انعقاد کیا گیا اس سلسلے میں ان کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ پوری دنیا کے طالب علم اپنے ڈیڈیکیٹڈ ٹیچرز کو ووٹ دیں اور ان کے متعلق چند سطروں میں اپنے خیالات کا اظہار بھی کریں۔ اس طرح 120 ممالک میں سے 4 ہزار ٹیچرز کو نامزد کیا گیا۔ کیمبرج یونیورسٹی نے ان میں سے پہلے تو 50 کا انتخاب کیا پھر ان 50 میں سے 6 کا انتخاب ہوا۔ میرے علاوہ باقی 5 کا تعلق بھارت‘ سری لنکا‘ ملیشیا‘ آسٹریلیا اور فلپائن سے تھا۔ ایوارڈ کا فیصلہ ووٹنگ کی بنیاد پر کیا گیا۔
جسارت میگزین: تعلیمی پس منظر کے بارے میں بتایئے؟
احمد سایہ: میں نے کراچی کے اسکول سے O اور A لیول کرنے کے بعد ACCA کیا ساتھ ہی آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی سے اپلائیڈ اکائونٹنگ میں بی ایس سی (آنرز) کیا۔ بعد میں نجی یونیورسٹی سے ایم بی اے مکمل کیا۔
جسارت میگزین: تدریس کا شعبہ کیوں اپنایا؟ شوق یا کوئی اور وجہ تھی؟
احمد سایہ: میں جب نویں جماعت میں تھا جب سے پڑھا رہا ہوں‘ آہستہ آہستہ مزا آنے لگا‘ دل چسپی بڑھتی گئی بعدازاں پھر اس شعبے میں ہی اپنا کیریئر بنانے کا فیصلہ کیا اس کے علاوہ ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ مجھے احساس ہوتا گیا کہ یہ شعبہ ایسا ہے کہ آپ معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں‘ کوشش کرتا ہوں کہ اپنے قول و فعل سے طلباء کو مثبت سوچ فراہم کرسکوں۔
جسارت میگزین: ٹیچنگ کرتے ہوئے کتنا عرصہ ہوگیا؟ اب تک کون کون سے اسکولوں میں پڑھا چکے ہیں؟
احمد سایہ: میں نے پڑھائی کے دوران ہی تدریس شروع کر دی تھی۔ مجھے پڑھاتے ہوئے 18 سال ہوگئے ہیں اور مختلف معروف نجی اداروں سے وابستہ ہوں۔
جسارت میگزین: آپ کون سے مضامین پڑھاتے ہیں؟
احمد سایہ: اے لیول کی میتھ اور اکائونٹنگ میرے مضامین ہیں۔ ابتدا سے ہی یہی مضامین پڑھاتا آرہا ہوں۔
جسارت میگزین: ہمیشہ اے اور او لیول پڑھایا اس کی کوئی خاص وجہ؟
احمد سایہ: خود اے ‘ او لیولز کیا اسی لیے ہمیشہ کیمبرج سسٹم میں پڑھایا اس کے علاوہ میں نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے غریب بچوں کے لیے “The Bridge School” کے نام سے چھ سال سے ایک اسکول قائم کر رکھا ہے۔ فی الحال یہ اسکول نرسری سے کلاس 6 تک ہے۔ اس اسکول کا مقصد غریب بچوں تک معیاری تعلیم پہنچانا ہے تاکہ امیر اور غریب کے مابین علمی فرق کو مٹایا جاسکے۔ انہوں نے ماہرین تعلیم سے گزارش کی کہ وہ ضرور پسماندہ طبقے کے لیے اپنی خدمات دیں تاکہ ملک میں شرح خواندگی بڑھ سکے۔
جسارت میگزین: اتنا بڑا اعزاز حاصل کرنے کے بعد کیسا محسوس کر رہے ہیں؟
احمد سایہ: ذمے داری پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اب مجھے اس اعزاز کو نبھانا ہے۔ کوشش کرنی ہے کہ اس مقام پر پورا اتر سکوں اور مزید سخت محنت اور ذمے داری سے کام سرانجام دے سکوں۔ خوشی اس بات کی ہے کہ اپنے مک کا نام روشن کرنے کا موقع ملا۔ بین الاقوامی سطح پر اپنے ملک کی نمائندگی پر فخر ہے۔
جسارت میگزین: سنا ہے آپ مصنف بھی ہیں؟
احمد سایہ: میتھ اور اکائونٹنگ کی کچھ کتابیں لکھ چکا ہوں اور کچھ لکھنے کے مراحل میں ہیں۔
جسارت میگزین: آپ اتنے سال سے تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں بحیثیت استاد شعبے میں کیا فرق آیا؟
احمد سایہ: سب سے واضح فرق طالب علموں میں نظر آیا۔ آج کا طالب علم محنتی نہیں ہے‘ مطالعے کا رجحان تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ آج گوگل نے کام آسان تو کر دیا لیکن ان کی معلومات محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
جسارت میگزین: آپ کو لگتا ہے کہ آج کے اساتذہ اپنا کردار بہ خوبی نبھا رہے ہیں؟
احمد سایہ: کسی بھی معاشرے میں اساتذہ کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ یہ ایک عام تاثر ہے کہ استاد کی ذمے داری صرف نصاب ختم کروانا ہے‘ کلاس لینا ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔ تربیت کرنا‘ اصلاح کرنا‘ ذہن سازی کرنا بھی استاد کے فرائض میں شامل ہیں۔
جسارت میگزین: کیا ٹیچر کی کائونسلنگ کے لیے اسکولوں میں الگ شعبہ قائم کرنے کی ضرورت ہے؟ مستقبل میں ایسا کوئی ادارہ قائم کرنے کا ارادہ ہے؟
احمد سایہ: بالکل ایسے شعبہ جات قائم ہونے چاہئیں۔ میں ٹیچرز ٹریننگ اور کائونسلنگ بھی کرتا ہوں جس میں ان کو بتانے کی کوشش کرتا ہوں کہ تدریسی عمل کو کیسی بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
جسارت میگزین: تعلیم کومحض کاروبار بنا دیا گیا ہے‘ اس کا ذمے دار کون ہے؟
احمد سایہ: اس کی سب سے بڑی ذمے دار حکومت ہے۔ اگر حکومت خود ادارے قائم کرتی تو پرائیویٹ سیکٹر کو اس طرح مواقع ہرگز نہ ملتے نہ ہی تعلیم کاروبار بن پاتا۔ وہ لوگ بھی ذمے دار ہیں جو اس شعبے میں آگئے لیکن انہوں نے ملکی مفاد پر ذاتی مفاد کو فوقیت دی۔
جسارت میگزین: طلباء اور والدین اختیاری مضامین یا فیلڈ کو چنتے ہوئے پریشان نظر آتے ہیں؟ اس سلسلے میں کیا رہنمائی کریں گے؟
احمد سایہ: میں بچوں سے یہی کہوں گا کہ اپنی صلاحیت کو پہچانیں جس میں آپ کی قابلیت ہو‘ وہ مضامین یا فیلڈ اپنائیں۔ والدین سے گزارش ہے کہ وہ بچوں پر اپنی مرضی مسلط نہ کریں ان کے شوق کے مطابق ان کو آگے بڑھنے دیں۔
جسارت میگزین:پاکستان میں ذہین افراد کی کمی نہیں ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ وہ صحیح سمت میں Polish نہیں ہو پاتے؟
احمد سایہ: ہمارے معاشرے میں یکساں مواقع کی کمی ہے۔ ایسے بہت سارے طلباء ہیں جو بہت قابل ہیں لیکن ان کو کوئی ایسا فورم نہیں دیا گیا جہاں وہ اپنی قابلیت ابھار سکیں۔ یہ فورم فراہم کرنے کی ذمے داری حکومت کی ہے۔
جسارت میگزین: طلباء نمبروں کی دوڑ میں لگ گئے‘ ذمے دار کس کو ٹھہرائیں گے؟
احمد سایہ: گریڈ اہمیت رکھتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ان میں تعلیم کا مقصد اجاگر کرنا اساتذہ کے فرائض میں شامل ہے۔
جسارت میگزین: تعلیمی نظام تنزلی کا شکار ہے اس کی وجہ ہے؟
احمد سایہ: اس کے کئی پہلو ہیں۔ طلبا کی پڑھائی سے دوری‘ حکومت کی نااہلی‘ اساتذہ کی بددیانتی‘ والدین کا بچوں کو پریشرائز کرنا۔ یہ سب ایسے عوامل ہیں جس نے نظام کو مفلوج کر دیا ہے۔
جسارت میگزین: آپ کے خیال میں ذریعہ تعلیم مادری زبان میں نہ ہونا تخلیقی صلاحیتوں پر اثر انداز ہوتا ہے؟
احمد سایہ: جی بالکل کسی حد تک ہوتا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ ہمیں مختلف زبانیں سیکھنی چاہیے‘ عبور ہونا چاہیے تاکہ ہم دنیا کے مطابق چل سکیں۔
جسارت میگزین: ملک میں یکساں نظامِ تعلیم ہونا چاہیے؟
احمد سایہ: یکساں تعلیمی نظام ہونے کا مکمل حمایتی ہوں‘ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں چار مختلف نظام ہیں جس سے تعلیمی معیار پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔
جسارت میگزین: اپنی فیملی کے بارے میں کچھ بتایئے؟
احمد سایہ: میری فیملی میں والدین کے علاوہ بڑی بہن‘ چھوٹا بھائی اور بیوی شامل ہیں۔
جسارت میگزین: جو نوجوان اس تدریس کے شعبے میں اپنا کیریئر بنانا چاہتے ہیں ان کو کیا کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
احمد سایہ: انہیں میرا مشورہ ہے کہ وہ پوری لگن‘ محنت اور دل چسپی سے اپنے کام کو سرانجام دیں یہ سوچے بغیر کہ اس سے ہِماری ذات کو کیا فائدہ ہوگا۔ مقابلہ کرنا ہے تو خود سے کریں کسی اور سے نہیں یہی مقابلہ آگے بڑھنے کی جستجو بناتا ہے۔
جسارت میگزین: استادِ محترم اپنا قیمتی وقت دینے کا بہت شکریہ۔

حصہ